عورتوں کے لیے بھی غض بصر کے احکام وہی ہیں جو مردوں کے لیے ہیں ، یعنی انہیں قصداً غیر مردوں کو نہ دیکھنا چاہیے ، نگاہ پڑ جائے تو ہٹا لینی چاہیے ، اور دوسروں کے ستر کو دیکھنے سے پرہیز کرنا چاہیے لیکن مرد کے عورت کو دیکھنے کی بہ نسبت عورت کے مرد کو دیکھنے کے معاملہ میں احکام تھوڑے سے مختلف ہیں۔ ایک طرف حدیث میں ہم کو یہ واقعہ ملتا ہے کہ حضرت ام سلمہ ؓاور حضرت میمونہؓ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھی تھیں ، اتنے میں حضرت ابن ام مکتوم ؓ تشریف لائے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں بیویوں سے فرمایا:’’ ان سے پردہ کرو‘‘۔ بیویوں نے عرض کیا : ’’ یا رسول اللہؐ ! کیا یہ اندھے نہیں ہیں ؟ نہ ہمیں دیکھیں گے نہ پہچانیں گے ‘‘۔ فرمایا : ’’ کیا تم دونوں بھی اندھی ہو ؟ کیا تم انہیں نہیں دیکھتیں ‘‘؟ حضرت ام سلمہؓ تصریح کرتی ہیں :’’ یہ واقعہ اس زمانے کا ہے جب پردے کا حکم آ چکا تھا۔ ‘‘ (احمد ، ابوداؤد، ترمذی)۔ اور اس کی تائید موطا ء کی یہ روایت کرتی ہے کہ حضرت عائشہ ؓکے پاس ایک نا بینا آیا تو انہوں نے اس سے پردہ کیا۔ کہا گیا کہ آپ ؓاس سے پردہ کیوں کرتی ہیں ، یہ تو آپ کو نہیں دیکھ سکتا؟ جواب میں ام المومنینؓ نے فرمایا:’’ میں تو اسے دیکھتی ہوں ‘‘۔ دوسری طرف ہمیں حضرت عائشہ کی یہ روایت ملتی ہے کہ 7 ھ میں حبشیوں کا وفد مدینے آیا اور اس نے مسجد نبویؐ کے احاطے میں ایک تماشہ کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود حضرت عائشہ ؓ کو یہ تماشا دکھایا (بخاری ، مسلم، احمد)۔ تیسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس ؓکو جب ان کے شوہر نے تین طلاقیں دے دیں تو سوال پیدا ہوا کہ وہ عدت کہاں گزاریں۔ پہلے حضورؐ نے فرمایا :اُم شریک انصاریہؓ کے ہاں رہو۔ پھر فرمایا: ’’ان کے ہاں میرے صحابہ بہت جاتے رہتے ہیں (کیونکہ وہ ایک بڑی مال دار اور فیاض خاتون تھیں ، بکثرت لوگ ان کے ہاں مہمان رہتے اور وہ ان کی ضیافت کرتی تھیں ،)لہٰذا تم ابن اُم مکتومؓ کے ہاں رہو، وہ اندھے آدمی ہیں۔ تم ان کے ہاں بے تکلف رہ سکوگی ‘‘ (مسلم ، ابو داود)۔ ان روایات کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں ہے کہ عورتوں کے مردوں کو دیکھنے کے معاملے میں اتنی سختی نہیں ہے جتنی مردوں کے عورتوں کو دیکھنے کے معاملے میں ہے۔ ایک مجلس میں آمنے سامنے بیٹھ کر دیکھنا ممنوع ہے۔ راستہ چلتے ہویا دور سے کوئی جائز قسم کا کھیل تماشا دیکھتے ہو، مردوں پر نگاہ پڑنا ممنوع نہیں ہے اور کوئی حقیقی ضرورت پیش آجائے تو ایک گھر میں رہتے ہو،بھی دیکھنے میں مضائقہ نہیں ہے۔ امام غزالیؒ اور ابن حجر عسقلانیؒ نے بھی روایات سے قریب قریب یہی نتیجہ اخذ کیا ہے۔ شو کا نی ’’نیل لاوطار ‘‘میں ابن حجر کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ’’ جواز کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ عورتوں کے باہر نکلنے کے معاملے میں ہمیشہ جواز ہی پر عمل رہا ہے۔ مسجدوں میں ، بازاروں میں ، اور سفروں میں عورتیں تو نقاب منہ پر ڈال کر جاتی تھیں کہ مرد ان کو نہ دیکھیں ، مگر مردوں کو کبھی یہ حکم نہیں دیا گیا کہ وہ بھی نقاب اوڑھیں تاکہ عورتیں ان کو نہ دیکھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے معاملے میں حکم مختلف ہے ‘‘ (جلد6۔ صفحہ 101)۔ تاہم یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کہ عورتوں اطمینان سے مردوں کو چھوڑیں اور ان کے حسن سے آنکھیں سینکیں۔
