13ستمبر 1948ء کو ہندوستانی افواج نے آصف جاہی مملکت حیدرآباد کے خلاف بھر پور فوجی کارروائی کا (بغیر کسی اطلاع یا الٹی میٹم) اچانک آغاز کیا تھا تاکہ 11 ستمبر کو ہوئی محمد علی جناح کی وفات کا پورا پورا فائدہ اٹھایا جاسکے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے صدمہ سے پاکستان حیدرآباد کی فوری مدد سے قاصر تھا تو حکومت حیدرآباد اور حیدرآبادی عوام بھی اس صدمہ کی وجہ سے جنگی کارروائیوں کے موڈ میں نہ تھے۔ اسی لئے سید علی ہاشمی نے سقوط حیدرآباد کے بارے میں لکھی گئی اپنی کتاب (جو فاروس پبلی شر نے حال ہی میں شائع کی ہے Hyderabad 1948 an Avoidable Invasion رکھا ہے یعنی حیدرآباد کے خلاف جو حملہ ہوا تھا اس سے بچاجاسکتا تھا، اس سے احتراز ممکن تھا۔ ہندوستان میں سقوط حیدرآباد کے بارے میں حقائق پر مبنی بہت کم کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ہاشمی صاحب کی مذکورہ بالا کتاب ایک اہم اور عمدہ اضافہ ہے۔ حیدرآباد کے خاتمے کی روایتی وجوہات سے ہٹ کر مرتب نے وہ تلخ حقائق کھل کر بیان کئے ہیں جو عام طور پر کسی نہ کسی وجہ سے کھل کر نہیں بیان کئے ہیں۔ یہی واقعات اس مبسوط و مفید کتاب کے تین سو صفحات پر تقریباً ( 125عنوانات کے تحت بیان کئے گئے ہیں)۔ ہر بات ہر واقعہ کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
سقوط حیدرآباد کی متعدد وجوہات میں آخری برطانوی وائسرائے لارڈ ماونٹ بیٹن کی وہ پیش گوئی بھی قابل اعتناء ہے جو انہوںنے حکومت ہند کے جارحانہ عزائم کے بارے میں اپنی روانگی سے عین قبل انہوںنے 23مئی 1948ء کو لائق علی سے ملاقات کے دوران کی تھی۔ (ص؍99) جس سے ثابت ہوتا ہے چاہے حکومت حیدرآباد کسی با عزت معاہدے کی کتنی ہی کوشش کرتا ،وہ ہندوستانی حکومت کے جارحانہ ارادوں اور عزائم کے وجہ سے ہر حال میں ناکام رہتا۔ یہ پیش گوئی کس طرح سچ ثابت ہوئی اس کا اعتراف لائق علی نے اپنی کتاب Tragedy of Hyderabad میں کیا ہے۔
دوسری اہم وجہ حیدرآباد کے سپہ لار العبدروس کی غداری ہے جو میر جعفر کی سراج الدولہ اور میر صادق کی ٹیپوسلطان سے شرمناک غداریوں سے بھی زیادہ شرمناک اور قابل مذمت ہے،جو انہوں نے حیدرآباد اسلحہ کے اس ذخیرہ کو دیکھ کر کہا تھا اورجو حیدرآباد نے ایک مہم پسند اسمگلر سڈنی کاٹن کے ذریعہ یوروپ سے منگوائے تھے مگر ان کی پیکنگ تک کھولی بھی نہیں گئی تھی۔ جنرل چودھری نے کہا تھا ’’اگر حیدرآباد فوج نے ان ہتھیاروں کا استعمال کیا ہوتا تو ہندوستانی فوج کیلئے حیدرآباد پر قبضہ کرنا اتنا آسان نہ ہوتا‘‘۔ یہ مردود العیدروس کی غداری کا ایک نمونہ تھا تفصیلات آگے آئیں گی۔
سقوط حیدرآباد تیسرا اہم سبب حکومت حیدرآباد کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے انتہائی تاخیر سے پیش کرنا تھا۔ 21؍اگست کو حکومت حیدرآباد نے اپنی شکایت صدر سلامتی کونسل سے پیش کی تھی لیکن سلامتی کونسل میں حیدرآباد نے اپنا مقدمہ 15؍ستمبرکو پیش کیا ، تاخیر کے سبب سلامتی کونسل کچھ کرنے سے قاصر تھی۔ سلامتی کونسل کا جو اجلاس جنگ بندی کا حکم دینے کیلئے ہونے والا تھا وہ نظام کے ہتھیارڈالنے کے اعلان (شام 3بجے)کے صرف تین گھنٹے بعد (ہندوستانی وقت)6بجے شام ہونے والا تھا۔ یہ حکومت ہند اور اس کے ایجنٹ جنرل کے ایم منشی کی چالاکی تھی کہ شہر حیدرآباد میں ہندوستانی فوج کے داخلے سے پہلے ہی نظام سے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کروادیا تاکہ ہندوستانی وقت کے مطابق 6بجے شام ہونے والا سیکورٹی کونسل کا اجلاس کسی جنگ بندی کا حکم ہی نہ دے سکے۔ نظام نے اپنی پریشانی میں منشی کے ہاتھوں کھلونا بن گئے تھے اور اپنی پیروں پر آپ کلہاڑی مارلی تھی۔ نظام نے آخری وقت میں سرمرزااسمٰعیل اور زین یارجنگ اور سپہ سالار حیدرآباد افواج عیدروس کی طئے شدہ سازش کا شکار ہوگئے اور عجلت و پریشانی میں ہتھیار ڈالنے کا اعلان کردیا تاکہ وہ خود ان کا خاندان اور دولت محفوظ رہے۔
سید علی ہاشمی نے سارے موضوعات کو بڑی خوبی سے سمٹتے ہوئے کوئی نکتہ تشنہ نہیں رکھتا ہے۔ العیدروس کی غداری کا حال کسی کتاب میں اتنی تفصیل سے نہیں ہے بلکہ انہوں نے العیدروس کی غداری کا حال خود العیدروس کی کتاب Hyderabad of Seven Loaves کے ص؍137 کے حوالے سے لکھا ہے جس میں العیدروس نے لکھا ہے کہ ’’یہ جانتے ہوئے کہ مملکت کن مایوس کس صورت حال سے گذر رہی تھی، میں نے تمام علاقائی کمانڈرس کو راز میں حکم دیا تھا کہ ہندوستانی فوج کے حملے کا وہ بالکل مقابلہ نہ کریں بلکہ بتدریج حیدرآباد شہر کی طرف پسپائی اختیار کریں اور یہی فوج نے کیا۔ مغرب میں پیش قدمی روکنے کے لئے نلدرگ کی ندی کا پل، شمالی میں راجو رہ کا پل اور اور مشرق میں سوریا پیٹھ کا پل اڑانا ضروری تھا لیکن ان کو فوج نے ہندوستانی فوج کی مارچ کو آسان بنانے کے لئے باقی رکھا تھا۔ تو یہ تھی العیدروس کی غداری جس کو حسب روایت ہتھیار ڈالنے کے بعد گرفتار نہیں کیا گیا۔ العیدروس پر نظام، لائق علی اور قاسم رضوی بھروسہ کرتے تھے مگراس نے سب کو دھوکا دیا تھا۔ لائق علی نے زین یارجنگ اور العیدروس کو برطرف نہ کرکے ہمالیائی غلطی کی تھی۔یہ سوال اہم ہے کہ العیدروس نے آخرغداری کیوں کی؟ سید علی ہاشمی نے بند الفاظ میں العیدروس کی یہودی بیوی کی وجہ سے اسلام دشمن صیہونی اثرات کا حوالہ دیا ہے جس کی وجہ سے العیدروس نے ملت سے غداری کی تھی اور بھی وجوہات عیدروس کی غداری میں دخیل ہونا ممکن ہیں۔
اقوام متحدہ سے رجوع ہونے میں حیدرآباد کی تاخیر بلکہ تساہل سے جو نقصان پہنچا اس سلسلے میں مزید کسی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر حیدرآباد کا وفد اقوام متحدہ ستمبر کی جگہ اگست میں سلامتی کونسل پہنچ جاتا تو حیدرآباد پر بھارت کا حملہ آسان نہ تھا اور اگر ہوتا بھی تو سلامتی کونسل جنگ بندی کرواکے ریاست کو مکمل قبضے سے بچالیتی لیکن ۔۔۔سردار پٹیل کے ہوتے ہوئے حیدرآباد پر مکمل قبضے کے جارحانہ عزائم کا حیدرآباد کیا نہرو کے پاس بھی کوئی توڑ نہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حیدرآباد کی گنگا جمنی تہذیب کے حوالے سے نہرو حیدرآباد کو آزاد رہنے دینے کے لئے تیار تھے لیکن ان کے بیانات اور اقدامات اس خیال کی نفی کرتے ہیں (ص243-246) ایک خیال یہ بھی ہے کہ حیدرآباد کے خلاف ہندوستان نے جو زبردست پروپیگنڈہ کیا تھا کہ ریاست کی صورت حال دھماکو اور سنگین ہے۔ ہندوؤں پر مظالم بڑھ رہے ہیں۔ رضاکار ان پر قیامت ڈھارہے ہیں وغیرہ وغیرہ، اس سے نہرو متاثر ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نہرو جیسے مدبرکا اپنے ہی پروپیگنڈے سے متاثر ہونا ممکن تھا؟
