انجمن معین اسلام سوپور کی تحویل میں وقف شدہ املاک کی صورت میں دوکانات ، عمارات اور باغات کا شمار کیجئے تو وادی ٔکشمیر میں شاید یہ مسلم وقف بورڈ کے بعد یہ دوسرے نمبر پر آتاہے ۔ یہ ایک کھلاراز ہے کہ ریاست کا مرکزی اوقاف یعنی مسلم وقف بورڈ کا استحصال شروع سے ہی جاری رہا اور اس ملّی ادارے کے کارپردازوں میںجس کا ہاتھ جہاں تک پہنچ پایا، اس کے اثاثے مال مفت دل بے رحم کے مصداق طور وہ لوٹتاکھسوٹتا گیا۔ اس لئے یہ کہنا مبالغہ آمیز نہ ہوگا کہ مسلم وقف بورڈ تاریخی اعتبار سے ایک سرسبز و شاداب چراگاہ کی مانندہے جہاں سرکار سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد ارباب سیاست وحکومت اپنے منظورِ نظر چہیتوں کو ذاتی ا غرض کے لئے اس چراگاہ میں چرنے چگنے کے لئے بے لگام چھوڑ دیتے ہیں ۔ وقف املاک تک کو ہڑپنا یا ان کا ناروا ستعمال کرناکسی مسلم سماج کے انحطاط ، پستی، زوال پذیر ی کاثبوت ہی قرارپا سکتا ہے۔ ایسا کرنا گھٹیا، خدا خوفی سے نابلد اور کم ظرف لوگوں کی اصل نشانی ہوتی ہے کیونکہ یہ ملّی ، قومی اور اجتماعی مفادات کو یکسر نظر انداز کرکے ایسے ادارے کو اپنے ذاتی مفادات کے حصول اور عیش کوشی کی بھینٹ چڑھا کر گویااپنے ضمیر اور اپنے ایمان کو بیچ کھاتے ہیں ۔اس قماش کے لوگ ہی وقت کے میر صادق و میرجعفر کہلانے کے حق دار ہوتے ہیں اور تاریخ میں انہی بُرے القابات کے ساتھ یہ زندہ بھی رہتے ہیں ۔ اصولی طور کوئی بھی انجمن اوقاف ایک ملی ادارہ ہوتا ہے جو اپنی تحویل میں وقف شدہ املاک اور جائیدادوں کی رکھوالی اور ان کے بہترین انتظام وانصرام کے لئے خود کو وقف کرنے کا اہل سمجھتا ہو اور اپنے فرائض منصبی سے انصاف کر تاہو۔
کچھ شخصیتیں تاریخ میں نمایاں جگہ پاتی ہیں کہ انہیں ہم عظیم قرار دیتے ہیں ،مگر کچھ ایسی بھی شخصیتیں ہوتی ہیں جو خود تاریخ بناتی ہیں اور یہ عظیم تر کہلاتی ہیں ۔ایسی ہی ایک قدآور اسم بامسمیٰ شخصیت مرحوم میرک شاہ اندرابی کے نام سے جای پہچانی جاتی ہے جس نے سوپور آکر ۳ ۱۳۲ ء ہجری میںانجمن معین الاسلام کی بنیاد رکھی ۔ میرک صاحب یہاں ایک مدرس کی حیثیت سے بلائے گئے تھے لیکن اپنی نگاہ ِ بصیرت سے یہاںاس ملّی وعلمی ادارے کی ضرورت اور افادیت سمجھ کر اس کی تاسیس کی ۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہے کہ مولوی خاندان کے جانے مانے میرواعظ مولوی احمداللہ صاحب نے سوپور میں بھی نصرت الاسلام کے قیام چاہتے تھے ، لیکن میرک شاہ صاحب نے انہیں یہاںاس ادارے کو ایک نئے نام سے متعارف کرنے کاقائل کیا ۔ یوں شہر خاص خانیار سری نگرمیں کہیں قیام پذیر عظیم المرتبت شخص میرک شاہ اندرابی صاحب نے انجمن معین ا لاسلام کے نام سے ایک چھوٹے سے ادارے کی تاسیس کی ۔ اس ادارے کے مقاصد شروع دن سے بڑے ہی جلیل اور انتہائی وسعت کے حامل قرار پائے ع
