گورنرستیہ پال ملک کا کہنا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں 22ہزار کشمیری طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں ۔لیکن یہ تعداد صرف وہ ہے جو کسی وجہ سے سرکاری اعداد وشمار میں شامل ہے جبکہ اس سے کہیں زیادہ تعداد انفرادی سطح رپ بھارت کے بہت سارے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہے ۔مجموعی طور پر یہ تعداد لگ بھگ ایک لاکھ کے قریب ہوسکتی ہے ۔اس کے علاوہ نوئیڈا سے لیکر کیرلا تک ہزاروں لوگ بغرض تجارت اس ملک کے شہروں میں رہائش پذیر ہیں۔چونکہ یہ سرمائی چھٹیوں کا موسم تھا،اس لئے ایک دو لاکھ لوگ اجمیر سے جموں تک دوران سفر تھے ۔یوں مجموعی طور پرسارے بھارت میں لگ بھگ پانچ لاکھ کشمیری موجود تھے جب لیتہ پورہ پلوامہ کا ہولناک واقعہ ہوا جس میں بتایا جاتا ہے کہ لگ بھگ پچاس سیکورٹی اہلکار مارے گئے ۔اس طرح سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پلوامہ واقعہ کے بعد پورے پانچ لاکھ میں سے کم ازکم بیس فیصد یعنی لاکھ شدید خطرے میں تھے کیونکہ اس کے بعد خون اور بدلہ لینے کیلئے جس طرح سے نہ صرف ٹیلی ویژن اداروں نے کشمیریوں کے خلاف طبلِ جنگ بجایا ، اس سے کہیں زیادہ مرکزی حکومت اس میں مدد گار ثابت ہورہی تھی ۔ اگر چہ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ جی نے نرم الفاظ میں ایک ایڈوائزری جار ی کی لیکن ملک کا وزیراعظم اس حوالے سے نہ صرف خاموش رہا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ انہوںنے ہندوستان کے عوام کو2002کے گجرات طرز کے فسادات کرنے کا اشارہ دیا تویہ بے جا نہ ہوگا۔14فروری کے واقعہ کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے آسام میں18فروری کے ایک جلسہ میں بار بار زور دیکر لوگوں سے کہا کہ آپ کے دل میں جو آگ ہے ،وہ میرے دل میں بھی ہے ۔یہ بدلے کی آگ کی بات ہورہی تھی ۔اس کی وضاحت کیلئے سوچنے کیلئے کچھ نہیں چھوڑا گیابلکہ اس سے قبل بار بار ہزار بار کہاجاتا رہا کہ اس بار وہ خون کا بدلہ ضرور لیں گے اور خون کا بدلہ لینے کیلئے فسادی عناصر کیلئے ہی کشمیری بے بسی کے عالم میں ہر جگہ موجود تھے ۔ دہرادون ،ہریانہ ،مہاراشٹرا،نوئیڈا ،یوپی سے لیکر مغربی بنگال تک بدلے کی ایک شدید لہر اٹھی ۔ جموں توپروگرام کے مطابق جل رہا تھا۔یہاں تو صاف نظر آیا کہ اس نام نہاد مسلم اکثریتی ریاست کے جموںہندو غلبہ والے خطہ میں پولیس نے ابتدائی گھنٹوں یا کم ازکم پورا دن تماشا دیکھا ۔اگر چہ جو کچھ ہوا تو بہت ہی برا ہوا ،خطر ناک ہوا،ناقابل یقین ہوا تاہم خون کا وہ تماشا ہوا جس کی سنگھ پریوار کو امید ہوسکتی تھی ۔اس بار جموں کے ہندو عوام نے سنگھ پریوار کو اس خونی کھیل میں 1947قسم کا تعاون نہیں دیا۔خون اور خوف کے ماحول میں جموں کے مسلمانوں بالخصوص گجر برادری نے جو تاریخی کارنامہ انجام دیا ،وہ کشمیری نسل در نسل گہرے احسان مندی کے جذبات کے ساتھ یاد رکھیں گے۔بٹھنڈی کی مکہ مسجد میں دس ہزار لوگوںکو نہ صرف پناہ دی گئی بلکہ انہیں کھانا پینا اور ہر طرح کا آرام بہم پہنچایاگیا۔جہاں حکومت تماشا دیکھ رہی تھی ،وہاں جموں کے مسلمان برادری نے وہ کام انجام دیاجو نہایت ہی منظم طور پر ایک حکومت بھی شاید نہیں کرسکتی ہے ۔انہوںنے واقعی مسلم اخوت کا تاریخی اور عملی ثبوت دیاجس کی جتنی بھی تعریف و تشریح کریں ،کم ہے۔جموں کے مسلمانوں نے 1947کی قیامت دیکھی ہے ،اس لئے وہ تکلیف میں گھرے انسانوں بالخصوص وادی کے مسلمانوں کا درد بہت خوب سمجھتے ہیں۔
