وادی کشمیر میںموسم سرما میں کی خاص پہچان کڑاکے کی ٹھنڈ ہے اورٹھٹھرتی سردی میں لوگ اکثر گھروں میں ہی وقت گزارنا پسند کرتے ہیں۔یہاں چونکہ موسم سرما نومبر کے آخرمیں اپنی دستک سناتا ہے اور مارچ اپریل تک اپنا ڈیرا سنبھالتا ہے ، اس وجہ سے ریاست کا محکمہ تعلیم ونٹر زون میںاوّل جماعت سے ہائر سکنڈری سطح تک کے تمام سرکاری و نجی تعلیمی ادارے ماہ دسمبر کے آغاز میں ہی سرمائی تعطیلات کے لیے کم سے کم تین مہینوں تک بند رہتے ہیں اور طلبہ شدید سردی سے محفوظ رہتے ہوئے گھروں میں ہی پڑھائی لکھائی کرتے ہیں۔سہ ماہی تعطیلات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں تعلیمی اداروں بالخصوص سرکاری تعلیمی اداروں کے بنیادی ڈھانچے میں سہولیات کا کافی فقدان ہے ۔ اسکولی عمارتیں اس حالت میں نہیں جہاں غریب طلبہ سرما میں بھی درس و تدریس کے عمل سے مستفید ہو سکیں۔ایک مسلمہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ تعلیم بچے کے لیے ہے نہ کہ بچہ تعلیم کے لیے، اس لیے بھی محکمہ تعلیم یک بستہ سرما کی سختیوں سے بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے روایتاً اس موسم میں تعطیلات پر جاتے ہیں۔ماضی قریب میں اکثر طلبہ ان تعطیلات کے دوران اساتذہ کے گھر جاکر ٹیوشن پڑھنے جاتے تھے،شہر و دیہات میں نجی کوچنگ سنٹر مشکل سے ہی نظر آتے تھےلیکن زمانے کی گردش سے اب چونکہ سب کچھ بدل چکا ہے،قریہ قریہ اور نگر نگر نجی کوچنگ سینٹرس کی بھرمار ہے ،پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر نجی کوچنگ سینٹرس کے اشتہارات کی دھوم رہتی ہیں۔اکثر وبیش تریہ کوچنگ مراکز طلبہ سے اچھی خاصی ٹیوشن فیس وصول کرکے گویا تجارتی سینٹرس میں بدل چکے گئے ہیں۔ا س وجہ سے ان کے یہاں محکمہ تعلیم کے قواعد و ضوابط کی کھلی خلاف ورزیاں ہوتی رہتی ہیں۔ایک کلاس روم میں حد سے زیادہ طلبہ کا اندراج ہوتا ہے،چونکہ ان کوچنگ سینٹرس کی آمدنی کا سارا انحصار زیادہ سے زیادہ طلبہ کے داخلے پر ہوتا ہے اس لیے وہ اپنے کوچنگ مراکز میں بچوں کے داخلے کی حد مقرر نہیں کرتے ہیںجس کی وجہ سے بچے انفرادی توجہ سے محروم رہتے ہیں۔والدین اور سرپرستوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ ان کے بچے بچیاں بہتر سے بہتر تعلیم پائیں جس کے لیے وہ بہت بھاری ٹیوشن فیس ادا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے ہیںلیکن جب زمینی سطح پر دیکھا جائے ، وہ جس اچھے مقصد کے لیے اتنی بھاری رقم وہ ادا کرتے ہیں کوچنگ سینٹرس کے مالکان کی من مانیوں سے وہ پوری نہیں ہوسکتی ہیں ۔ نتیجتاً بچے انفرادی توجہ یا صحیح تعلیم و تربیت سے محروم رہتے ہیں۔تجربے شواہد ہیں ہے کہ ان کوچنگ سینٹرس میں بچے passive listeners بن کے رہتے ہیں، کلاس روم میں حد سے زیادہ roll ہونے کی وجہ سے اکثر بچے استاد صاحب کا لیکچر صفائی سے سن بھی نہیں پاتے ہیں اور نہ ہی سبجکٹ سے متعلق سوال جواب کر پاتے ہیں۔