اس کی اُمیدیں قلیل ،اس کے مقاصد جلیل
در اصل حضرت میرک شاہ کی دور بین اور اخاز نگاہوں سے مسلمانانِ سوپور کی ایمانی حمیت اور خواندگی کے مید ان میں ان کی خستگی چھپی نہ تھی ۔ انہوں نے یہاں ناخواندگی ،جہالت ،تعلیم وتعلم سے محرومی ، غربت اور مفلسی کی غم انگیز پر چھائیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مذکورہ انجمن کو نہ صرف تصور ات کے قالب میں ڈھالابلکہ اس کی عملی تشکیل بھی کی ۔ یہ اقدام گویا اس امر کا بین ثبوت ہے کہ موصوف اپنے وقت کے حصار سے بہت آگے تک دیکھنے اور سوچنے کی خداداد صلاحیت سے مالامال تھے، کیوں نہ ہوتے وہ آخر ایک بے لوث مردِ درویش تھے ۔ غرض انجمن کے یوم ِ تاسیس سے لے کر آج تک یہ ادارہ آہستہ آہستہ وسعتیں پاتا گیا ، علی الخصوص تعلیمی میدان میں ایک چھوٹے سے مکتب سے لے کر وومنز کالج بننے تک انجمن کا مسلسل اور اَن تھک سفر ایک بہترین منزل پر منتج ہوا کہ تعلیم ِنسواں کا پھر یرا سوپور کے قصبہ میں لہرایا گیا مگر آج کی تاریخ میں یہ پرچم ِفخر سوپور میں سرنگوں ہی نہیں بلکہ سرے سے ناپید ہے۔ بانی ٔ انجمن کی کارکشا، مخلص اور تیز نگاہ شخصیت کی ان مردم خیز خدمات کے لئے قصبہ سوپور ان کی تعلیمی کاوشوں کا رہین منت ہے اور اس احسان کے لئے ہم مسلمانوں کو دست بدعا رہنا چاہئے جو میرک صاحب مرحوم نے انجمن کی تاسیس کے روپ میں ہم پر کیا ہے ۔ ہماری دعا یہ بھی ہونی چاہیے جو حسین خواب انہوں نے انجمن کے اہداف واغراض کے حوالے سے دیکھے ہیں ،اللہ تعالیٰ ان میں برکت دے اور انہیں دوام بخشے۔
جب سے انجمن معین الاسلام کی بنیاد پڑی نہ صرف زمانہ برق رفتار ترقی کرگیا ہے بلکہ بہت سارے ادارے کامیابیوں کے ساتوں آسمان چھوگئے ۔ اس کے اعتراف میں ان اداروں کے موسسین کی یادیں ان کے جان نشین ہمیشہ بڑے عزت واحترام کے ساتھ زندہ رکھتے ہیں تاکہ آنے والی نسلیں ان سے انسپائرہوں مگر کس قدر دُکھ اور افسوس کی بات ہے کہ زیر بحث انجمن کے آئین سمیت اس ادارے میں آج تک کوئی ایسا دو ورقی رسالہ تک شائع نہ کیا گیا جو انجمن کے مورث اعلیٰ کے متعلق عوام خاص کر نئی پود کو کوئی جان کاری فراہم کرتا ۔ ماشاء اللہ یہ ادارہ آج بھی عام مخلص و متحرک لوگوں کے تعاون ، کاوشوں اور جان فشانیوں سے ایک شجر سایہ دار بناہوا ہے اور بہت سارے لوگ اس کے سائے سے مختلف رنگوں میں مستفید بھی ہورہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہم ایک بار بھی اس محسن شخصیت کا تذکرہ اپنی زبان پر لانے کی ضرورت سے غافل ہیں جس پر ویسے بھی ادارے کی زندگی اور پائندگی کی شکل میں مہربان اللہ یقینی طور نے اجر و ثواب کے ڈونگرے برسائے ہوں گے ۔ پھر بھی ہمارا بھی ان کے تئیں کچھ نہ کچھ توفرض بنتا تھا ۔اللہ انہیں اپنی جوارِ رحمت میں پناہ دے اور اپنی قابل قدر کاوشوں کا بدلہ انہیں جنت الفردوس کی صورت میں عطا کرے ۔
