یہ آنا کوئی آنا ہے کہ بس رسماً چلے آئے
یہ خاک ملنا ہے کہ دل سے دل نہیں ملتا
مجازؔ
راج ناتھ جی کی خوبی یہ ہے کہ وہ وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز ہوجانے کے بعد اکثر و بیشتر کشمیر کا دورہ کرنے آتے رہتے ہیں۔ پہلی بار نہ ہو پر ایک بار ۲۰۱۷ء کے اپریل مہینے میںبھی جب وہ یہاں آئے تھے تو کشمیر کو ایک سال میں بدلانے کا وعدہ کرکے دلی لوٹ گئے تھے۔اُنہوں نے فوج کی کاروائیوں میں رخنہ ڈالنے اور پتھرائو کرنے والوں کو ناقابل برداشت قرار دیا تھا۔ حالانکہ دورے کا پوشیدہ مقصد سرینگر اور اننت ناگ کی خالی پارلیمانی نشتوںکیلئے انتخابات منعقد کرانا اور قومی دائرے میں شامل نام کی سیاسی جماعتوں کا اشتراک حاصل کرنا تھا۔ تب کی برسراقتدار پی ڈی پی کو چھوڑ کر باقی تمام جماعتوں جن میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس بھی شامل ہیں، نے امن و قانون کی نازک صورت کے پیش نظر انتخابی عمل کو موخر کرنے کی صلح دی تھی۔ لیکن میدانِ سیاست کے تمام شہسواروں کو اپنی اپنی غرض کی فکر ہوتی ہے۔ وزیر اعلی محبوبہ مفتی پر نہ صرف اپنی کرسی کا وقار بحال رکھنے کی ذمہ داری تھی بلکہ ایک بہن کی حیثیت میں محبوبہ کو اپنے بھائی تصدق مفتی کیلئے روزگار تلاش کرنے کا غم بھی کھائے جارہا تھا۔بہرحال الیکشن عمل کے دوران سرینگر حلقہ انتخاب میں کم سے کم نو شہریوں کی ہلاکت واقع ہوئی اور اس قدر قربانیوں اور سختیوں کا محاصل تھا، فقط پانچ فی صد ووٹننگ۔ اتنی سی عوامی شرکت کے نتیجے میں نیشنل کانفرنس کے امیدوار فاروق عبداللہ کو کامیاب قرار دیا گیا۔ تاہم سرکار پر کشمیری عوام کے مزاحمتی چہرے کا اس قدر رعب جم گیا کہ دلی سے لے کر سرینگر تک، ہر کوئی عام و خام، اب تک بھی اننت ناگ حلقے کے بارے میں بات کرنے سے لرزان دکھائی دیتا ہے۔اب کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ جب ریاستی سطح پر جمہوریت کا کہیں نام و نشان نہیں ہے اور پارلیمانی نظام کو معطل رکھا گیا ہے، تو بنیادی سطحوں کے بلدیاتی و پنچایتی انتخابات کرانے کا کیا جواز ہے۔ لیکن سرکار کی مرضی، جب جو جی میں آیا، کہا گیا اور کیا جاتا ہے ۔ کوئی حیا نہیں، شرم نہیں کہ ایک سال قبل سرینگر پارلیمانی حلقہ کیلئے انتخابات منعقد کراتے وقت ووٹر وں کا کہیں نام و نشان نہیں تھا اور ۲۰۱۴ء کے اسمبلی انتخابات میں ساٹھ فی صد سے بھی زیادہ ووٹوں سے قائم جمہور نام کی سرکار کی تمام تر کوششوں کے باوجود فقط پانچ فی صد ووٹ ڈالے گئے تھے۔ اب کی بار الیکشن منعقد کرانے کیلئے کچھ بھی موزوں نہیں تھا۔ ابتر حالات اور ماردھاڑ کی شرح میں اضافہ اور حکومت کا سربراہ خود غیر چنندہ ۔ ووٹ تو سیاسی جماعتوں کے نام پر حاصل کرنا مطلوب ہوتا ہے۔ لیکن اہم تر سیاسی جماعتوں نے ابتر سیاسی و انتظامی حالات کا واسطہ دے کر بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پھر بھی بنیادی سطح کے الیکشن عمل میں لانے کی کیا مجبوری ہوسکتی تھی۔ جیسے ریاستی سطح پریک نفری راج قائم ہے اور کبھی کبھی زیادہ موزون فیصلے لئے جا نے کا خیر مقدم کیا جاتا ہے ، اُسی طریقے سے میونسپلٹی اور پنچایتی سطحوں پر بھی قابل اور فہمیدہ آفیسران کی وساطت سے بہترین نتائج حاصل کئے جا سکتے تھے۔ لیکن سرکار کی مرضی کہ ساٹھ ستھر لاکھ آبادی کی وادی میں بلدیاتی انتخابات میں صرف چار فیصد پولنگ ہوئی، جس کا جشن منانے کی دہائی دی جارہی ہے ۔ اکثر و بیشتر وارڈوں کیلئے غیر مقامی امیدوار منتخب ہوئے ہیں ۔اس طرح سے کونسلروں اور بلدیاتی سہولیات کے طالب لوگوں کے درمیان ٹکرائو کی ایک اور صورت اُبھر آنے کا بھی اندیشہ بڑھ سکتاہے۔ اسی طرح سے دیگر بہت سارے وارڈوں میں الیکشن لڑے بنا ہی کونسلروں کا انتخاب ہوا ہے اور وہ بھی زیادہ تر غیر مقامی ہیں۔