اتنا ہی نہیں پہلے سے تیار کردہ ریڈی میڈاور فو ٹو سٹیٹ نوٹز کوچنگ مراکز کی بہت ہی نفع بخش تجارت بن گئی ہے۔ انہی نوٹس کو بچوں بچیوںمیں بانٹ دیا جاتا ہے جس سے معصوم بچے لکھنے پڑھنے اور سمجھنے کی محنت سے بچ جاتے ہیں۔ آج کل طلبہ کی ہینڈ رائٹنگ اس بناپرکافی کمزور رہتی ہے۔مزید برآں ٹھٹھرتی سردی میں ان کوچکنگ سینٹرس میں معقول گرمی کا عمومی طور انتظام بھی نہیں ہوتا ہے جس کے لیے محکمہ تعلیم کے کاغذی سرکیولر صرف اخباروںکی زینت بنتے رہتے ہیں۔اتنا ہی نہیں صبح سویرے کڑاکے کی سردی میں طلبہ کوچکنگ مراکز تک پہنچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں،کتنے بھی گرم ملبوسات میں بچے ہوں ، باہر کی ٹھنڈ بہرحال صحت کے لیے تکلیف دہ ہے۔کوچنگ سینٹر ذمہ داروں کو کم سے کم بچوں کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے دس بجے کے بعد ہی درس و تدریس کے اوقات رکھنے چاہیے۔اس ضمن میں محکمہ کے قواعد و ضوابط واضح ہیں۔ضروت اس بات کی ہے ان سرکاری قواعد کی عمل آوری کرائی جائے۔ایک خوش آئند اقدام کے تحت صوبائی کمشنر کی ہدایات اور احکامات کے تحت ایسے نجی کوچکنگ مراکز سربمہر ہوں گے جو سرکار کی طرف سے وضع کردہ قواعد و ضوابط کے معیار پر پورا نہیں اترتے ہیں۔عوامی حلقوں میں ایسے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی بہر حال سراہنا کی جارہی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ نجی کوچنگ مراکز کو سرکار کے وضع کردہ قواعد و ضوابط کا پابند بنایا جائے تاکہ طلبہ صحیح تعلیم و تربیت سے مستفید ہو جائیں ۔
نجی کوچنگ مراکز کی اجارہ داری پر قابو پانے اور غریب طلبہ کی تعلیم و تربیت کو موسم سرما میں بلاخلل جاری رکھنے کے لیے ریاستی سرکار نے گزشتہ کچھ برسوں سے مخصوص سرکاری تعلیمی اداروں میں ونٹر ٹٹوریل کے نام سے سرمائی تعطیلات کے دوران ٹیوشن مراکز قائم کئے جہاں طلبہ وطالبات سے گرمی کی سہولت دستیاب رکھنے کے لیے معمولی فیس وصولی جاتی ہے۔یہ تجربہ کافی حد تک کامیاب رہا اور اس کے کافی حوصلہ بخش نتائج سامنے آئے۔اس بنا پر گزشتہ برس مڈل سطح کے کلاسوںکے لئےونٹر کیمپس نام سے سرکاری سکولوں میں کوچکنگ مراکز قائم ہوئےجس کے لیے ایک زون میں دو سکول منتخب کئے گیے تھے لیکن اس کام میں جن اساتذہ کی خدمات محکمہ تعلیم نے حاصل کی تھیں گزشتہ برس ان اساتذہ کو وعدے کے مطابق کوئی بھی earned رخصتی محکمہ خزانہ میں منظور نہیں کی گئی۔یہ مسئلہ فائل کی صورت میں آج بھی محکمہ تعلیم کی میزوں پر گھوم پھرکرواپس اساتذہ کے ہاتھ میں پہنچتا ہے۔ امسال محکمہ تعلیم کے ذمےداروں نے اس تجربے میں مزید توسیع کرکے زونل سطح پر کم سے کم دس ا سکولوں میں درجہ سوم سے درجہ ہشتم تک کی کلاسوں کے واسطے سرمائی تعطیلات کے دوران مفت ٹیوشن کا انتظام کیا ، اس کے لیے محکمہ تعلیم میں کام کررہے اساتذہ کی خدمات اس وعدے پر حاصل کی جارہی ہیں کہ ان کے سروس بکوں میں earned leave کا اندراج ہوگا۔