نئی دہلی//پلوامہ حملے کے پس منظر میں جاری ایک نئے معیاری ضابطہ کار کے مطابق اب کشمیر وادی سے باہر یاادھراُدھر نقل کرنے والی کسی بھی سی آر پی ایف کانوائے کی کمان ایس پی عہدے کاافسر کرے گااور کسی بھی کانوائے میں چالیس سے زیادہ گاڑیاں نہیں ہوں گی۔نئے ضابطہ کار میں پہلی تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ کانوائے کی کمانڈ اب جونیئر افسر جواسسٹنٹ ایس پی کے عہدے کے برابر ہوتا ہے ،کے بجائے اب ایس پی عہدے کاافسر کرے گا۔اس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کانوائے کی کمان ایک تجربہ کار افسر کے ہاتھ میں ہوگی جسے کشمیر وادی میں کانوائے کو بہتر طور سنبھالنے کا تجربہ ہو۔اس سے جوابدہی کے مراتب میں اضافہ ہوگااورکانوائے کمانڈر براہ راست اب کشمیر میں سی آر پی ایف کے تین ڈپٹی انسپکٹر جنرلوں کے ساتھ تال میل اوررپورٹ کرے گا۔کانوائے کمانڈر عمومی طور ایک کمیونیکیشن آلات سے لیس گاڑی میں آگے آگے سفر کرتا ہے ۔یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ اب کانوائے میں 40سے زیادہ گاڑیاں نہیں ہوا کریں گی اور کانوائے میں گاڑیوں کی کم سے کم تعداد10 اور20کے درمیان رکھنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے گی جنہیں آسانی کے ساتھ کنٹرول کیاجاسکے ۔14فروری کو سی آر پی ایف کی78گاڑیوں کی کانوائے میں پانچویں گاڑی کو جیش محمد کے خودکش بمبار نے اُس وقت نشانہ بنایا تھا جب اُس نے بارود سے لدیSUVگاڑی کو پلوامہ میں کانوائے سے ٹکرایاتھا۔2500فورسزاہلکاروں پر مشتمل اس کانوائے کی کمان ایک اے سی عہدے کاافسر کررہا تھااوراس حملے میں بس میں سوار39اہلکار ہلاک ہوئے تھے ۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہر ایک گاڑی میں ایک سب انسپکٹر عہدے کاافسراس بات کو یقینی بنائے گا کہ سواریاں نشستوں پر پلان کے مطابق بیٹھیں گی ۔کانوائے میں بلٹ پروف موبائل بنکر متواتر طور بیچ بیچ میں ساتھ چلیں گے ۔ سی آر پی ایف ادھمپور میں اہلکاروں کیلئے ایک مکمل ٹرانذٹ کیمپ بھی قائم کرے گی جس سے کہ کانوائے کی کشمیر تک مسافت میں 70کلومیٹر کم ہوگی ۔اس وقت سی آر پی ایف کا ٹرانزٹ کیمپ جموں میں ہے اور ایک کانوائے کو سرینگر تک کا300کلومیٹرکا سفرطے کرنے میں10سے12گھنٹے لگتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ 3لاکھ اہلکاروں پر مشتمل سی آر پی ایف کی65بٹالین یا70ہزار اہلکار کشمیر میں تعینات ہیں ۔