سیاستکے سوا ہمیں ہر بات بہت چھوٹی اور غیر اہم لگتی تھی اور آج بھی ہے ۔ گزرتے وقت کے ریلے میں ہمارا بہت سارا قومی سرمایہ بہہ گیا مگر ہم نے جیسے دیکھا ہی نہیں ۔ اس دوران ہمارا قومی افتخار جھیل ڈل سکڑتا رہا اور اس کا آدھے سے زیادہ حجم کم ہوا مگر ہم نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ جہلم کی شان و شوکت ہماری نظروں کے سامنے مٹتی رہی ہمیں ذرابھی فکر نہیں ہوئی ۔ ہمارے قومی ورثے وقت کے بے رحم ہاتھوں سے ٹوٹتے پھوٹتے رہے ہم لاتعلق رہے ۔ ہماری تہذیبی قدریں زوال کا شکار ہوتی رہیں ہم نے دھیان نہیں دیا ۔ ہماری اخلاقی قدریں پامال ہوتی رہیں ہم لاتعلق رہے ۔ ہمارے روز مرہ کے مسائل تکلیف دہ حد تک بڑھتے رہے مگر ہم نے کچھ نہیں کہا نہ کچھ کیا ۔گزشتہ ستر سال سے ہم نے بجلی کی عدم دستیابی پر کوئی جلوس نہیں نکالا ۔ کوئی احتجاج نہیں کیا ۔پانی کے مسئلے پر بھی ہم نے کبھی آواز نہیں اٹھائی ۔ رشوت ستانی کی وبا بڑھتی رہی اور ہمارے رگوں کاخون چوستی رہی مگر ہم نے اُف تک نہیں کی ۔لٹیروں نے ہماری آنکھوں کے سامنے سرکاری زمینیں ہڑپ کرلیں ہم تماشا دیکھتے رہے ۔
مسجدوں کے نام پر ، ’’مقبوضہ اہل اسلام ‘‘کا بورڈ لگا کر جن زمینوں پر شاپنگ کمپلکس کھڑے ہوئے وہ اب بھی خالصہ سرکار کے نام پر درج ہیں ۔ہمارے گرین بیلٹ کو سیمنٹ کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کیا جارہا ہے ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ یہ گرین بیلٹ کیا تھا اور کیوں تھا اس پر ہوٹلوں اور بستیوں کی تعمیر سے ڈل کا کیا ہوگا اورڈل کے ختم ہونے سے ہمارا کیا ہوگا ۔ہماری وادی میں بے شمار چشمے تھے جن میں سے کئی ایسے تھے کہ جن کا پانی کئی بیماریوں کے لئے شفاء کا باعث ہوتا تھا اب وہ ماضی کی یادوں میں دفن ہیں ۔
ہمارا تعلیمی نظام بگڑ گیا ایسے بگڑا کہ اکثر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کسی بھی زبان میں ایک خط یا ایک درخواست لکھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے ۔ڈگریاں ان کے پاس ہیں اور جمہوری ایوانوں میں پیسے یا اثر ورسوخ کے بل پر وہ نوکریاں بھی حاصل کرتے ہیں پھر جن محکموں میں تعینات ہوتے ہیں انہیں برباد کرکے رکھ دیتے ہیں ۔ہمارا ڈرینیج نظام کروڑوں اوراربوں روپے خرچ کئے جانے کے باوجود بھی ناکارہ اور بیکار ہے ۔ بارش کا ایک دن ہماری شاہراہوں کو دریاوں میں تبدیل کردیتا ہے ۔ بائیس ہزار فٹ پانی اپنے اندر سمانے کی صلاحیت رکھنے والی فلڈ چینل اب چار ہزار فٹ پانی سمانے کے قابل بھی نہیں رہی ہے ۔چوبیس گھنٹے کی بارش اب اس کشمیر میں سیلاب کا خطرہ پیدا کرتی ہے جہاں ہفتوں مسلسل بارش کے بعد بھی سیلاب کا خطرہ پیدا نہیں ہوا کرتاتھا ۔
عالمی شہرت رکھنے والی ولر جھیل بھی آخری دن گن رہا ہے ۔زعفران پیدا کرنے والی ہماری زمین بھی اب رفتہ رفتہ ختم ہورہی ہے ۔ہماری دستکاریاں ماضی کا قصہ بن رہی ہیں ۔ کشمیری قالین کا مارکیٹ بھی ختم ہوچکا ہے ۔ سیب اور خشک میوے کی صنعت بھی زوال پذیر ہے کیونکہ کشمیری میوے کے مقابلے میں ہماچل میں زیادہ بہتر کوالٹی کا میوہ پیدا ہوتا ہے ۔ہماری زبان ختم ہوگئی ہے ۔ہماری نئی نسل کی کوئی مادری زبان نہیں ہے ۔ زبان کے خاتمے کے ساتھ اس انفرادی کلچرل کی دھجیاں بکھر چکی ہیں جس پر ہماری گزری نسلوں کو بڑا ناز تھا ۔