مسعود محبوب خان
عصرِ حاضر کے چیلنجز ہر سطح پر مسلمانوں کے لیے فکر و نظر کے نئے دروازے کھول رہے ہیں۔ علم و دعوت کے میدان سے لے کر سماجی اور اخلاقی رویّوں تک، ہمیں قدم قدم پر نئے سوالات اور آزمائشوں کا سامنا ہے۔ خاص طور پر میڈیا اور اطلاعات کی دنیا نے ہماری اجتماعی اور انفرادی زندگیوں میں ایسی تبدیلیاں پیدا کی ہیں جنہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نے جہاں دعوتِ دین اور فکری رہنمائی کے نئے مواقع فراہم کئےہیں، وہیں یہ ایک ایسا میدان بھی بن گیا ہے جس میں اعتدال و توازن اور دینی شناخت کے تحفّظ کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔آج سوشل میڈیا نہ صرف ابلاغ و اظہار کا وسیلہ بن چکا ہے بلکہ فکری تشکیل، سماجی رویّوں اور دینی رجحانات پر اثر انداز ہونے والا سب سے طاقتور پلیٹ فارم بھی ہے۔ 2024ء کے اعداد و شمار کے مطابق، دنیا بھر میں 4.9 ارب سے زائد افراد روزانہ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، جن میں مسلم ممالک کی نمایاں آبادی بھی شامل ہے۔ (Source: DataReportal Global Overview Report, 2024)۔ یہ ایک ایسا میدان ہے جہاں نظریات کی کشمکش، تہذیبی تصادم اور فکری یلغار ایک ساتھ جاری ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کے لیے اس کا مؤثر اور دینی نقطۂ نظر سے درست استعمال نہایت اہم بن جاتا ہے۔اسلام پسند حلقے اور تحریکات، جو ہمیشہ اُمّت کی اصلاح اور فکری بیداری میں پیش پیش رہی ہیں، اب ایک نئے دوراہے پر کھڑی ہیں۔ ایک طرف دعوت و تبلیغ کے جدید ذرائع کو اپنانے کی خوش خبری ہے تو دوسری طرف انہی ذرائع کے غیر محتاط استعمال سے دین کی اصل روح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ مضمون اسی فکری تذبذب اور ذمّہ داری کے احساس کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے تاکہ ہم سب اپنے رویوں، مقاصد اور وسائل کے استعمال پر نظرِ ثانی کریں اور سوشل میڈیا جیسے جدید میدان میں دینی اقدار کی روشنی میں اپنا سفر طے کریں۔سوشل میڈیا ایک ایسا طاقتور ذریعہ بن چکا ہے جس کے ذریعے خیالات، نظریات اور دعوتی پیغامات دنیا کے کونے کونے تک پہنچائے جا سکتے ہیں۔ اسلامی حلقے اور جماعتیں بھی اس جدید وسیلے سے فائدہ اٹھا رہی ہیں اور اسے دین کی تبلیغ، علمی مباحث، اصلاحِ معاشرہ اور فکری تربیت کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ یہ ایک خوش آئند اور مثبت رجحان ہے۔ مگر اسی کے ساتھ ساتھ ایک سنگین اور قابلِ توجہ مسئلہ بھی جنم لے چکا ہے، سوشل میڈیا کے غیر محتاط استعمال سے دینی شناخت کو لاحق خطرات۔
خصوصاً اسلام پسند خواتین کی بڑھتی ہوئی نمایاں موجودگی اور بعض اوقات بے احتیاطی اور نمود و نمائش کی کیفیت نے ایک ایسی فکری بحث کو جنم دیا ہے جسے نظر انداز کرنا اب ممکن نہیں رہا۔ کیا یہ سب کچھ واقعی دینی اصولوں کے دائرے میں آتا ہے؟ یا ہم غیر محسوس طریقے سے ایسی روش اختیار کر چکے ہیں جو نہ صرف ہماری انفرادی شخصیت بلکہ اجتماعی تحریکات کی ساکھ کے لیے بھی نقصان دہ ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر کھلے ذہن اور حکمت کے ساتھ غور و فکر ضروری ہے۔اسلام نے خواتین کو علم، اصلاح اور دعوت میں کردار دیا مگر حیاء اور حدود کے ساتھ۔حضرت عائشہؓ، اُمّ سلمہؓ اور اسماء بنتِ یزیدؓ جیسی خواتین نے علمی اور سماجی میدان میں مثالیں قائم کیں، لیکن ظاہری نمائش یا شہرت کے لیے نہیں، بلکہ دینی خدمت کے لیے۔ سوشل میڈیا کے موجودہ تناظر میں یہ لازم ہے کہ خواتین دینی سرگرمیوں میں شریک ہوں، مگر پردے، وقار اور سنجیدگی کے ساتھ۔ اپنی شناخت کو ’’دعوتی سفیر‘‘ کے طور پر پیش کریں، نہ کہ ’’برانڈ‘‘ کے طور پر۔ دینی کام میں تصویر، ویڈیو اور آواز کے استعمال میں فقہی رہنمائی کو بنیاد بنائیں۔ یہ وہ میدان ہے جہاں فقہ الدعوۃ (فقہی رہنمائی برائے دعوت) کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔اسلام ایک ایسا دین ہے جو اعتدال اور توازن کی تعلیم دیتا ہے۔ خواتین کو تعلیم، دعوت اور اصلاحی کاموں میں کردار ادا کرنے کی اجازت ہے، لیکن اس کے ساتھ کچھ واضح حدود و قیود بھی متعین کرتا ہے۔ سوشل میڈیا کے میدان میں یہ حدود مزید اہم ہو جاتی ہیں کیونکہ یہاں بات صرف انفرادی دائرے تک محدود نہیں رہتی، بلکہ دنیا کے لاکھوں لوگوں تک پہنچتی ہے۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ بعض حلقوں میں دینی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ایسے رجحانات بھی فروغ پا رہے ہیں جو اسلامی مزاج سے ہم آہنگ نہیں۔ مثلاً فلمی گانوں، میوزک یا غیر ضروری تفریحی مواد کا دینی پیغام کے ساتھ جوڑ دینا۔ بے پردگی یا ظاہری نمائش کو ’’اصلاحی ویڈیوز‘‘یا ’’دعوتی مواد‘‘ کے نام پر پیش کرنا۔ سستی شہرت اور لائکس و فالورز کے حصول کے لیے حد سے تجاوز کرنا۔ اصلاح کو تنقید سمجھ کر رد کر دینا اور خیر خواہانہ مشوروں پر برہمی کا اظہار۔یہ سب کچھ بظاہر معمولی اور ’’معصوم‘‘ نظر آتا ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک فکری انحراف ہے جو نہ صرف نئی نسل کو غلط پیغام دیتا ہے بلکہ دینی تحریکات کی ساکھ کو بھی مجروح کرتا ہے۔ اسلامی جماعتیں اور تحریکات صرف نعرے بازی یا جذباتی اپیلوں کا نام نہیں، بلکہ وہ اُمّت کی فکری و اخلاقی رہنمائی کی ذمّہ دار ہیں۔ اگر انہی جماعتوں کے وابستگان سوشل میڈیا پر غیر اسلامی رویّے اپنائیں، تو نئی نسل ان سے کیا سیکھے گی؟سوشل میڈیا کا میدان ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے، یہ وقت اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ جماعتوں کے ذمّہ داران باقاعدہ پالیسی اور اصول مرتب کریں جن کے تحت سوشل میڈیا کا استعمال صرف دعوت، اصلاح اور علمی امور کے لیے کیا جائے۔ کارکنان کی تربیت کی جائے تاکہ وہ جدید وسائل کو اسلامی اخلاقیات کے دائرے میں رکھ کر استعمال کریں۔ اصلاح کی بات کو خوش دلی سے سنا جائے، نہ کہ اسے ذاتی حملہ یا تنقید سمجھا جائے۔ جو رویّے دینی مزاج کے خلاف ہیں، ان پر بروقت قدغن لگائی جائے تاکہ تحریک کی اصل روح باقی رہے۔اس لیے اصلاح کا آغاز خود سے کیا جائے۔ اپنی نیتوں کو خالص اور اعمال کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالا جائے۔ سوشل میڈیا کے میدان میں شرکت کو ایک ذمّہ داری سمجھ کر اختیار کیا جائے، نہ کہ تفریح یا محض ذاتی شہرت کے لیے۔ دین کے نام پر کام کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا جائے کہ کہیں ہم غیر شعوری طور پر دین کی روح کے خلاف عمل تو نہیں کر رہے۔اسلامی تحریکات کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پالیسی مرتب کریں! واضح رہنما اصول، اخلاقی ضابطے اور دعوتی حکمتِ عملی کے ساتھ۔ تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کریں تاکہ کارکنان اس پلیٹ فارم کے فکری و اخلاقی خطرات سے آگاہ ہوں۔ فکری نگرانی (Intellectual Oversight) کا نظام قائم کریں تاکہ مواد کا معیار، نیت اور اثر سب پر نظر رکھی جا سکے۔ اصلاحی مکالمہ کو فروغ دیں، نہ کہ شخصیت پرستی یا ’’سوشل میڈیا کلچر‘‘ کو۔یہ احساسات صرف تنقید یا شکایت کے لیے نہیں، بلکہ ایک اجتماعی صدا ہے۔ ایک ایسی پکار جو ہر اس دل میں گونجتی ہے جو دین کے ساتھ اخلاص رکھتا ہے۔ اگر ہم نے اپنی روش درست نہ کی، تو ہم نہ صرف اپنی شناخت کو کھو بیٹھیں گے بلکہ نئی نسل کو بھی فکری انتشار اور گمراہی کی طرف دھکیل دیں گے۔ یہ لمحۂ فکریہ ہے فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے یا تو ہم سوشل میڈیا جیسے جدید وسائل کو اسلامی اقدار کے تابع رکھتے ہوئے دعوت، اصلاح اور علم کا ذریعہ بنائیں یا ہم اس کے غیر محتاط استعمال سے اپنی تحریکات، اپنی شناخت اور اپنی نسلوں کو نقصان پہنچائیں۔سوشل میڈیا ہمارے لیے ایک آزمائش بھی ہے اور موقع بھی۔ اگر ہم نے اس کو دین کی خدمت، علم کی اشاعت اور اخلاقی قیادت کے لیے استعمال کیا تو یہ صدقہ جاریہ بن سکتا ہے۔ لیکن اگر ہم نے اسے ریا، شہرت یا غیر شرعی روش کا ذریعہ بنایا تو یہ ہماری فکری اور روحانی تباہی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ ’’اور انہیں روکو، بے شک ان سے پوچھا جائے گا۔‘‘ (الصافات: 24)۔ یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ سوشل میڈیا پر ہر لفظ، ہر تصویر، ہر پوسٹ اور ہر ’’لائک‘‘ کا حساب دینا ہوگا۔ لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ اپنے افکار، اقوال اور ذرائع کے استعمال کو اللہ کی رضا اور اسلامی اخلاقیات کے تابع رکھیں۔ یہ صرف دنیاوی شہرت یا وقتی مقبولیت کا معاملہ نہیں بلکہ آخرت کی جواب دہی اور دین کی عزّت و وقار کا مسئلہ ہے۔ضروری ہے کہ ہم اپنی نیتوں کو بار بار پرکھیں اور انہیں خالصتاً اللہ کے لیے بنائیں۔ اپنی ذات اور تحریکات کی ساکھ کے بجائے دین کی اصل روح اور پیغام کو مقدم رکھیں۔ جدید ذرائع کے استعمال میں اعتدال اور حدود کا خیال رکھیں اور جہاں لغزش ہو، وہاں بروقت رجوع اور اصلاح کا راستہ اختیار کریں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو زندہ رکھیں، لیکن حکمت، نرمی اور خیر خواہی کے ساتھ۔اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے افعال، اقوال اور وسائل کے استعمال کو دین کے تابع رکھیں اور سوشل میڈیا جیسے نازک میدان میں بھی اسلامی اقدار کے پرچم کو بلند رکھیں۔اےاللہ! ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جو بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں۔
رابطہ۔09422724040
[email protected]
�������������������