اگست ۲۰۱۷ء میں جب وزیر داخلہ جموں کشمیر کے چار روزہ دورے پر سرینگر پہنچے تو اُنہوں نے امن بحالی کیلئے ۴ سی فارمولہ کا تذکرہ کیا۔یعنی کمپیشن(ہمدردی)، کمینوکیشن(روابط)، کوایگزس ٹنس(بقائے باہمی)، کانفیڈنس بلڈنگ(اعتماد سازی) اور کن سیس ٹنسی یعنی (استحکام) ۔ لیکن فارمولہ پر عمل کرنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور تب سے یہاں کے حالات بد سے بدتر ہوتے رہے ہیں۔ مختلف بہانوں کی آڑ میں مزید فوجی کمک کشمیر پہنچائی جاتی رہی ہے۔ جیسے ۲۰۱۸ء امرناتھ یا ترا سلسلے میں اکیس ہزار اضافی فوجی جوانوں کو پہلگام علاقے میں تعینات کیا گیا۔ اب کی بار بلدیاتی انتخابات کی عمل آوری کے سلسلے میں ان ۲۱ ہزار جوانوں کو یہاں ہی روکا گیا اور علاوہ ازیں ۴۴ ہزار مزید جوانوں کو بھی داخل وادی کیا گیا۔ ابھی حال یہ ہے کہ شہر و گام ہر گلی کوچے میں پھر سے بنکروں کا جال پھیلایا گیا ہے اور ہرسو چاروں اطراف سے فوجی جمائو قائم ہے۔ کیا اس طرح کے ماحول میںہمدردی پنپ سکتی ہے، اعتمادسازی کی فضا کو قائم کیا جاسکتا ہے، روابط کو بڑھایا جاسکتا ہے اور حالات میں استحکام پیدا کیا جا سکتا ہے۔ بی جے پی کے اشتراک سے منتخب وزیر اعلی صاحبہ نے پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے کا شگوفہ کیا چھوڑا کہ کرسی سے محروم ہونا پڑا ۔ پھر جس’’ دہشت گردی‘‘ کا رونا رویا جاتا ہے ، اُس میں اتنا دم کہاں کہ فوج کی پلٹن در پلٹن کو معمولی ساخت کی بندوق لئے ایک یا دو ملی ٹنٹوں کا صفایا کرنے کیلئے جائے واردات پر پہنچایا جاتا ہے۔ پتھرائو کا صفایا کرنے کیلئے نوٹ بندی کو کب کااکسیر علاج قرار دیا گیا تھا۔ نوٹ بندی کو سو فی صد کامیاب قرار دیا گیا لیکن پتھرائو کا تذکرہ ابھی تک بھی زوروں سے جاری ہے۔
اس مرتبہ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کشمیر کے دورے پر آئے اور کولگام کے معصوم عن ا الخطاء ہلاک شدگان کے لواحقین کے حق میں پانچ پانچ لاکھ روپے کی امداد کا بھی اعلان کیا، مگراس دلدوزواردات کے پس منظر میں زبان تک نہ کھولی اور نہ ہی کفن دفن کے بارے میں کسی سے کچھ معلوم کیا۔ شائد وہ اس شہر کی رسم سے آشنا نہیں تھے کہ یہاں ہر کوئی عداوت، کدورت اور دشمنی سے بے نیاز ہوکر ڈھارس بندھانے سوگوار کنبوں میں شامل ہو کر کچھ وقت گزارتا ہے۔ گورنر ستیہ پال ملک نے کولگام واقعے کو بد قسمتی قرار دیتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس میں فورسز کی طرف سے بھی کوتاہی ہوئی ہے،فورسز کوSOP پر عمل درآمد کر نے کی فہمائشیں بھی کی گئیں، مگرا س سب کے بیچ بھی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اس دلخراش واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور نہ ہی فورسز کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کرنے کی کوئی بات کی ۔ تاہم وزیر داخلہ چار فی صد ووٹنگ پر کھڑی جمہوریت کا ’’ جشن ‘‘ منانا اور اس جشن میں لہو لہان کشمیری عوام کو حصہ لینے کی دعوت دینا نہیں بھولے۔ اس پس منظر میں کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ وزیر داخلہ دراصل لوگوں کو سمجھانے آئے تھے کہ جمہوریت کو ۴ فی صد ووٹوں کی بیساکھیوں پر بھی کھڑا رکھا جا سکتا ہے ۔ لیکن ڈکٹیٹرانہ اندازِ بیان اور جمہور کے کہنہ کھیل دکھانے سے حقیقت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ یہاں حالات انتہائی حد تک مخدوش ہیں اور اس کی صدائے بازگشت دلی سے کویتا کرشنن کی زبان سے بھی آتی ہے اور کربلا کے میدان سے بھی سنی جا سکتی ہے۔
