تاریخہند کے سنہرے اوراق میں سرسید احمد خان کی سیرت ایک مستقل باب کے طور پررقم ہے، آپ کا شمار بیسویں صدی کی ا ن عہد ساز اور نابغہ روزگا شخصیات میںہوتاہے جنہوں نے ہندوستان میں مسلم نشاۃ ثانیہ کی علم بلندکی اورمسلم ملت کوجہالت ، پسماندگی اور فکری جمود کے بحر ظلمات سے نکالنے کیلئے علم وادب کی شمع فروزاں کی اور اسے ایک صالح ، ترقی یافتہ ، مہذب اورمتمدن قوم بنانے کیلئے تعلیم وتربیت کا ایک ایسا نسخہ ٔ کیمیا اورنصب العین پیش کیا جس نے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پورے عالم اسلام کے مسلمانوں کی فکر ونظر کومتاثرکیا۔
سرسید کی پیدائش ۱۸۱۷ء میں دہلی کے مقام پرہوئی ،یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان کے اندر برطانوی سامراجیت پوری طرح خیمہ زن ہوچکی تھی ، مغلیہ سلطنت کا سورج غروب ہوچکا تھا اور اس کی شان وشوکت پت جھڑ کی طرح بکھرچکی تھی،مغلیہ سلطنت کا تاجدار معین الدین اکبر ثانی اگرچہ اس وقت دہلی سلطنت کے تخت پر براجمان تھاتاہم اس کی حیثیت سیلاب کے جھاگ سے زیادہ نہ تھی کہ موج بلا جس طرح چاہتی اس کا رخ پھیردیتی ،اکبرثانی کے بعدمغلوں کا آخری جانشین اور چشم وچراغ بہادر شاہ ظفر تخت نشین ہوا ، تاہم فرنگیوں کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میںاسے تخت سے محروم ہوناپڑا،حکومت سے اس کی برطرفی کے ساتھ ہی اس عظیم الشان سلطنت کا چراغ ہمیشہ کیلئے گل ہوگیا جو کبھی اپنی قوت اور وسعت میں ضرب المثل ہوا کرتی تھی، مغلیہ سلطنت کے خاتمہ کی ضرب پورے ہندوستان پر پڑی ،مسلمانوں کو اس سے ناقابل تلافی نقصان پہنچاکیونکہ اس عظیم سانحہ کے ساتھ ہی ہندوستان میں مسلمانوںکے اقتدار کی آٹھ سوسالہ طویل تاریخ کا باب اپنے نکتۂ انجام کوپہنچ گیا اور پھر کبھی اس پرشکوہ تاریخ کا اعادہ نہ ہوسکا، مغلوں کے بعد انگریزوں نے ہندوستان کی باگ ڈور سنبھالی، انہوں نے اپنی سیاسی بالادستی کو مستحکم کرنے کیلئے ہرطرح کے ہتھکنڈے اور داؤپیچ آزمائے ،برصغیر کے مسلمانو ں کو انہوں نے بطورخاص نشانہ بنایا،ان پر بے پناہ مظالم ڈھائے ، یہاں تک کہ ان کی جائیدادیں ضبط کی اورروزگارکے تما م دروازے ان کے لئے مقفل کردئے ،علاوہ ازیں مسلم اکابرین کی نقل وحرکت اور سرگرمیوں پر قدغنیںلگائیںاور مسلم معاشرے سے ان کے اثرورسوخ کو زائل کرنے کیلئے ان کی عزت وناموس کو پامال کیا۔
سرسید احمد خان نے ان پر آشوب حالات کے اندر آنکھیں کھولی،انہوں نے ہندوستان میں برطانوی سامراجیت کی یلغاراور مسلمانوں کی پستی کا بغورمشاہدہ کیااور ان اسباب و عوامل کا جائزہ لیا جنہوں نے ہندوستان کے اندر برطانوی استعماریت کو تقویت دینے میں کلیدی رول نبھایاہیں،1857کی پہلی جنگ آزادی کا تاریخی واقعہ بھی اس دور کی یادگارہے جس میں انگریزوں کے خلاف ہندومسلم مشترکہ محاذ کوناکامی ہوئی اوردونوں طبقوں کے حالات پہلے سے اور زیادہ کشیدہ ہوگئے،ملک کے اندر پیدہ شدہ فکری بحران ، سیاسی مغلوبیت اور اخلاقی زوال نے انہیں جھنجھوڑ کے رکھ دیااور اس مفلوک الحال اورمظلوم ملت کی ترقی ، خوشحالی اوراور سربلندی کی فکر انہیں دامن گیر ہوگئی،وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مسلمانوں کی ترقی اور عروج کا خواب تعلیم کے بغیر شرمندہ تعبیرنہیں ہوسکتااور مسلمان جب تک علم جدید کے میدان میں آگے نہیں بڑھتے تب تک انکے حقوق کے بازیافت اوران کے مسائل کا سدباب نہیں ہوسکتا۔