سوپور کی انجمن معین ا لاسلام کی زُمام کار مختلف ادوار میں جن مبارک ہاتھوں میں رہی ہے، ان میں خاص طورحاجی خلیل جو ترنبو ، عبدالاحد وکیل،حکیم حبیب اللہ، صوفی محمد اکبر ، غلام نبی توگو ،، عبدالرشید پنڈت،حبیب اللہ گجری ایدوکیٹ اورغلام نبی ذکی قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ اور مخلص وفعال لوگ بھی وقتاًفوقتاً انجمن کے ذمہ دار منصب پر فائز رہے اور اپنی اپنی بساط کے مطابق انجمن کے اہداف کی آبیاری کر کے اسے دوام واستحکام بخشتے رہے ،مگر جن صدور کا میں نے یہاں نام لیا ہے ، اپنے اپنے دور میں انہوں تاریخ ساز جانفشانیوں سے کام کرکے انجمن کے اثاثوں اور پراپرٹی میں اضافہ ہی نہ کیا بلکہ سب سے اہم یہ کہ ان کی نظریں انجمن کی اصل منزل مرادسے کبھی دور نہ ہوئیں ۔ یہ لوگ ٹھیک ٹھیک سمجھتے تھے کہ انجمن اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک ملّی اور فلاحی ادارہ ہے جس کے کچھ اپنے پیارے پیارے اہداف ہیں ، اور یہ کہ ان اہداف کے مقابلے میں سونا چاندی ،عمارات اور دوکانات اور دیگر مادی اثاثوں کی اتنی اہمیت نہیںجتنی اس ادارے کی جان و روح یعنی اس کے تعلیمی نیٹ ورک کو حاصل ہے ۔ یہی وہ چیز ہے جو ملت کو دُرست جہت میں علم و آگہی کے آسمانوںمیں اڑانیں بھرنے کا حوصلہ دے سکتی ہے۔ان لوگوں کی کوششوں اور انتھک محنت کا ایک نتیجہ اور ثمرہ جامع مسجد سوپور بھی ہے ج کا منبر ومحراب اپنی پوری شان آن با ن کے ساتھ کھڑے ہیں اور مسلمانانِ خطہ کے ایمان کو جلا بخشتے ہیں۔ البتہ انجمن کے زیر انتظام ایک وومنز کالج اپنے پورے کروفر اور شان کے ساتھ رواں دواں رہا ۔نیزیہی دیدۂ بینا اور ملّی درد رکھنے والے لوگ تھے جو بہت سارے تعلیمی اداروں کا نظم و نسق کامیابی سے سنبھالے ہوئے تھے۔ ان تعلیمی اداروں میں ایک ہائی سکول اور کئی پرائمری سکول شامل تھے جہاں سے ہماری ملت کا مستقبل دُرست طور تعمیر یت کے سانچوں میں ڈھل کر آگے بڑھتا رہا ۔یہی چنیدہ لوگ تھے جن کے زیر قیادت کئی سلائی سنٹر بھی علاقہ میں معرض وجود میں لائے گئے تھے جہاں سے لڑکیاں سلائی کڑھائی کا کام سیکھ کراپنے پاؤں پر کھڑی ہونے کی صلاحیت اور قوت حاصل کر کے ہی باہر آجاتی رہیں ۔ آج ان عظیم لوگوں میں اکثرکی دائمی جدائی کے بعد اعترافاً وفخراً ہم کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے بہ حیثیت منصب دارِ انجمن سوپور کو اجتماعی شعبے میں کیا نہ دیا۔ انہوں نے انجمن کے اثاثے کھڑے کئے مگر ان کی نگہبانی اور پاسداری میں کماحقہ ان کی قائدانہ صلاحیتیں ،دیانت داریاں ا ور امانت داریاں اور ساتھ ساتھ ان کا خلوص کار فرما رہا۔ آج بھی انجمن اپنے نام کے ساتھ موجود ہے مگر ا س کے اصل اہداف اور کام نظروں سے اوجھل کیوں ؟ اس لئے یہ سوال چابک لئے ہمارے تعاقب میں ہے کہاں گئے وہ لوگ ؟ کس مٹی کے بنے تھے وہ لوگ جن پر طرح طرح کے تیرونشترچلتے تھے لیکن یہ لوگ کیسے ان سب سے بے نیاز غٖیر متزلزل عزم وارادے سے بہت کم آمدنی میں اتنے بڑے تعلیمی نیٹ ورک کو چلا پاتے تھے جس میں وؤمنز کالج جیسا سفید ہاتھی بھی سر فہرست موجود تھا ؟
یہاں نامساعد حالات کی مار چونکہ ہر چیز پڑی ہے ، اس لئے اس ادارے کی قیادت اور سیادت بھی مخدوش حالات میں ادلتی بدلتی گئی اور وہ لوگ منصبوں پر آگئے جنہوں نے پچھلی قیادت کو ہمیشہ بے جا تنقید کا نشانہ بنایا مگر عملی دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ ادارہ ا ب تک اُسی سابقہ سیانی اور خلوص والی قیادت کے پوشیدہ برکات کے زیر سایہ چل رہا ہے ۔ بہرحال اُمید بھی ہے اور دعا بھی کہ ادارے کے ارباب بسط وکشاد قولاً وفعلاً اس کو اپنے بنیادی نظریہ کا جیتا جاگتا عکاس و نمائندہ بنانے کی کوشش کر یں گے جس کا انہیں دعویٰ ہے، مزید ملّی ادارے میں توسیع اور فعالیت کے ساتھ ساتھ شفافیت کا بھی قدم قدم اہتمام کیا جائے گا تاکہ کسی کو اس کی انگشت نمائی کا بہانہ نہ ملے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ماضی ٔ قریب کا زنانہ کالج آج وومنز یونیورسٹی بنا ہونا چاہیے تھا ،کجا کہ اس کالج بھولی بسری یاد بنا کے اس مقام کو ختم کرکے اب شاپنگ کمپلیکس کی تعمیر ہو جاتا، جس میں بے شک سینکڑوں دوکانات ہیں مگر وہ روح بھٹک رہی ہے جو اس کالج کے قیام سے زندہ وپائندہ تھی ۔ لائق صد تاسف حقیقت یہ بھی ہے کہ سوپور میں اب انجمن کے لگ بھگ تمام تعلیمی ادارے ماضی کا قصے ہوچکے ہیں، صرف ایک تعلیم کدہ چل رہا ہے جو جان کاروں کے مطابق سرکاری سکول سے بھی گیا گذرا ہے۔ بالفاظ دیگر انجمن معین الاسلام میں سوپور کی مسلم آبادی کے لئے تعلیمی نور کی کوئی رمق بھی باقی نہیں بچی ہے ۔انجمن کے سر براہوں کو از سرنو سوچنا چاہیے کہ اس کا بنیادی مقصد تعلیمی میدان میں نسل ِ نوکے شاہینوں کو آگے لانا ، ان کی سیرت سازی کرنا اور انہیں خدمت خلق اللہ کے ساتھ ساتھ تسخیر کائنات کے لئے تیار کرنا ہے ۔ اس قیادت کو پہلی ترجیح کے طوران نیک اور بلند وبالا مقاصد کے حصول کی غرض سے سوپور کی مسلم آبادی کے لئے تعلیم وآگہی اور فلاح و بہتری کے پروگرام تشکیل دینے چاہیے تاکہ بد لے ہوئے حالات میں بھی انجمن کا مدعا و مقصد یہ بنار ہے کہ ادارہ ملّی معنوں میں باشندگانِ سوپور کی تعلیمی ،سماجی ، معا شر تی اور اقتصادی ضروریات کو ملحوظ نظر رکھ کر اپنے اہدافی منصوبے پوراکرے ۔ اس کے برعکس اگر انجمن کے دوکانات کی تعداد بڑھے ،پگڑی اور نذ رانے کی رقمیں موٹی ہوجائیں ، نئے کمپلیکس تعمیر ہوتے ر ہیں،اربوں کی جائیداد ئیں کھڑی ہوتی رہیں مگر تعلیم وتدریس کاکا م خسارے میں پڑ جائے تو کیا یہ انجمن کے مبادیات سے انصاف ہوگا ؟ پچھلے پندرہ برس سے انجمن کی صدارت کسی زمانے میں بڑے مشہورتحصیل ایجو کیشن آفیسر کے ہاتھ میں ہے ، سماج کے لئے تعلیم کی افادیت اور ضرورت، بالخصوص وومنز کالج کی ضرورت ماشاء اللہ ان سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے ، مگرجب ان کا ہمہ وقت دھیان تعمیرات کی طرف مبذول ر ہے تو اس موضوع پر کیا تبصرہ کیا جائے؟ دوکانات میں ہی سہی ایک ریڈنگ روم بنایا جاتا یا کسی ایک ہی کمرے کو لائبریری کی شکل دی جاتی، نئی نسل کے لئے کہیںٹوٹاپھوٹاکمپوٹر سنٹر کا قیام ہی عمل میں لایا جاتا تو یہ باور کرنے کی گنجائش نکلتی کہ قلیل ہی سہی ادارہ اپنے شاندار ماضی سے جڑ کر مستقبل کی تعمیر اپنے وضع کردہ رہنما خطوط پر جاری رکھے ہوئے ہے ۔ جب ہمارے ادارے کے لئے کوئی خیراتی ہسپتال یا کوئی پولی کلنک یا یونیورسٹی بنانا کوئی بہت بڑی بات نہیں تو یہاں وہ سکول بھی بندنہیںہونے چاہیے جنہیں لوگوں نے بڑے بڑے خواب سجا کر انجمن کو دلی طوراپنا تعاون واشتراک دیا ۔ محترم گیلانی صاحب بجا کہتے رہے ہیں کہ اس ملی ادارے پہ اسلام پسندوں پر دسترس ہونی چاہئے اور میں سمجھتا ہوں کہ خد مت خلق اللہ کے لئے قائم ہر ادارے کی زمام کار اسلام پسندوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے تاکہ بلکتی سسکتی انسانیت کو فرحت بخش ہوا کے جھونکے اور اسلامی عدل وانصاف سے آشنا ہونے کا موقع میسر آجائے ۔ اگر ملّی ادارے فعال اور متحرک نہیں رہتے اور یہ اپنے مقاصد ِوجود سے ذہول بر ت کر اپنا تشخص ہی کھوبیٹھیں تو کیا کہا جائے ؟ انجمن اگر واپس اپنے اہداف واغراض کی جانب مراجعت کر ے توسوپور کوئی بانجھ زمین نہیں بلکہ زرخیز ومردم خیز خطہ ہے جہاں سوپوری عوام اور دانش ور انجمن کے شانہ بشانہ ان پیارے اہداف و اغراض کے لئے بہ حیثیت رضاکارپیش پیش ہوں گے ۔ انجمن معین الاسلام سوپور ایک بڑا ملّی ادارہ ہے ، یہ اپنی ایک تابناک تاریخ ہی نہیں رکھتا بلکہ اجتماعی مفادات اور ملی ترجیحات کا آئینہ دار بھی ہے ۔اس کی ترقی اور ا س کے ایڈوانس مارچ میں ہم سب کے لئے رمز ِ حیات پوشیدہ ہے اور انسانیت کی بقاء کے لئے ایک سود مند کنٹری بیوشن کا جذبہ پیوستہ ہے۔ ہم سب کو ذاتی اغراض و مقاصد سے اوپر اٹھ کر اسلامی سپرٹ کے ساتھ اپنی دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لئے ا س ادارے کے اساسی آئین اور مقاصد جلیہ کے لئے اپنے اپنے دائرہ اثر کام ہی نہیں بلکہ دعا گو بھی ہونا چاہیے ۔
[email protected] con 9419514537