باہر کی ہوا کو ہم تہذیبی جارحیت کا نام دیتے ہیں لیکن اپنی بنیادوں کو مسمار کرکے ہم اپنے لئے اس ’’تہذیبی جارحیت ‘‘کے سواکوئی راستہ کھلا نہیں چھوڑ رہے ہیں ۔ہم نے اپنے لٹریچر ، اپنی تاریخ اور اپنی ثقافت سے ناطہ توڑ دیا ہے ۔نئی نسل کاکوئی واسطہ اب نہ رسول میر کے ساتھ ہے اور نہ علامہ اقبال کے ساتھ ۔اب جان کیٹس اور ولیم شیکسپیر ان کے ذہنی ارتقاء کا سفر متعین کرتا ہے لیکن ان کی اپنی خمیر میں یہ جذب نہیں ہوتا اور آخر کاران کا ذہن متعدد تضادات سے بھرجاتاہے ۔المیہ یہ ہے کہ اب کوئی نہیں ہے جو ان باتوں پر سوچے ۔ کیا مسئلہ کشمیر کے حل ہونے سے ہمارے یہ بنیادی مسائل حل ہوں گے ۔ اس پر بھی غور کرنے کی فرصت کسی کو نہیں اور یہ مسائل جن نئے مسائل کو جنم دے رہے ہیں وہ مسئلہ کشمیر کا کیا حال بنادیں گے یہ بھی ایک غور طلب بات ہے ۔
آ ج ہمارے قریباً پچپن فیصد نوجوان متعدد ذہنی بیماریوں کے شکار ہیں کچھ سال قبل سرکردہ ماہر نفسیات ڈاکٹرمشتاق مرغوب نے کچھ سال قبل اس سلسلے میں جو اعداد و شمار منظر عام پر لائے وہ چونکا دینے والے ہی نہیں بلکہ دل ہلادینے والے تھے ۔ ہمارے واحد نفسیاتی امراض کے ہسپتال میں کئی دہائیاں قبل مہینے میں دو یا چار مریضوں سے زیادہ نہیں آتے تھے اب ہر روز درجنوں مریض داخل ہوتے ہیں ۔ آج نفسیاتی امراض کے سینکڑوں پرائیویٹ کلینک ہر جگہ موجود ہیں جن میں بھاری رش رہا کرتا ہے ۔نفسیاتی امراض کے ماہر ڈاکٹروں کی متفقہ رائے ہے کہ نئی نسل غیر معمولی حد تک نفسیاتی امراض کا شکار ہورہی ہے ۔نوجوانوں میں نشہ آور اشیاء کے استعمال کی عادت بھی عام ہوچکی ہے یہاں تک کہ نوجوان لڑکیاں بھی کئی نشہ آور اشیاء کا استعمال کررہی ہیں۔ہمارے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں کھلے عام چرس ، بھنگ اور افین کی کاشت کھلے عام ہوتی ہے کوئی اس کا نوٹس نہیں لیتا ۔ کئی علاقوں تک پولیس بھی نہیں پہونچ پاتی ہے ۔ ا س سال پولیس نے منشیات کیخلاف مہم چلائی تو ڈیڑھ سو سے زیادہ سمگلروں کو نشہ آور اشیاء کے ساتھ گرفتار کرلیا ۔
جب ہمارے کچھ نوجوان قومی سطح کے امتحانات یا کھیلوں میں امتیازی پوزیشنیں حاصل کرتے ہیں تو ہم بہت اتراتے ہیں ، بہت خوش ہوتے ہیں لیکن اس طوفان کی طرف نظر نہیں ڈالتے جو ہمیں اندر ہی اندر بیخ و بن سے اکھاڑ رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے ساتھ ہمیں ان مسائل کوبھی زیر بحث لانا چاہئے ، ان پر غور کرنا چاہئے اور ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔اس میں شک نہیں کہ مذہب کی طرف بھی ہمارے نوجوانوں کا رحجان بڑھ رہا ہے لیکن اس کے مقابلے میں منشیات کی طرف رحجان زیادہ ہے اس لئے یہ ایک قومی مسئلہ ہے ۔ ہمارے نوجوانوں میں وہ اخلاقی قدریں بھی باقی نہیں رہی ہیں جو کبھی بڑی مستحکم تھیں ۔ بچے بڑوں کی عزت نہیں کرتے ۔ ماں باپ کا کہا نہیں مانتے ۔ من مانیاں کرتے ہیں اور برائیوں کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں ۔ بے راہ روی آج ایک فیشن بن چکا ہے ۔ لڑکیاں راہ چلتے موبائیل فونوں پر مصروف ہوتی ہیں چھوٹی چھوٹی بچیوں کے اخلاق اور آداب بھی بگڑ چکے ہیں ۔
ہم انٹر نیٹ اور ٹی وی کو اس کا ذمہ داریا مذہب سے دُوری اس کی وجہ قرار دے کر جان نہیں چھڑا سکتے ۔ہمیں اس طوفان کو روکنے کی تدبیریں لازمی طور پر سوچنی ہوں گی ورنہ تاریخ ہمیں ہی اس کا ذمہ دار قرار دیکر ہمیں مجرموں میں شامل کردے گی ۔
( ماخذ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)