سرسید احمد خان نے تعمیر ملت کے ا ن بے لوث جذبات کے تحت 1859 میںمرادآباداور1862 میں غازی پورکے اندرکئی تعلیمی مراکزکی داغ بیل ڈالی جہاںفارسی کے علاوہ انگریزی زبان اور جدید علوم کو پڑھانے کا رواج دیا، وہ اس نقطہ ٔ نظر کے قائل تھے کہ مغربی اقوام علم جدید کے میدان میں مسلمانوں پر سبقت لینے کے باعث ان سے کافی آگے نکل چکے ہیںاور مسلسل ترقی کے منازل طے کررہے ہیں، انہوں نے مسلمانوں کو حصول علم کیلئے متحرک کیا،ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کوجگایا اورانہیں اپنی کھوئی ہوئی میراث سے ہم آہنگ کیا، مسلمانوں کو مغربی تعلیم سے بہرہ ورکرنے اوران میں سائنسی علوم کی تخم ریزی کرنے کیلئے غازی پورکے مقام پر1863 میں ایک دار الترجمہ کا قیام عمل میں لایا جوکہ سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے موسوم ہوا،جہاں مغربی کتب خصوصاًریاضی اور سائنس کے موضوعات پرنادر کتب کے تراجم ہوتے تھے اور مسلم تعلیمی اداروں میں ان کی مشایعت ہوتی تھی،سرسید کا یہ علمی کارنامہ عباسی خلیفہ مامون الرشید کے دارالحکمت کی یادتازہ کرتا ہے جوکہ بغداد کے اندر فارسی ، ہندی اور یونانی کتابوں کے ترجمہ وتدوین کاسب سے بڑا مرکز تھا اور علم ودانش کا ایک روشن منارہ شمارہوتاتھا،سائنٹفک سوسائٹی نے مغربی کتب کاایک عظیم سرمایہ اردو زبان میں منتقل کیا اور اس کی بدولت اردو زبان میں بے پناہ ترقی ہوئی ۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے 1857 کی پہلی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان میں لسانی اختلافا ت نے جنم لیااور ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان ہندی اردو کے تحفظات کامسئلہ پیداہوگیا ، اردو زبان چونکہ مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار تھی اورہندوستان کے گوشے گوشے میں مقبولیت حاصل کرچکی تھی ،لہٰذا ہندوں نے اس کی ببانگ دہل خلاف ورزی شروع کی اور اس کی جگہ ہندی زبان کو رواج دینے پر زوردیا ، ہندواکابرین نے حکومت وقت سے یہ مطالبہ کیاکہ سرکاری دفاتراور عدالتوں میں اردو اور فارسی کو یکسر ختم کرکے ان کی جگہ ہندی کو سرکاری زبا ن کے طور پر رائج کیا جائے ،سرسید احمد خان اوردیگر مسلم رہنماوں نے اردو زبان کے تئیں ہندوں کے تعصب کو بھانپ لیا، لہٰذا انہوں نے اردو کے تحفظ کی علم بلندکی ، اس کے نتیجہ میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا جس نے اردو کی ناقابل فراموش خدمات انجام دی اوراس کی ترویج واشاعت میں غیر معمولی کردار نبھایا۔
سرسید احمد خان ملی حمیت کے پیکر تھے ، دینی غیرت اور حسن سیرت کے مثالی نمونہ تھے ،تعمیر ملت اور اصلاح امت کا جذبہ ان کے اندر بدرجہ کامل موجزن تھا، مسلمانوں کی پستی اورزوال کو دیکھ کرانکاد ل تڑپتا اوران کی روح کانپ اٹھتی ، وہ ایک ایسا ہندوستان چاہتے تھے جہاں مسلمانوں کو عزت ووقار کی زندگی نصیب ہو اورجہاں وہ معاشی ، تہذیبی اور فکری اعتبارسے مہذب اقوام کی طرح جی سکے، انہوں نے 1859 میں جب اپنے فرزند سید محمود کے ہمراہ انگلستان کا دور ہ کیاتوانگلستان کی ہر چیز نے انھیں متاثرکیا،انہوںنے اہل مغرب کے نظام تعلیم کا مشاہدہ کیا، وہاں کے شہرہ آفاق تعلیمی اداروںآکسفورڈ اورکیمبرج کا دورہ کیا،ان کے نصاب تعلیم کا جائزہ لیااور وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یورپ کی ساری ترقی اورخوشحالی تعلیم کی مرہون ہے ،انگلستان سے اپنی روانگی کے بعدانہوں نے اپنے تاثرات جن الفاظ کے ساتھ رقم کئے وہ ان کے اخلاص ، بلند نظری اور مسلم امت کے تئیںبے لوث جزبہ کی غمازی کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں: میں نے یور پ میں بہت کچھ دیکھا جودیکھنے کے لائق تھا ، میں نے جب کبھی کوئی عمدہ چیزدیکھی ، جب کبھی عالموں اور مہذب لوگوں کو دیکھا،جب کبھی علمی مجلسیں دیکھیں ، جہاں کہیں عمدہ مکانات دیکھے ، جب کبھی عمدہ پھول دیکھے،جب کبھی کھیل کود ، عیش وآرام کے جلسے دیکھے ، یہاں تک کہ جب کبھی کسی خوب صورت شخص کو دیکھا مجھ کو ہمیشہ اپنا ملک ا ور اپنی قوم یاد آئی اورنہایت رنج ہوا کہ ہائے ہماری قوم ایسی کیوں نہیں''۔
