جموں//آئے روز ریاست میں شاہراہوں پر سڑک حادثات میں تیزی آ رہی ہے جس کی وجہ سے سینکڑوں جانیں تلف ہو رہی ہیں۔اگر اس کو حکومت کی بے بسی اور محکمہ ٹریفک کی لا پروائی مانا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ خاص کر کے خطہ چناب اور پیر پنچال میں المناک حادثات سڑکوں کی خستہ حالی اور محکمہ ٹریفک کی لا پرواہی سے ہو رہے ہیں۔ سرکار کی جانب سے ہمیشہ ہر المناک سڑک حادثہ کے بعد میٹنگوں میں ان حادثات کو قابو پانے کے لئے بڑے بڑے منصوبے ہوتے ہیں لیکن زمینی سطح پر یہ منصوبے عملائے نہیں جا رہے ہیں ۔ہر سال شاہراہوں کے نام پر اربوں روپے خزانہ عامرہ سے نکالے جاتے ہیں لیکن سڑکوں کی حالت جوں کی توں ہے ۔یہاں مہور کے جمسلان علاقہ میں گزشتہ روز ایک المناک سڑک حادثہ پیش آیا جس میں ایک بچہ سمیت دس افراد لقمہ اجل بن گئے ۔ اگر چہ وزیر اعلیٰ ، گورنر اور دوسرے لیڈران نے اس حادثے پر رنج و غم کا اظہار کیا ہے اور اخبارات و ٹیلی ویژ ن کے ذریعے لوگوں تک اپنا پیغام تو پہنچایا لیکن اس جانب کسی نے توجہ نہیں دی کہ آیا یہ حادثہ کس وجہ سے پیش آیا۔ کیا یہ سڑک کی خستہ حالی کی وجہ سے پیش آیا یا گاڑی میں زیادہ بھرنے کی وجہ سے ۔خستہ حال سڑکوںپر موجودہ اور مخلوط سرکار کوکسی بھی صورت میں بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے کیونکہ ہر آنے والی سرکار الیکشنوں کے دوران سڑک رابطوں اور ان کو بہتر بنانے کے ہی زیادہ وعدہ کرتے ہیں لیکن یہ وعدے وفا نہیں ہوتے ہیں۔ وہیںجہاں ایک گاڑی میں دس یا گیارہ سواریوں کی گنجائش ہوتی ہے تو اُس میں بیس سے زیادہ سواریاں بھری جاتی ہیں بھیڑ بکریوں کی طرح یہاں اس کی سب سے بڑی ذمہ داری ٹریفک پولیس یا عام پولیس کی ہوتی ہے لیکن یہ بھی یہاں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے ہیں ۔یہاں اگر گول مہور شاہراہ کی بات کی جائے تو یہ خطہ چناب اور پیر پنچال کو ملانی والی واحد شاہراہ ہے جو محکمہ گریف کے سپرد ہے جس کی حالت ابتر ہے۔ یہاں خطہ میں تمام سڑکوں پر آئے روز جہاں سواریوں کا رش بڑھتا ہے وہیں اتنی میں گاڑیاں نہیں ہوتی ہیں ۔مہور گول شاہراہ ،مہور دھرماڑی سے جموں جانے والی شاہراہ یا گول سے مہور براستہ بدھل راجوری اس کے علاوہ ، سنگلدان ، بانہال ، چملواس ، وغیرہ علاقوں میں شاہراہوں پر ٹریفک کا دبائو بڑ ھ رہا ہے اور ان شاہراہوں پر میٹا ڈوروں کے علاوہ ٹاٹا سومو ،ٹیمپوگاڑیوں میں کھچا کھچ سواریوں کی وجہ سے اس طرح کے حادثات رونما ہو رہے ہیں۔ ان شاہراہوں پر بناء لائنس کے اورگاڑیاں بناء کاغذات کے یا ایسی حالت میں گاڑیاں دوڑتی ہیں جن کی قانونی طو رپر کوئی اجازت نہیں ہے ، نہ تو ان گاڑیوں کو کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی یہ لوگ ان خطر ناک شاہراہوں پر ڈرائیونگ کرنے سے ہچکچا رہے ہیں تو اس کے نتیجے برے نکلتے ہیں جس کی وجہ سے عام لوگوں کی جانیں زیاں ہوتی ہیں۔ خاص کر کے گول میں اس وقت بھی بہت ساری گاڑیاں ایسی ہیں جن کے کاغذات ادھورے ہیں اور ڈرائیور چار دن کسی دوست یا احباب سے گاڑی کی سٹیرنگ پکڑ کر یہ لوگ ڈرائیور بن جاتے ہیں اور کسی نہ کسی طریقہ سے لائسنس حاصل کر کے اس جان لیوا کام کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ اس کی ذمہ داری نہ صرف ڈرائیوروں کے سر تھونپی جائے بلکہ اس میں محکمہ پولیس بھی برابر کا شریک ہے۔ محکمہ پولیس جسے قانون کامحافظ بھی کہا جاتا ہے اور وہ اب اس سارے رقص کا تماشائی بنا ہوا ہے۔ ان شاہراہوں پر بناء لائنس کے ڈرائیور ، گاڑی سواریوں سے کھچا کھچ ایک عام بات ہے اور پولیس اہلکار یہ جرات نہیں کرتے ہیں کہ وہ ان ڈرائیور حضرات کی لائسنس و گاڑی کے کاغذات چیک کریں۔ گول میں سڑکوں کی حالت ابتر ہوتی جا رہی ہے ، کئی ایسے روڈ بھی تعمیر ہوئے ہیں جن کی بلیں ابھی تک مکمل نہیں ہوئیں اور روڈ دوبارہ تعمیرکرنے کے لائق بن گیا ہے۔ گول تتا پانی روڈ جس پر 1998میں تعمیر ی کام شروع کیا تھا لیکن ابھی تک یہ روڈ 4کلو میٹر تک مکمل نہیں ہوا ہے اور تتا پانی تک یہ روڈ کب بنے گا اس کا حسا ب لگانا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ اس روڈ کو گول بس اسٹینڈ سے سلبلہ علاقہ تک 4کلو میٹر تعمیر کیا اور اس کی حالت ابتر ہو گئی ہے۔ اس روڈ پر ابھی تک تار کول نہیں بچھایا گیا اور کئی جگہوںپر دیواریں بھی تعمیر نہیں ہوئیں۔ اسی طرح سے اگر گول ڈھیڈہ روڈ کی بات کی جائے تو گول گلاب کے معروف لیڈر اور سابق گوجر بکر وال چیر مین حاجی بلند خان نے اس روڈ پر تعمیر ی کام کی بنیاد ڈالی اور ابھی تک یہ روڈ مکمل طو رپر تعمیر نہیں ہوا۔ گزشتہ روز جب مہور حادثہ میں ہوئے جاں بحق افراد کی نعشوں کو ڈھیڈہ لے جایا گیا تو گھوڑا گلی سے آدھ کلو میٹر دوری پر گاڑی روڈ پار نہیں کر سکی اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس روڈ کی حالت کیسی ہو سکتی ہے۔ اگر گول۔ہارہ،گاگرہ روڈ کی بات کی جائے تو اس پر جو اس وقت تعمیری کام سست رفتاری سے جاری ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ ابھی اس روڈ کو تعمیر ہونے میں 20سال درکار ہیں۔اگر سرکار ان شاہراہوں اور ڈرائیوروں ، محکمہ ٹریفک (پولیس)کی لا پرواہی کی طرف توجہ نہ دے گی تو نہ جانے آنے والے وقت میں کتنی معصوم جانیں ان شاہراہوں کی بھینٹ چڑھیں گیں۔