اس ضمن میں پہلی مرتبہ محکمہ تعلیم کافی متحرک نظر آرہاہے ۔ علاوہ ازیں PARVAAZ تربیتی پروگرام کے RPs کو سپروائزرس تعینات کیا گیا ہے تاکہ غریب طلبہ سرکار کی ان کوششوں سے استفادہ کر سکیں۔ یہ تلخ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں بنیادی ڈھانچہ تسلی بخش نہیں ہے،وادی میں شورش زدہ حالات کی وجہ سے اکثر تعلیمی اداروں کا بنیادی ڈھانچہ کافی ناگفتہ بہ ہے،اکثر اسکولی عمارتوں کی کھڑکیاں اوردروازے خستہ ہوچکے ہیں،کلاسوں کی میٹنگ ( بچھونا)کڑاکے کی سردی میں بچوں کے لیے موزوں نہیں ہے،کم سے کم ہر کوچنگ مرکز میں میٹنگ کے نیچے تھرماکوٹ بچھانا لازمی ہے۔مزید ہر مرکز پر گرمی کا معقول انتظام ہونا چاہیے۔سرکاری تعلیمی اداروں میں سکول فنڈز اتنے مہیا نہیں ہوتے جس کی مدد سے یہ بنیادی ضروریات کم سے کم وقت میں پایہ تکمیل تک پہنچا ئی جاسکیں ،اس لئے محکمہ کے سرابرہان کو چاہیے کہ ان ناگزیر ضرریات کی بروقت دستیابی کے لیے مختص رقومات واگزار کی جائیں تاکہ یہ سرکارکے ٹیوشن مراکز طلبہ کے لیے نفع بخش ثاب ت ہوں ۔ تعلیم چاہیے سرکاری تعلیمی اداروں میں حاصل کی جائے یا نجی اداروں میں، دراصل تعلیم و تربیت کا پورا نظام ہی سیکھنے اور سکھانے کے لیے ہوتا ہے۔سکول یا کوچنگ مراکز تعلیمی ضروریات سے محروم بچوں کے لئے ایک تدریج کے ساتھ وہ سیکھنےسکھانے کے لیے قائم کئے جاتے ہیں جو وہ نہیں جانتے یا جو انہیں لازماً جاننا چاہیے۔لکھنا پڑھنا ، مختلف علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنا ، بہترین عادات و اخلاق اور آداب وغیرہ سیکھنےجیسے کاموںکے لیے ہی سکول یا کوچنگ مراکز قائم ہوتے ہیںلیکن عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ آج کے دور میں جہاں سوشل میڈیا کا دبدبہ قائم ہے ، اکثر طلبہ وطالبات تعلیم کے بجائے ان مراکزمیں دوسری لغو اور لایعنی چیزوں اور خرافات کی طرف راغب ہوتے ہیں۔اس میں تنہا بچوں کا ہی قصور نہیں بلکہ قصور دراصل سیکھنے سکھانے کی ان شرطوں سے انحراف بھی ہے جو تعلیمی اداروں اور کوچنگ مراکز میں بدقسمتی سےپوری نہیں کی جاتیں جو بچوں کی پڑھائی لکھائی کے لیے اشد ضروری ہیں۔والدین یا بچوں کے سرپرستوں کو تعلیمی مراکز سے کافی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں ، خاص کر اس وجہ سے کہ سچ مچ نئی پودکے مسقبل پر تاریکی کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں ، اب والدین کو اُمید کی ٹمٹماتی کرن انہی چراغوں سے پھوٹتی نظر آتی ہے۔اس لئے تعلیمی اداروں کے ذمہ د اران اور نجی کوچنگ مراکز کے مالکان کوتعلیم و تربیت کے مقدس کام کو انجام دینے میں اصلاحی کوششوں سے بے بہرہ نہیں رہنا چاہیے تاکہ تعلیم و تربیت پر صرف ہورہی قوت ، محنت اور دولت ہر فردبشر اور پورے معاشرےکے حق میں اس قدر نفع بخش ثابت ہو کہ ہم سب علم وآگہی کے بل پربہ حیثیت مجموعی معماران ِ قوم بننے کے اہل بن سکیں ۔
…………………..
رابطہ: بوٹینگو – زینہ گیر – سوپور