یہاں کی فضائوں میں جہاں کہیں بھی جنبش ہوئی، ہوا کا راستہ روک دیا جاتا ہے اور جب اس جنبش کی اُوٹ میں کہیں کسی جاندار کی موجودگی کا شبہ ہوا ، اُس کو گولہ بارود سے دہکائی آگ کا ایندھن بننا پڑتا ہے ۔ کبھی ملک کے میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب انصاف کا بول بالا رکھنے کیلئے لنکیشوری اور ارون دھتی رائے جیسے منصف اور نڈر لوگوں نے یا تو دم توڑدیا ہے یا پھر غریب الوطن ہونا پسند کیاہے۔ جو وطن میں موجود ہیں، اس حد تک جیتے ہیں کہ اُن کو کشمیر کی وادیوں میں کبھی چین کی بنسری بجتی سنائی دیتی ہے اور کبھی ہر کوئی بشر دہشت گرد نظر آتا ہے۔ اس طرح کی سب باتوں سے بالاترحقیقت یہ ہے کہ ہر مرض کی دوا موجود ہوتی ہے۔ جب انسان مررہا ہے، وہ ملی ٹنٹ ہو یا ملیٹری مین، سب ہم سب کے اپنے بچے ہیں۔یہ جاننا ضروری ہے کہ ۱۹۶۲ء میں جب گوا، دمن، دیو کو فوجی ایکشن کے ذریعے پرتگالیوں سے چھڑ ایا گیا تھا، تو اُن علاقوں کے عوام نے فوج کا والہانہ استقبال کیا تھا۔ ۱۹۷۴ء میں سکم کے لوگوں کو پولیس ایکشن کی طفیل چوگیال کے ظلم و ستم سے نجات ملی تھی تو سکم کے عوام نے شادیانے بجائے تھے۔ لیکن مرکزی حکمرانوں اور جموں کشمیر کے عوام کے درمیان کئی پردے حائل ہیں؛اقوام متحدہ ہے۔ ریاست کا ایک حصہ پاکستان کی تحویل میں ہے۔ بھارت کے آئین کی بھی ضمانتیں ہیں۔ حال ہی ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک نے بھی سیاسی انداز میں اسی نوعیت کے کچھ حقائق کا بھی اظہار کیا ہے اور حالات کی ابتری کیلئے دلی کو ہی جڑ قرار دیا ہے۔ اس طرح کی تمام دوریوں کو پاٹنے کا یہی وقت ہے۔ سب کی یہی رائے ہے کہ ہر سطح پر مذاکرات ہونے چاہیں۔اقوام متحدہ میں کہ یہاں بھارت کی طرف سے پٹشن دائر ہوئی ہے۔ پاکستان کے ساتھ بھی کہ جموں کشمیر کے ایک حصے پر پاکستان کا کنٹرول ہے اور جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ بھی، کہ ریاست کے حقیقی وارث یہی عوام ہیں۔ حالیہ پُر تنائو حالات میں کچھ حلقوں کے حوالے سے فی الحال ٹریک ٹُو مذاکرات کے بارے میں باتیں کی جارہی ہیں اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی اشارہ دیا ہے کہ پاک بھارت مذاکرات کو عنقریب بحال کیا جا رہا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ دور بھارت میں عام انتخابات کے اختتام پر ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ کیا بات ہوئی، جب سوگ منانے کے ساتھ ساتھ جمہوریت کا جشن منانے کا درس دیا جارہاہے، الیکشن کے پہلو بہ پہلو مذاکرات کیوں نہیں ہوسکتے ہیں۔ اس میںاُلجھن کیسی ! کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومتی سطح پر صلح کی راہ پر چلنے سے الیکشن میں ووٹر کا نظریہ بدل جانے کا ڈر کھائے جا رہا ہو۔ ہم تو ہر سطح پر سودمند بات چیت کی کامیابی کیلئے دعا کرتے ہیں تاکہ جموں کشمیر کو افراتفری کے موجودہ عالم سے باہر لانے کے ساتھ ساتھ برصغیر کے کروڑوں غریب عوام کی خوشحالی اور فارغ البالی کا راستہ بھی نکل آئے۔