عارف شفیع وانی
کھودی ہوئی سڑکیں اور فٹ پاتھ، سڑکوں پربہتی بدرو کی نالیاں، بدبودار کچرے کے ڈھیر اور ٹریفک جام! ترقیاتی پروجیکٹوں کی بے ترتیبی سے انجام دہی کی وجہ سے یہ تاریخی سری نگر شہر کی کچھ “خاص نشانیاں” ہیں۔ابتدائی طور پر جب سمارٹ سٹی پروجیکٹ شروع کیا گیا تو شہر کے لوگ بہت خوش تھے لیکن جس طرح جنگی بنیادوں پر کام انجام دیا گیا اس نے سب کو حیران کر دیا۔ ایسا لگتا تھا کہ کاموں کو انجام دینے کی فوری ضرورت ہے لیکن منصوبہ بندی واضح طور پر غائب تھی۔ مسئلہ اُس وقت شروع ہوا جب شہر کی بڑی سڑکوں پر کام بیک وقت شروع کیا گیا۔ لوگوں میں افراتفری پھیل گئی کیوںکہ انہوں نے شہر میں اتنے بڑے پیمانے پر کام کبھی نہیں دیکھے تھے۔
سرینگر بھر میں نکاسی آب کے پانی کو لے جانے کے لیے نئے پائپ ڈالنے کے لئے سڑکیں کھودی گئی ہیں۔ کئی سال قبل بچھائی جانے والی پرانی نکاسی آب کی پائپ لائنوں کا انجام نامعلوم ہے۔ سری نگر میں سڑکوں پر “سرجیکل سٹرائیک” کے بعدحکام بروقت مرمت کرنے میں ناکام رہے جس کی وجہ سے مسافروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہیں خستہ حال سڑکوں اور ٹریفک جام سے اپنی گاڑیوں کے نقصان کا خمیازہ بھی اٹھانا پڑتا ہے۔
برسوں کی تاخیر کے بعد صنعت نگر فلائی اوور پر کام اس ماہ کے آغازمیں شروع ہوا۔ بائی پاس پر مصروف سڑک پر ٹریفک جام کو روکنے کے لئے یہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔ تاہم حکام اب تک فلائی اوور سائٹ کے دونوں اطراف سڑکیں بنانے میں ناکام رہے ہیں تاکہ گاڑیوں کی آسانی سے آمدورفت کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے نتیجے میں علاقے میں بڑے پیمانے پر ٹریفک جام ہوتا ہے کیونکہ گاڑیوں کو ناہموار کیچڑ والی سطحوں پرچلنا پڑتا ہے۔
غلط منصوبہ بندی کی بہترین مثالوں میں سے ایک ڈل گیٹ پل کی تعمیر نو ہے۔ اس پل کو 2014 میں تباہ کن سیلاب سے نقصان پہنچا تھا۔ بعد ازاں تباہ شدہ پل پر عارضی طور پر لوہے کی چادریںبچھائی گئی تھیں۔ آخر کار اس پل پر کام اس سال کے آغاز میں شروع ہوا اور یہ منصوبہ اس سال دسمبر تک مکمل ہونا تھا۔اہم منصوبے پر عمل درآمد میں بڑی تاخیر ہوئی۔ یہ پل اتنا اہم ہے کہ اس کی بندش سے شہر کے وسط کے علاقوں میں ٹریفک جام ہوگیا۔ یہ پل ڈلگیٹ روڈ کو کئی علاقوں سے جوڑتا ہے، بشمول سٹی سینٹر، ڈائون ٹاؤن اور بلیوارڈ۔ اب یہ پل مارچ 2024 تک مکمل ہونا ہے۔
نائوپورہ سے خانیار تک کی سڑک کئی ماہ قبل نکاسی آب کے پائپ ڈالنے کے لئے کھودی گئی تھی۔ ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود شہر کے وسط کے علاقوں سے ڈائون ٹاؤن کو جوڑنے والے اہم حصے کی مرمت کی بات بھی نہیں کی گئی۔ سطح ناہموار ہونے کی وجہ سے یہ سڑک مسافروں کے لئے ڈراؤنا خواب بن گئی ہے۔ اس سے سری نگر کو سمارٹ سٹی میں تبدیل کرنے کے غبارے کی ہوا بھی نکل جاتی ہے۔
ترقی کی سست رفتاری کی ایک اور مثال نور باغ پل ہے۔ یہ پل اہم ہے کیونکہ اس سے شمالی کشمیر سے سری نگر تک ٹریفک کی بھیڑ کو روکنے میں مدد ملے گی۔ پل کی تعمیر کا کام 2011 سے جاری ہے۔ اس پل کو چار سال میں مکمل ہونا تھا تاہم اب ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔
شہر بھر میں نکاسی آب کے نئے نظام کی تعمیر کے باوجود بارش کے بعد کئی علاقوں کی سڑکیں پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب پائپ صحیح طریقے سے نہیں بچھائے جاتے ہیں یا پانی نکالنے والے سٹیشنوں سے منسلک نہیں ہوتے ہیں۔
