معصوم مرادآبادی
گزشتہ ہفتہ کی سب سے حیران کن خبر سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ہونے والا دفاعی معاہدہ ہے ، جس کے تحت ’’کسی ایک ملک کے خلاف بیرونی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔‘‘اس معاہدے پر گز شتہ بدھ کی شام سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے ریاض میں دستخط کئے۔اس موقع پر پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر بھی موجود تھے۔ اس معاہدے نے جہاں دنیا کے بیشتر ملکوں کو حیران کردیا ہے تو وہیں اس سے ہندوستان کا پریشانیاں بڑھ گئی ہیں۔ کیونکہ سعودی عرب ہندوستان کا دوست ہے اور پاکستان جانی دشمن۔ ہندوستان ، پاکستان کو دہشت گردی کی سب سے بڑی نرسری تصور کرتا ہے اور وہ اسے دنیا میں الگ تھلگ کرنے کی کوششیں کرتا رہا ہے۔ پہلگام حملے کے بعد ہندوپاک کے درمیان تعلقات سب سے ابتر حالت میں ہیں۔اس حملے کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتے ہوئے ہندوستان نے ’’آپریشن سندور ‘‘ کے تحت فوجی کارروائی بھی کی تھی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ گزشتہ 22اپریل کو جب پہلگام پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تو وزیراعظم نریندر مودی اس وقت سعودی عرب کے دورے پر تھے اور وہ اس دورے کو ادھورا چھوڑ کر وطن واپس آئے تھے۔بعدکو ہندوستان نے ممبران پارلیمنٹ کے وفودجن ملکوں کو روانہ کئے ان میں سعودی عرب بھی شامل تھا۔ ان وفودکو بھیجنے کا مقصد دہشت گردی کے تئیں پاکستان کی ہمدردانہ پالیسی کو بے نقاب کرکے اس کو الگ تھلگ کرنا تھا ، مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان کی یہ سرگرمی رائیگاں گئی اور کسی بھی ملک نے پاکستان کی مذمت نہیں کی۔ یہاں تک کہ اس حملے کے ماسٹر مائنڈ قرار دئیے گئے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر امریکی صدر ٹرمپ نے و ہائٹ ہاؤس میں ظہرانے پر مدعو کرکے ان کی پذیرائی کی۔گزشتہ مئی میں ہندپاک تصادم کے دوران چین اور ترکی پاکستان کے ہمنوا تھے اور اسے دفاعی سازوسامان بھی فراہم کررہے تھے۔ان دونوں ملکوں کے بعد اب سعودی عرب تیسرا بڑا ملک ہے جو پاکستان کے دفاع میں اس کا شریک کار بنا ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ اس معاہدے سے پاکستان کو بہت فائدہ پہنچے گااور سعودی عرب کی اتھاہ دولت اس کے دفاع کے کام آئے گی۔سعودی عرب خلیجی ملکوں میں سے سے امیر ملک ہے اور اس کی 1.14ٹریلین ڈالر جی ڈی پی کا بڑا حصہ آج بھی تیل سے آتا ہے اور وہ اپنی جی ڈی پی کا سات فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ سعودی عرب کے پاس جدید ترین ہتھیاروں کا بھنڈار ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اس اہم دفاعی معاہدے سے ہندوستانی تشویش سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب ہندوستان کا ایک اہم تجارتی شراکت دار ہے اور کم وبیش27؍ لاکھ ہندوستانی باشندے وہاں برسرکار ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہندوستان سعودی عرب کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے جبکہ سعودی عرب ہندوستان کا پانچواں سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی روابط کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2023-24 کے دوران دوطرفہ تجارت تقریباً 43 بلین ڈالر تھی۔ اس دوران ہندوستان نے سعودی عرب کو ساڑھے گیارہ بلین ڈالر کا ایکسپورٹ کیا اور سعودی عرب نے ہندوستان کو اکتیس بلین ڈالر سے زیادہ امپورٹ کیا۔دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی رشتے بھی مسلسل مـضبوط ہوتے رہے ہیں اور وزیراعظم نریندر مودی سعودی عرب کو اپنانے کے لیے کئی اقدامات کرچکے ہیں۔ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ 2006میں یوم جمہوریہ کے موقع پر مہمان خصوصی کے طورپر شریک ہوئے تھے اور اس موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان دہلی معاہدے پر بھی دستخط ہوئے تھے۔ بعدازں 2010میں اس وقت کے وزیراعظم منموہن سنگھ کے سعودی عرب کے دورے کے دوران ریاض اعلامیہ کے ساتھ باہمی اشتراک کا نیا دور شروع ہوا۔ وزیراعظم مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد دوطرفہ اعلیٰ سطحی وفود کا تبادلہ ہوا ہے اور سعودی عرب نے وزیراعظم مودی کو اپنا سب سے بڑا شہری اعزاز بھی دیا ہے ۔
