ملک منظور
ایک دن سہانا اور اس کے دوستوں نے کتاب میں ایک وادی کے بارے میں پڑھا ۔ایسی وادی جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اگر زمین پر کہیں جنت ہے تو وہ یہی ہے۔ سرسبز جنگلات، لہلہاتے کھیت، ندی نالے، شفاف چشمے، برف پوش پہاڑ اور خوشگوار ہوا کا وہ مسکن دل کو چھو لینے والا منظر تھا۔
سہانا اور اس کے دوستوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس جنت بےنظیر وادی کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ چند ہی دنوں میں اُنہوں نے سفر کی تیاری کی اور خوشی خوشی روانہ ہوگئے۔مگر جب وہ وہاں پہنچے تو حیرت نے اُن کے قدم روک لیے۔
دور دور تک بنجر زمین پھیلی ہوئی تھی، ننگے پہاڑ دھوپ میں سلگ رہے تھے۔ ندی نالے خشک ہوچکے تھے، چشمے گہرے گڑھوں کی شکل اختیار کرچکے تھے اور جہاں کبھی پھول کھلتے تھے وہاں اب دھول اُڑ رہی تھی۔
’’یہ وہی وادی ہے؟‘‘ سہانا نے کانپتی آواز میں کہا۔
’’نہیں ، یہ تو کسی ویرانے جیسی لگتی ہے۔‘‘ اس کے دوست بولے۔
وہ دن بھر چلتے رہے۔ آخرکار اُنہیں ایک سوکھا درخت نظر آیا ،شاید اُس وادی کی آخری یادگار۔ وہ اُس کے نیچے بیٹھ گئے، تھکے، حیران اور دل گرفتہ۔
ہوا میں ایک عجیب سی خاموشی تھی۔ آنکھیں بوجھل ہوئیں اور وہ نیند کی آغوش میں چلے گئے۔
نیند میں اُنہوں نے وہی وادی دیکھی ، مگر کیسی حسین، کیسی دلکش!
ندیوں میں پانی چمک رہا تھا، ہوا میں خوشبو گھلی ہوئی تھی، پہاڑ سبز چادر اوڑھے مسکرا رہے تھے۔ پرندے گیت گارہے تھے، بچے کھیل رہے تھے۔
سبزے کی خوشبو، ندیوں کی نغمگی، پرندوں کی گونج،
پہاڑوں پر اُترتی دھوپ،اور فضا میں تحلیل ہوتا سکون ۔
وہ سب کچھ لوٹ آیا جو کتاب کے صفحات میں قید تھا۔
سہانا نے ہنس کر کہا،
’’دیکھو، جنت واقعی زمین پر ہے!‘‘
مگر خوابوں کے رنگ ہمیشہ بے داغ نہیں رہتے۔
چشمے کے کنارے پلاسٹک جل رہا تھا،
’’چھوڑو، کوئی بات نہیں، یہ تو معمولی سی بات ہے۔‘‘ کسی نے کہا، اور سب نے نظر انداز کردیا۔
دور فیکٹری کے پائپ سے زہریلا پانی بہہ کر ندی میں شامل ہو رہا تھا، مگر اُن کے کانوں میں اب صرف خوشی کے ترانے گونج رہے تھے۔
اور اُس کا دھواں آسمان پر سیاہ حرفوں میں لکھ رہا تھا “یہ خوشبو کتنی دیر رہے گی؟”
گاڑیوں کے دہانے سے زہر ماحول میں بہتا گیا اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
انسان مست تھا خواب کے حسن میں، فطرت کے سکون میں، اپنی غفلت کے نشے میں۔
’’یہی تو وہ جنت ہے!‘‘ سہانا نے خوشی سے کہا۔
سب ہنسنے لگے، ندی کے کنارے دوڑے، پھل توڑے، چشموں سے پانی پیا۔ وہ مسرور تھے، مست تھے، مگن تھے۔
مگر اُس مسرت کے عالم میں اُنہوں نے کچھ دیکھا ۔
وہ جنت کے نظاروں میں کھوئے رہے جب تک کہ آسمان پر کالے بادل چھا گئے۔ موسم نے کروٹ بدلی،پہلے ہلکی بوندا باندی ہوئی، پھر موسلا دھار بارش۔
مگر یہ بارش نہیں تھی بلکہ انتقام تھا یا برے اعمال کا تباہ کن انجام ۔
پہلی بوند گری تو زمین سے چیخ نکلی،
پھول جھلس گئے، پتے پگھل گئے اور ندی نے اپنی آخری سانس لی۔
جنت کی چادر تیزاب سے جل کر راکھ ہوگئی۔
چند ہی لمحوں میں سبز پتے جھلس گئے، پھول سیاہ راکھ میں بدل گئے، چشموں کا پانی زہریلا ہو گیا، پرندوں کی آوازیں تھم گئیں۔ جنت، ویرانے میں بدل گئی۔
سہانا چیخ کر اُٹھ بیٹھی۔
اُس کے اردگرد وہی بنجر زمین تھی، وہی ننگے پہاڑ، وہی سوکھا درخت۔
اُس نے آسمان کی طرف دیکھا جیسے کوئی خاموش سوال کر رہی ہو۔
’’کیا یہ سب خواب تھا؟ یا حقیقت بن چکا ہے؟‘‘
ہوا کے ایک جھونکے نے اُس کے قریب اُڑتے ہوئے ایک پلاسٹک کے تھیلے کو لاکر گرا دیا۔
سہانا دیر تک اُسے دیکھتی رہی۔ پھر اُس کے چہرے پر آنسو بہہ نکلے۔ایک قطرہ آنسو زمین پر گرا،
شاید وہی آخری بوند تھی جو ابھی تک زہریلی نہیں ہوئی تھی۔وہ آنسو انسان کی غفلت شعاری اور تنزلی پر افسوس کا بیاں تھا۔
���
کولگام کشمیر
موبائل نمبر؛9906598163