بات ان ہزاروں طلباء و طالبات اور دیگر کشمیریوں کی ہورہی تھی جو اس فساد زدہ ماحول میں گھر چکے تھے جن کے بارے میں ’’میرے دل میں بھی آگ ہے ‘‘کا نعرہ لگایا جا چکاتھا۔اس ماحول میں خواجہ عشرت جیسے نڈر اور بہادرنوجوان،پی ڈی پی لیڈروں فیاض احمدمیر،جاوید احمد اوروحید پرہ کے کردار کونہیں بھلایا جاسکتا ہے وہیں پر دس دن بعد ہی سہی ایک ایسی مدد حاصل ہوگئی جس کی کبھی توقع نہ تھی ،وہ شیو سینا ہے ۔بال ٹھاکرے کے پوتے نے مہاراشٹرامیں کشمیریوں کے خلاف حملوں کے خلاف نہ صرف بولا بلکہ تادیبی کارروائی کرتے ہوئے اپنی ہی تنظیم کا شکنجہ کستے ہوئے انہیں کشمیریوں کے خلاف حملوں کے بارے میں سخت تنبیہ کی ۔
خون اور بدلے کے اس سارے تناظر میں جس ایک فرقہ کی تاریخی داد دی جارہی ہے اور دی جانی چاہئے ،وہ سکھ برادری ہے ۔ان کے نہایت ہی بروقت اور جرأت مندانہ تاریخی کردار کو خراج تحسین کے طور پر ہر طبقہ کے کشمیری مسلمانوں نے اپنے دل اور گھروں کے دریچے کھول دئے اور اُن کے پاس جو کچھ بھی ہے ،وہ کھلے عام سوشل میڈیا کے توسط سے پیش کش رکھا۔
اس وقت سارے اعدادوشمار دستیاب نہیںہیںکہ سکھوں نے کتنے کشمیریوں کو بچایا کیونکہ ابھی بہت سارے مختلف شہروں میں ہیں ،کچھ دوران سفر ہیں اور بہت سارے وادی کشمیر اور جموں کے دیگر علاقوںمیں اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں۔لیکن یہ حقیقت اعدادوشمار کی نہ اب محتاج ہے اور اس سے کہیں برتر و بالا ہے کیونکہ اس کو اگر یہ کہا جائے کہ یہ ایک تاریخی تحریک ہے جو دونوں فرقوں کے درمیان ایک عظیم مصالحانہ دور کا ٹھوس آغاز ہے تو بیجا نہ ہوگا۔سکھ فرقہ نے دلّی سے جموں تک سب کچھ کیا ،جو ممکن تھا۔انہوںنے تحفظ بھی دیا ،ہزاروں نوجوانوں کو پناہ بھی دی ،انہیں کھانا کھلایا،سفر کیلئے گاڑیاں فراہم کیں ،اپنے گردواروں کے دروازے کھول دئے اور لنگر قائم کئے ،کئی جگہوںپر رات کو کالجوں اور ہوسٹلوں کی رکھوالی کی ،پھر کشمیریوںکو ڈھونڈ کر اپنے ہاں بلایا۔انتہائی دشمنانہ اور خطرناک ماحول میں اس سے زیادہ کیا کچھ کیاجاسکتا تھا۔سکھ قوم نے یہ سب کیا۔
شاید تاریخ نے دونوں فرقوں سے ایک بہت بڑا کام لیا ہے ۔حق تو یہ ہے کہ برصغیر کی تاریخ کے حوالے سے سکھوں اور مسلمانوں کے مابین شدید مخاصمت اور بدگمانی موجود رہی ہے ۔سکھ مغل دور سے ہی مسلمانوںکے خلاف برسر پیکار اور بدگمان رہے ہیں ۔بعد کے ادوار میں تاریخ میں سکھوں کے مظالم کی داستانیں مسلم ضمیر کو لرزہ بر اندام کرتی رہی ہیں۔اسی طرح سے مغلوں کے مظالم سے سکھ سخت نالاں رہے ہیں۔اس کا اندازہ گولڈن ٹیمپل کے میوزیم میں بھی ظاہر ہے ۔1857کے غدر میں دلّی میں مسلمانوںپر مظالم کی سب سے ہولناک کہانی سکھ سپاہیوں سے وابستہ ہے ۔