حیدرآباد کے آخری وزیر اعظم میر لائق علی دو ناقابل فراموش غلطیوں کا ہاشمی صاحب نے کئی جگہ ذکر کیا ہے۔ ایک تو کمانڈر کی حیثیت سے العیدروس کو جانتے بوجھتے ہوئے برقرار رکھنا ، دوسری غلطی دہلی میں ایجنٹ جنرل کے عہدے پر زین یارجنگ کا تقرر اور ان کی غداری کا حال محسوس کرنے کے بعد بھی زین یارجنگ کو واپس نہ بلانا۔ ایک تیسری غلطی لائق علی کی یہ بھی ہے کہ انہوں نے کے ایم منشی کے حیدرآباد پر تقرر کو منشی کی مسلم دشمنی پر مبنی تاریخ کے باوجود نظر انداز کردیا، اس کے بعد ان کی رہائش گاہ کی نگرانی بھی کمزور تھی۔ علی یاور جنگ، ہوش یارجنگ، العیدروس اور نظام کے دوسرے درباری امراء منشی سے آزادانہ مل کر سازشیں کرتے رہے۔ اس سلسلہ میں دین یارجنگ جو شہر کی پولیس کے سربراہ تھے ،ذمہ داری سے بچ نہیں سکتے ہیں تاہم وہ نظام کے سازشی امراء کے مقابلے میں کمزور تھے۔
بیشتر لکھنے والے قاسم رضوی پر بے بنیاد تنقید کرتے ہیں ان کے برعکس ہاشمی نے قاسم رضوی کے خلوص، حب الوطنی کو سراہا ہے اور محاذ پر رضوی صاحب کے اپنے دونوں بیٹوں کو روانہ کرنے پر تحسین کی ہے لیکن ہاشمی نے رضاکاروں پر کم کم ہی سہی روایتی اعتراضات کئے ہیں جب کہ کیپٹن ایل پانڈو رنگاریڈی نے لکھا ہے کہ سرحد پار سے کانگریسی غنڈے اپنی اپنی ریاستوں کی پولیس اور افواج کی مدد سے حیدرآباد کے سرحدی علاقوں میں رضاکاروں کے بھیس میں تباہی و غارت گری مچاتے، ان جعلی رضاکاروں کے کالے کرتوتوں کو نظام کے رضاکاروں سے منسوب کرکے رضاکاروں کو حکومت ہند اور میڈیا (آل انڈیا ریڈیو اور اخبارات) بری طرح بدنام کیا حالانکہ حیدرآباد کے رضاکاروں کے جرائم اس کا پانچ دس فیصد بھی نہیں ہیں، جو ان سے بلاوجہ منسوب کئے جاتے ہیں۔ خود حیدرآبادی مسلمان آج بھی رضاکاروں کے تعلق سے غلط پروپیگنڈہ کا شکار ہے کہ مابعد سقوط کے مسلم کش فسادات رضاکاروں کی حرکتوں کا ردعمل ہے۔
کتاب میں چند انٹرویو بھی ہیں جن مرحوم عبدالرحیم قریشی کا انٹرویو قابل ذکر ہے۔ ڈاکٹر حسن الدین احمد نے العیدروس کی غداری پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ راقم الحروف سے بھی ہمارے محترم بزرگ نے علی یاورجنگ کا دفاع کرکے جامعہ عثمانیہ میں اردو پر ہوئے مظالم کے الزام سے علی یاور جنگ بچانے کی کوشش کی تھی۔
راقم الحروف جو 1994ء یعنی 24 سال سے سقوط حیدرآباد پر ہر سال کبھی تین کبھی دو مضامین لکھتا رہا ہے، سید علی ہاشمی کی مرتبہ کتاب کو نہ صرف مستند بلکہ قابل تحسین قرار دیتا ہے۔ یہ کتاب فاروس میڈیا اینڈ پبلی شنگ ادارے (دہلی) سے بہ عوض 275 روپے (فون نمبر پبلی شر 011-26947483یا 011-26952825 میں حاصل کی جاسکتی ہے۔ حیدرآباد اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس کا اردو ترجمہ بھی ضروری ہے۔ کتاب میں لکھے گئے متعدد واقعات کا ذکر کرنے سے ہم جگہ کی تنگی کی وجہ سے نہ کرسکنے کیلئے معذرت خواہ ہیں۔
Cell: 0091 9949466582
�����