یوں تو سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے رشتے بہت پرانے ہیں اور کئی مواقع پر پاکستان نے سعودی فوج کی تربیت کے سامان بھی مہیا کئے ہیں۔ لیکن دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدے کے پیچھے دراصل وہ تشویس اور پریشانی ہے جو گزشتہ دنوں قطر پر اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔اس حملے کے بعد اوآئی سی کے دوحہ اجلاس میں یہ طے پایا کہ’’ اپنی مدد آپ ‘‘ کے اصول کے تحت مسلم ملکوں کو اپنے دفاع کا بندوبست خود کرنا چاہئے۔ اس معاملے میں امریکہ پر مکمل انحصار تباہ کن ہوسکتا ہے۔اب تک یہ ہوتا رہا ہے کہ بیشتر خلیجی ملکوں نے اپنی حفاظت کا ٹھیکہ امریکہ کو دے رکھا تھا۔ان ملکوں میںامریکی فوجی اڈے ہیں جبکہ قطر میںسب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ موجودہے، لیکن اس کے باوجود اسرائیل نے قطر کے خلاف جارحیت کا مظاہرہ کیا اور دیگر ملکوں کو بھی وارننگ دی کہ جو کوئی حماس کے لیڈروں کو پناہ دے گا ، اس کو نشانہ بنایا جائے گا۔قطر کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے بعد ہی عرب اور اسلامی ملک خواب خرگوش سے بیدار ہوئے ہیں اور انھیں محسوس ہوا ہے کہ ’خدااعتمادی اور خوداعتمادی‘ ہی بقاء کا واحد راستہ ہے۔
ایک عرصے سے اس بات کی ـضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ مسلم ملکوں کو دوسروں پر انحصار کرنے کی بجائے اپنا ایک مضبوط بلاک بنانا چاہئے اور کسی ایک مسلم ملک کے خلاف جارحیت کو پوری اسلامی دنیا کے خلاف جارحیت تصور کرتے ہوئے اس کا منہ توڑ جواب دینا چاہئے۔اس معاملے میں اسلامی ملکوں کی سربراہ تنظیم او آئی سی کو کلیدی کردار ادا کرنے پر زور دیا گیا ، لیکن عملی طورپر یہ تنظیم آج تک کوئی اہم کردار ادا نہیں کرسکی۔پاکستان بھی اس تنظیم کا ایک رکن ہے اور اس کی اصل طاقت جوہری ہتھیارہیں۔ اس وقت پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جو اس غیر معمولی صلاحیت سے لیس ہے۔مسلم ملکوں میں ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی کوشش کرنے والا دوسرا ملک ایران ہے ، لیکن اسرائیل نہیں چاہتا کہ خطہ میں اس کے علاوہ کسی اور کے پاس جوہری ہتھیار ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے گزشتہ دنوں ایران میں یورونیم افزودگی کرنے والے مراکز کو امریکہ کی مدد سے نشانہ بنایا ، جس کا ایران نے منہ توڑ جواب دیا اور اسرائیل کے کئی شہر ایرانی میزائلوں سے دہل اٹھے۔ایران پر یہ حملے ایک ایسے وقت میں کئے گئے جب ایران کے جوہری سائنسداں امریکی افسران کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھے۔
سعودی ۔پاک دفاعی معاہدے پر ہندوستان نے محتاط ردعمل ظاہر کرنے کے بعد امید ظاہر کی ہے کہ سعودی عرب ہمارے مفادات اور احساسات کو مدنظر رکھے گا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ’’ سعودی عرب نے مذکورہ دفاعی معاہدے کے حوالے سے ہندوستان کو اعتماد میں لیا ہے ۔ ‘‘ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ معاہدے کے باوجود ہندوستان اور سعودی عرب کے دفاعی تعلقات کو مضبوط کرنے کی جوکوششیں گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہیںوہ مستقبل میں بھی جاری رہیں گی۔‘‘دراصل اپریل 2025میں وزیراعظم مودی کے ریاض درورے میں دفاعی تعاون کے لیے مستقبل کے روڈ میپ پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔دوسری طرف پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے کو ماہرین ہندوستان کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ نہ صرف دونوں ملکوں کے لیے اہم ہے بلکہ مستقبل میں اس کے مغربی ایشاء اور جنوبی ایشاء پر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔ اس معاہدے کے بعد سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر ہندوستان نے پاکستان کے خلاف’ آپریشن سندور‘ جیسا اقدام کیا تو کیا سعودی عرب پاکستان کا ساتھ دے گا؟ ماہرین کا خیال ہے کہ فی الحال اس معاہدے سے کوئی خطرہ نہیں ہے ، لیکن آنے والے وقت کے لیے یہ ہندوستان کے لیے کسی بھی طرح اچھا نہیں ہے۔یہ معاہدہ دراصل اسرائیل کو محور میں رکھ کر کیا گیا ہے اور اس کا ہدف ہندوستان ہرگز نہیں ہے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل اس وقت ہندوستان کا سب سے بڑا دوست ہے، جس نے مشرق وسطیٰ میں تباہی مچارکھی ہے۔سعودی پاک دفاعی معاہدہ مشرق وسطیٰ کے ملکوں کو اسرائیل سے درپیش خطرات کے پیش نظر ہی کیا گیا ہے۔اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کے لیے آنے والے دنوں میں سفارتی صورتحال خاصی پیچیدہ ہوسکتی ہے۔