اسی طرح سے 1947میں پنجاب کے شہروں میں اور دلّی میں بھی سکھوںنے مسلمانو ں کے خلاف شدید بدترین مظالم کا ارتکاب کیااور خود ان کے خلاف بھی راولپنڈی سے لاہور تک ایسا ہی ہوا۔1947میں کشمیر میں قبائلی حملہ کے دوران جموں میں پٹیالہ سکھ آرمی اور آر ایس ایس کے سکھ مسلح رضاکاروں نے مظالم کے پہاڑ توڑے ۔مغل دور سے1947تک سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان خون اور مظالم کی ایک وسیع خلیج حائل رہی ہے جس طرح دنیا کی کچھ دیگر اقوام کے بارے میں بھی صحیح ہے۔
لیکن قدرت کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں۔سکھوں اور مسلمانوں کے مابین مفاہمت ناگزیر تھی اور اس کا راستہ کہیں اور سے ہموار ہوا۔1984میں جون کے مہینے میں سکھوںکے مقدس ترین عبارت گاہ پر انڈین آرمی نے بھندرا والا کے مسلح باغیوں کی سرکوبی کیلئے ٹینکوں سے حملہ کردیا۔اس کے چند ماہ بعد اکتوبر میں دو سکھ محافظوں نے انتقاماً وزیراعظم اندرا گاندھی کو قتل کیا ۔پھر اس کے جواب میں پنجاب کے شہروں اور خصوصاً دلّی میں سکھوںکے خلاف2002کی گجرات والی کہانی دہرائی گئی۔ہزاروں سکھ مارے اور جلائے گئے ۔بعد ازاں سکھ بغاوت کو کچلنے کیلئے پنجاب میں ہزاروں سکھ جوانوںکا صفایا کیاگیا۔یوں سکھ اور ہندو قوم کے درمیان دوریاں بڑھ گئیں اور سکھوں کو مسلمانوں کا درد سمجھ آنے لگا۔اس کے بعد2018میں پاکستان نے کرتارپورکاریڈور کھول کرنہایت ہی غیر معمولی فیصلہ لیاجس کی وجہ سے پاکستان اب سکھوںکیلئے مقدس مذہبی سرزمین بن چکی ہے کیونکہ کرتار پور میں سکھ مذہب کے بانی گورو نانک دیو جی نے زندگی کے آخری اٹھارہ سال گزارے ۔اس طرح سے کرتارپور(پاکستان)سکھوں کیلئے مقدس مذہبی سرزمین ہونے کے ناطے پاکستان اور مسلمان نہایت ہی مقدس مذہبی بھائی بن رہے ہیں۔اس تناظر میں سکھوںکے حالیہ اقدامات ایک عظیم تاریخی دراڑ کو پُر کرنے کی سمت بہت بڑے اقدامات ہیں۔خصوصاً اس لئے بھی کہ چھٹی سنگھ پورہ جیسے واقعات سے سکھوں پر واضح ہوگیا تھا کہ نئی دلّی انہیں مسلمانوںکے خلاف نفرت کے ایندھن کے طور پر استعمال کررہی ہے جو منصوبہ ناکام ہوگیا۔یہ بات نہایت ہی باعث اطمینان ہے کہ نہایت ہی سنگین اور بدترین حالات کے باوجودکشمیر میں سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات پر امن اور خوشگوا ر رہے ہیں۔گزشتہ28برسوں سے جہاں پنجاب کی تجارت کو کشمیر میں فروغ حاصل ہوا ہے اور ہزاروں ٹرک ڈرائیور پنجاب سے بغیر کسی پریشانی کے روزگار کماتے رہے ہیں ۔اسی طرح سے ہزاروںکشمیری مرد و زن اور تاجروں کو پنجاب میں اچھا ماحول دستیاب رہا ہے ۔سکھوںکے حالیہ ناقابل فراموش مدد کو ہمیں اپنی تاریخ کا حصہ بنا کر اسے آگے کی ابدی دوستی اور مفاہمت کے نظریہ میں تبدیل کرنا ہے ۔کرتار پور سے جموں تک سکھوں اور مسلمانوںکے بڑھتے خوشگوار تعلقات صدیوں کی دراڑ کو ختم کرکے ایک ابدی دوستی کیلئے ٹھوس بنیادیں فراہم کرچکے ہیں۔اس لئے اس دوستی اور مفاہمت کو آگے بڑھانادونوں کے انتہائی مفاد میں ہے۔
ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘ سری نگر