نئی دہلی// آدھار کارڈ کی لازمیت کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کی جارہی ہے۔ اس کیلئے پانچ ججوں کی آئینی بینچ تشکیل دی گئی ہے ، جس میں چیف جسٹس دیپک مشرا ، جسٹس اے کے سیکری ، جسٹس اے ایم کھانولکر، جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ او ر جسٹس اشوک بھوشن شامل ہیں۔ پانچ ججوں کی یہ بینچ اس بات کی سماعت کررہی ہے کہ کیا آدھار پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ خیال رہے کہ اس سے پہلے نو ججوں کی آئینی بینچ نے کہا تھا کہ پرائیویسی ایک بنیادی حق ہے۔کیس کی سماعت کے دوران جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے سوال کیا کہ کیا آدھار صرف ویریفکیشن اور ٹریکنگ کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ آدھار محفوظ ہے ، کیا حکومت بتا سکتی ہے کہ کہ بایو میٹرک کا استعمال سوشل ویلفیئر اسکیموں کے لیکج کو روکنے کیلئے کیا جائے گا۔ادھر کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس دیپک مشرا نے سوال کیا کہ کیا آدھار بل اسٹینڈنگ کمیٹی کو بھیجا گیا تھا ، اس کے جواب میں آدھار کی لازمیت کے خلاف عرضی گزاروں کے وکیل شیام دیوان نے کہا کہ ایسا نہیں کیا گیا تھا۔ادھر اٹارنی جنرل کے کے وینو گاپال نے مرکزی حکومت کا موقف پیش کرتے ہوئے عدالت عظمی کو بتایا کہ جن لوگوں کے پاس آدھار نہیں ہے ، اسے بڑھایا جارہا ہے۔ اب اسے 31 دسمبر 2017 سے بڑھا کر 31 مارچ 2018 کردیا گیا ہے۔قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال 15 دسمبر کو آئینی بینچ نے بینک کھاتوں اور موبائل نمبر سمیت دیگر سروسیز اور اسکیموں کے ساتھ آدھار نمبر کو جوڑنے کی میعاد 31 مارچ 2018 تک بڑھادی تھی۔ عرضی گزاروں نے آدھار کے ڈاٹا لیک اور ڈاٹا پروٹیکشن پر سوال اٹھائے تھے ، اس کے بعد مرکزی حکومت نے آدھار سے لنک کرنے کی ڈیڈ لائن 31 دسمبر واپس لے لی تھی۔