اسی طرح گرمائی دارالحکومت میں ٹریفک جام سے نمٹنے کیلئے انٹیلی جنٹ ٹریفک لائٹ سسٹم (ITLS) کے کام میں تاخیر ہوئی ہے۔بہت سے معاملات میں محکمے ترقیاتی کاموں کی تکمیل میں تاخیر کیلئے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جس کا خمیازہ بالآخر عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔
سری نگر میں سمارٹ سٹی پروجیکٹ زوروں پر ہے۔ بلاشبہ جہلم ریور فرنٹ، تجدید شدہ پولو ویو اور لال چوک جیسے سمارٹ سٹی کے کچھ منصوبے مقامی لوگوں اور سیاحوں کے لئے پرکشش مقامات کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ جو چیز سمارٹ سٹی پروجیکٹوں کوچمک ختم کردیتی ہے وہ کام کی سست رفتار ہے، خاص طور پر ڈاؤن ٹاؤن میں۔لوگوں کو یہ محسوس نہیںہونا چاہئے کہ اپ ٹاؤن اور ڈاؤن ٹاؤن سری نگر میں اسی طرح کے پروجیکٹوں کو انجام دینے کے لئے دوپیمانےہیں۔ مساوی ترقی ہوئی ہے۔
سری نگر سمارٹ سٹی لمیٹڈ،سمارٹ سٹی مشن کے تحت بنائی گئی ایک خاص مقصد کی تنظیم سری نگر کو ایک ماحول دوست، لچکدار اور سماجی و اقتصادی طور پر متحرک شہر میں تبدیل کرنے کا تصور کرتی ہے جو اپنے قدرتی اور ثقافتی ورثے کا جشن مناتی ہے اور ہم آہنگی اور مواقع پیدا کرتی ہے۔ سری نگر سمارٹ سٹی پروجیکٹ دو حصوں پر مشتمل ہے: (الف) رقبہ پر مبنی ترقی جس کی تخمینہ رقم2869.24 کروڑ روپے ہےاور (ب) پین سٹی سلوشنز جس کی تخمینہ لاگت765.03 کروڑ روپے ہے۔ فنڈنگ ماضی کی طرح کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ صرف کاموں کی صحیح تکمیل ہی وقت کی ضرورت ہے۔
لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے سری نگر کی ترقی کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ ایل جی نے حال ہی میں سری نگر سمارٹ سٹی کے پروجیکٹ وزٹ کے ذریعے تجرباتی سیکھنے کے لئے 100 سمارٹ شہروں کی نمائندگی کرنے والے میئروں، میونسپل کمشنروں، چیف ایگزیکٹو افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا’’سری نگر سمارٹ سٹی ملک کے دیگر شہروں کے لئے ایک رول ماڈل ہے جس میں پیدل چلنے والوں کے لئے مؤثر پلازے، واٹر فرنٹ پر تفریحی مقامات ہیں۔ گلیوں اور عوامی مقامات کے بہترین شہری ڈیزائن کے ساتھ کوئی بھی اس شہر کی روح کو محسوس کر سکتا ہے‘‘۔
ایل جی کا یہ خواب ہے کہ وہ سرینگر کے لوگوں کی زندگیوں میں جمالیات کو بڑھانے، معیار زندگی کو یقینی بنانے اور مثبت تبدیلی لانے کے لئے متحرک عوامی جگہیں فراہم کرے۔حکام کو اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے اور سری نگر کو ہر پہلو سے سمارٹ سٹی بنانے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔یہ کام کی رفتار کو تیز کرنے اور مقررہ وقت کے اندر کام کو ختم کرنے کا صحیح وقت ہے۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ترقیاتی منصوبوں کی کامیابی کے لئے مناسب منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد ضروری ہے۔ ڈیڈ لائن پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ہمیں اس بات کا سبق سیکھنا ہوگا کہ دنیا بھر میں ترقیاتی منصوبوں کو ماحولیات اور لوگوں کو زیادہ پریشان کیے بغیر کیسے چلایا جاتا ہے۔سری نگر نہ صرف 15 لاکھ لوگوں کا مسکن ہے بلکہ ملک کے پسندیدہ سیاحتی مراکز میں سے ایک ہے۔ سری نگر ایک بھرپور تاریخ اور ثقافت کا ذخیرہ ہے۔ شہر کو اپنی منفرد سماجی، ثقافتی اور ماحولیاتی خصوصیات کے تحفظ کے لئے پائیدار ترقی کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار انگریزی روزنامہ’’ گریٹر کشمیر‘‘کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرینگرکی شان کو برباد نہ کریں | شہرکی انفرادیت کے تحفظ کیلئے پائیدار ترقی کی ضرورت