ناجائز شہوت رانی سے بھی پرہیز کریں ، اور اپنا ستر دوسروں کے سامنے کھولنے سے بھی۔ اس معاملے میں عورتوں کے لیے بھی وہی احکام ہیں جو مردوں کے لیے ہیں لیکن عورت کے ستر کے حدود مردوں سے مختلف ہیں۔ نیز عورت کا ستر مردوں کے لیے الگ ہے اور عورتوں کے لیے الگ۔
مردوں کے لیے عورت کا ستر ہاتھ اور منہ کے سوا اس کا پورا جسم ہے جسے شوہر کے سوا کسی دوسرے مرد ، حتیٰ کہ باپ بھائی کے سامنے بھی نہ کھلنا چاہیے ، اور عورت کو ایسا باریک یا چست لباس بھی نہ پہننا چاہیے جس سے بدن اندر سے جھلکے یا بدن کی ساخت نمایاں ہو۔ حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ ان کی بہن حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے آئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئی تھیں۔ حضورؐنے فوراً منہ پھیر لیا اور فرمایا : ’’ اسماءؓ جب عورت بالغ ہو جائے تو جائز نہیں ہے کہ منہ اور ہاتھ کے سوا اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے ‘‘(ابو داؤد)۔ اسی قسم کا ایک اور واقعہ ابن جریر نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ ان کے ہاں ان کے اَخیانی بھائی عبداللہ بن الطفیلؓ کی صاحبزادی آئی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم گھر میں تشریف لائے تو انہیں دیکھ کر منہ پھیر لیا۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ میری بھتیجی ہے۔ آپ ؓنے فرمایا : ’’ جب عورت بالغ ہو جائیں تو اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ ظاہر کرے اپنے منہ کے سوا اور اپنے ہاتھ کے سوا ، اور ہاتھ کی حد آپ ؓ نے خود اپنی کلائی پر ہاتھ رکھ کر اس طرح بتائی کہ آ پ ؐکی مٹھی اور ہتھیلی کے درمیان صرف ایک مٹھی کی جگہ اور باقی تھی۔‘‘ اس معاملے میں صرف اتنی رعایت ہے کہ اپنے محرم رشتہ داروں (مثلاً باپ بھائی وغیرہ) کے سامنے عورت اپنے جسم کا اتنا حصہ کھول سکتی ہے جسے گھر کا کام کاج کرتے ہوئے کھولنے کی ضرورت پیش آتی ہے ، جیسے آٹا گوندھتے ہوئے آستینیں اوپر چڑھا لینا، یا گھر کا فرش دھوتے ہوئے پائنچے کچھ اوپر کر لینا۔ اور عورت کے لیے عورت کے ستر کے حدود وہی ہیں جو مرد کے لیے مرد کے ستر کے ہیں ، یعنی ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورتوں کے سامنے عورت نیم برہنہ رہے۔ بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ ڈھانکنا فرض ہے اور دوسرے حصوں کا ڈھانکنا فرض نہیں ہے۔ یہ بات نگاہ میں رہے کہ شریعت الٰہی عورتوں سے صرف اتنا ہی مطالبہ نہیں کرتی جو مردوں سے اس نے کیا ہے ، یعنی نظر بچانا اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنا ، بلکہ وہ ان سے کچھ اور مطالبے بھی کرتی ہے جو اس نے مردوں سے نہیں کئے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس معاملے میں عورت اور مرد یکساں نہیں ہیں۔’’ بناؤ سنگھار‘‘ ( زینت) کے لیے دوسرا لفظ آرائش بھی ہے۔ اس کا اطلاق تین چیزوں پر ہوتا ہے : خوشنما کپڑے ، زیور، اور سر، منہ، ہاتھ، پاوں وغیرہ کی مختلف آرائشیں جو بالعموم عورتوں دنیا میں کرتی ہیں ، جن کے لیے موجودہ زمانے میں میک اَپ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ یہ بناؤ سنگھار کس کو نہ دکھایا جائے ۔