مفتی نذیر احمد صوفی القاسمی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنے درمیان آپس میں سلام کو خوب رائج کرو، اس سے تمہارے دلوں میں جوڑ پیدا ہوگا ۔ آپؐ نے آپس میں محبت اور تعلق کو ایمان کی شرط قرار دیاہے، سلام کے ذریعے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے، اس لئے مسلمانوں کے درمیان سلام کو خوب پھیلاتے رہو، اس سے تمہارے درجات بلند ہوتے رہیں گے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے کہ تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک مومن نہ بن جاؤ گے، تم اس وقت تک مومن نہیں بن سکتے جب تک آپس میں محبت کا ماحول پیدا نہ کرو گے۔میں تمہیں ایک ایسا عمل ضرور بتلاؤں گا کہ جب تم اس عمل کو کر گزرو گے تو تمہارے درمیان محبت پیدا ہوگی، وہ عمل یہ ہے کہ تم آپس میں سلام کی خوب اشاعت کرتے رہو۔ ( الحدیث مسلم شریف )
حضرت عبداللہ بن سلام ؓ مدینہ منورہ کے یہودیوں کے سب سے بڑے عالم تھے جن کو اللہ نے عقل سلیم اور شرافت کا اعلیٰ مقام عطا فرمایا تھا اور انہوں نے رسول اکرمؐ کو دیکھنے کے بعد اسلام لانے میں کسی قسم کا تردد اور تاخیر نہیں فرمائی، یہ اُن کی ایسی خوش نصیبی ہے جو کسی دوسرے کو مشکل سے حاصل ہو سکتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب رحمت دو عالمؐ ہجرت کر کے مدینہ پاک تشریف لے آئے تو آپؐ نے سب سے پہلی جو تقریر فرمائی، اس میں آپ نے تین باتوں کے اہتمام کا حکم فرمایا (1) سلام کو عام کرو (2) لوگوں کو کھانا کھلایا کرو (3) تم اس حالت میں نماز پڑھا کرو، جب لوگ غفلت کی نیند میں سو رہے ہوں۔
پہلی بات یہی ہے کہ سلام کو عام کرو ،جو بھی سامنے آجائے اس کو سلام کیا کرو۔ یوں کہا کرو، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، چاہے پہلے سے جان پہچان کا آدمی ہو یا انجانا ہو، ہر ایک کو سلام کیا کرو، اس سے آپس میں تعلق اور محبت پیدا ہوتی ہے۔
ٹیلیفون اٹھاتے وقت ہیلو کے بجائے السلام علیکم کہنا مسنون ہوگا۔ اسی طرح جانبین میں سے جو پہلے سلام کرے گا، اُس کو سلام میں پہل کرنے کا ثواب بھی ملے گا ۔ یہ بات بھی واضح ہو کہ سلام میں پہل کون کرے گا ،اس کا جواب یہ ہے کہ سلام میں پہل اُسی کو کرنی چاہئے جس کی طرف سے گفتگو کی شروعات ہو۔ موجودہ زمانے میں ٹیلی فون انسانی زندگی کا جُز بنتا جا رہا ہے ۔ انسان دفتر میں جائے تو فون ساتھ میں ہوتا ہے، انسان دکان پر جائے تو فون ساتھ میں ہوتا ہے، زمیندار اپنی زمین پر جائے، اپنے کھیت میں جائے تو موبائل ساتھ میں ہوتاہے گویا کہ ٹیلی فون انسان کی ملاقات کا ایک اہم ترین ذریعہ بن گیا ہے اور آمنے سامنے ملاقات کا بدل بن گیا ہے ۔لہٰذا دو آدمیوں کے درمیان آمنے سامنے ملاقات کے وقت جس طرح سلام کا حکم ہے، اُسی طرح فون پر ملاقات میں بھی سلام کا وہی حکم ہوگا ۔ جس تیزی کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو عام ہوتی جا رہی ہے اُسی تیز رفتاری سے ٹیلی فون پر سلام کو بھی عام کرنے کی ضرورت ہے۔ آپس میں ملاقات کے وقت گفتگو سے پہلے شریعت نے سلام کا مسنون طریقہ اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے۔ چنانچہ حدیث پاک میں آیا ہے کہ گفتگو سے پہلے سلام کیا کرو۔
کسی کو یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ اگر ٹیلی فون میں ایک دوسرے سے جانکاری حاصل کرنے سے پہلے سلام سے شروعات کی جائے تو کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ جس کا ٹیلی فون آیا ہے ،وہ غیر مسلم ہو تو غیر مسلم کو انجانے میں سلام کرنا لازم آ جائے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ انجانے اور بے خبری میں غیر مسلم کو مسلمان سمجھ کر سلام کرنے میں کوئی گناہ اور کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس لئے کہ حدیث پاک میں آیا ہے کہ سب سے بہترین مسلمان وہ ہے جو ہر شخص کو سلام کرتا ہو، جس کو جانتا ہو، اس کو بھی سلام کرتا ہو اور جسے نہیں جانتا ہو،اُسے بھی سلام کرتا ہو ۔لہٰذا غیر مسلم کو بے خبری میں مسلمان سمجھ کر سلام کیا جائے تو نہ احتیاط کے خلاف ہے اور نہ ہی کوئی گناہ ہے بلکہ سلام کرنے والے کو اپنے سلام کا ثواب بھی مل جائے گا ۔ ہاں البتہ اگر پہلے سے معلوم ہے کہ جس کا ٹیلی فون آنے والا ہے ،وہ غیر مسلم ہے یا آپ خود غیر مسلم کو ٹیلی فون کر رہے ہیں تو ایسی صورت میں سلام سے شروعات نہ کی جائے ۔
کسی کو یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ اگر ٹیلی فون میں سلام کا اہتمام کیا جائے تو ممکن ہے کہ جس کو سلام کیا جائے وہ غیر محرم عورت ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ غیر محرم عورت کو اس وقت سلام کرنا منع ہے، جب فتنے کا خطرہ ہو اور اگر فتنے کا خطرہ نہ ہو تو سلام کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ سلام کرنے والے کو سلام کا ثواب بھی مل جائے گا، اس لیے کہ حضور اکرم ؐ نے نا محرم عورتوں کو سلام فرمایا ہے، اس لئے کہ وہاں فتنے کا کوئی خوف نہیں تھا۔ حضرت اسماء بنت یزید ؓ فرماتی ہیں کہ ہم عورتوں کی ایک جماعت میں موجود تھے اور نبی کریمؐ کا ہم لوگوں کے پاس سے گزر ہوا ،تو آپؐ نے ہم لوگوں کو سلام کیا (الحدیث داؤد شریف)۔ اس وقت علماء حضرات کی ذمہ داری یہ ہے کہ جس تیزی کے ساتھ ٹیلی فون انسانوں میں عام ہوتا جا رہا ہے اُسی تیزی کے ساتھ عملاً اور قولاً ٹیلی فون میں سلام کو بھی عام کیا جائے۔ اللہ پاک ہم سب کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
(استاذ الحدیث دارالعلوم فرقانیہ سرینگر)