صحافی کافی عرصہ سے خطرات کی زد میں ہیں۔پولیس کے ہاتھوں ہزیمت اُٹھانا اور سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں پٹنا معمول بن چکا ہے۔ کراس فا ئرنگ کی زد میں آنا روز مرہ کا رونا ہے۔ احتجاجی ہجوموں کے غصے کا شکار ہونا ہمیشہ متوقع ہے۔ یہ ہے زندگی اُن صحافیوں کی جو کشمیر سے اور کشمیر پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ہم نے یہ سب جھیلا ہے اور اس سے کہیں زیادہ بھی۔ شائد آگے نہیں۔اب صحافت خطرے میں ہے۔ صحافت، جمہوریت کا چھوتھا ستون، خطرے میں ہے۔ کوئی گروہ نہیں، کوئی خطہ نہیں، کوئی زبان نہیں۔ صحافت بحیثیت ایک ادارے کے خطرے میں ہے۔محکمہ اطلاعات اخبارات کے اشتہارات بندکرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ بے ترتیب۔ من مانی سے۔ کوئی وجہ بتائے بغیر اور جن اخباروں کے اشتہارات روک دئے جاتے ہیں اُنہیں رسمی طور مطلع کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی۔یہ سب کچھ کسی لکھا پڑی کے بغیر زبانی زبانی ہو تا ہے۔ ہدایات جاری کی جاتی ہیں۔ جاری شدہ ہدایات پر عمل کیا جاتا ہے۔ کیوں؟ کوئی وضاحت نہیں۔ریاست جموں و کشمیر، با الخصوص وادی کشمیر، جہاں نجی شعبوں کی جانب سے اخبارات کو اشتہارات نہ ہونے کے برابر ملتے ہیں، سرکار کی جانب سے اشتہارات پر روک ان اخبارات کی مالی حالت ، جو کہ پہلے سے ہی متاثر ہے، کو اور بری طرح سے متاثر کر سکتی ہے۔ یہ ایک تشویش ہے لیکن اس تشویش سے بھی بڑی تشویش یہ ہے کہ جب سرکار اخبارات کو اشتہارات دینا بند کرتی ہے تو وہ اُن اخبارات کے قارئین کو اُن معلومات سے محروم کرتی ہے، جن کا اُن تک پہنچنا لازمی ہے۔ یہ بات یہاں قابل ذکر ہے کہ سرکار کی جانب سے جو اشتہارات اجراء کئے جاتے ہیں وہ بنیادی طور ایسی معلومات ہوتی ہیں جن کا لوگوں تک پہنچنا لازمی ہوتا ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ اشتہارات کی پابندی کا فیصلہ اُس وقت لیا جاتا ہے جب پارلیمانی انتخابات کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ الیکشن کمیشن، جو کہ جمہوریت کا ایک اہم ادارہ ہے، کو چاہئے کہ وہ اس اہم مسلے کی جانب توجہ مبذول کرے۔ اگر کمیشن ایسا نہیں کرتا تو وہ اپنے ہی ادارے کو کمزور بنانے کے جرم کا مرتکب ہوگا۔جب جب جمہوریت کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی، ہم نے رپورٹ کیا۔ جب جب انفرادی آزادیوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش کی گئی، ہم نے لکھا۔ جب جب انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں، ہم نے مذمت کی۔ جب جب عدلیہ سے چھیڑ چھیڑ کرنے کی کوشش کی گئی، ہم نے اختلاف کیا۔ جب جب انتظامیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی، ہم نے اپنی رائے کا کھلم کھلا اظہار کیا۔اب ایک نئی حکمت عملی اپنائی گئی ہے اور اگر ایسا ہی چلتا رہا تو اب کی بار اگر سرکار کسی ادارے کو توڑنا چاہے گی تو کوئی نہیں ہوگا جو اس واقعہ کو رپورٹ کرے اور اسے قلمبند کرے۔ حالات و و اقعات ا یسی ہی صورتحال کا عندیہ دے رہے ہیں۔ اس کھیل میں ہم حتمی حدف نہیں۔ صحیح معنوں میں جو حدف ہے وہ ہے اظہار رائے کی آزادی ،جمہوریت۔ اور یہ صرف کشمیر تک محدود نہیں رہے گا۔ کشمیر میں جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ تجرباتی طور کیا جارہا ہے۔ یہ وباء پورے ملک میں پھیل سکتی ہے۔انہی خدشات کے پیش نظر اب کی بار ہم اپنے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ وگرنہ ہم تو ہمیشہ دوسرے اداروں اور افراد کے بارے میں ہی لکھتے آئے ہیں۔