سرسید احمد خان کا سب سے بڑ ا علمی کارنامہ علی گڑہ مسلم یو نیورسٹی کی تاسیس ہے جسکا قیام 1875ء میں عمل میں آیا، پہلی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں کی سیاسی بالادستی میں اضافہ ہواتوانہوں نے مسلمانوں پر اپنا شکنجہ کسنا شروع کیا، انہیں بغاوت کامحرک اور ذمہ دار قراردیا اوراسکی پاداش میں ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اوران پر روزگار اور معیشت کے وسائل تنگ کردئے ، انگریزوں کے اس انسانیت سوز رویہ کے نتیجہ میں مسلمانوں کامعاشرتی نظام خس وخاشاک کی طرح بکھر گیا اورمعاشی اعتبارسے انکی حالت پہلے سے اور زیادہ ابتر ہوگئی، مسلمانوں نے ردعمل کے طورپر انگریزوں کی ببانگ دہل خلاف ورزی شروع کی ، مغربی علوم اور انگریزی تعلیم کو سیکھنا ترک کردیا اوران کی زبان تہذیب وثقافت کو جہالت اور گمراہی سے تعبیر کرنے لگے جس کے نتیجہ میں دونوں کے درمیان اختلاف اور شکوک وشبہات کی وسیع خلیج پیداہوگئی ، ان نامساعد حالات میں سرسید احمد خان نے محسوس کیا کہ جب تک مسلمان تعلیم کے میدان میں قدم رنجہ نہیں ہوتے ، انگریزی زبان اور جدید علوم سے روشناس نہیں ہوتے تب تک نہ انگریزوں کے تئیں ان کے رحجان میں تبدیلی ممکن ہے اور نہ ان کی معاشی حالت میں بہتری کاامکان ہے، چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کو حصول علم پر مہمیز دلائی اور1875میںمحمڈن اینگلواورینٹل کالج کے نام سے ایک علمی ادارے کی بنیاڈ الی جسے آگے چل کر علی گڑہ مسلم یونیورسٹی کے نام سے مقبولیت حاصل ہوگئی،ریاست بھوپال کی فرماںروا نواب سلطان جہاں بیگم یونیورسٹی کی پہلی چانسلر اور علی محمد خان پہلے وائس چانسلر مقرر کئے گئے، یونیورسٹی کا دائرہ بتدریج وسیع ہوتاچلا گیا اور اس میں دینیات ، ادبیات، لسانیات،معاشیات، سائنس، طب اور جدیدعلوم کے مستقل شعبہ جات قائم کئے گئے ،اور یونیورسٹی نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون دنیاکے اندر شہر ہ آفاق بن گئی ، سرسید کی اس علم پروری اورقوم وملت کے تئیں اخلاص سے متاثر ہوکر برصغیر کے اندرمختلف تعلیمی سرگرمیوں کا آغازہوااورمختلف دانش گاہوں کا قیام عمل میں آیا ان میں اسلامیہ کالج ( لاہور) ،حلیم کالج ( کانپور)، مدرسہ المسلمین (کراچی)،اسلامیہ کالج ( پشاور)کے علاوہ متعدد مدارس اور علمی گہوارے شامل ہیں۔
سرسید نے جہاںمسلمانان ہندکیلئے حصول علم کی راہ ہموارکی وہیں انہیں مذہب اور علم دین سے پیوست رہنے کی تلقین کی اورحسن بصیرت کے ساتھ حسن کردار پیداکرنے کا پابند بنایا، ایک موقعہ پر علی گڑہ طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے وہ اپنے نصب العین کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں :اگرتم اپنے دین پر قائم نہ رہے، اورسب کچھ ہوگئے اورآسمان کے تارے ہوکر چمکے توکیاہوا، تم ہم میں سے نہ رہے، میں چاہتا ہوں کہ تمہارے ایک ہاتھ میں قرآن ہو، دوسرے میں علوم جدیدہ اور سرپرلاالاہ الااﷲ کا تاج ہو'' ،سرسید اس بات کے قائل تھے کہ اسلام دین فطرت ہے اور عقل اور سائنس میں باہم کوئی تضاد نہیں بلکہ یہ دونوں آپس میں ہم آہنگ ہیں، ان سے قبل شاہ ولی اﷲ دہلوی ؒنے اس نظریہ کا علم بلند کیا اوردلائل کی روشنی میں اس دعوے کا اثبا ت کیا،سرسید نے دین کی عقلی تعبیرپیش کرکے مذہب اور سائنس میں موافقت پیدا کرنے کی کوشش کی تاہم اس کوشش میں وہ متعدد مقاما ت پر انحراف اور تجاوزات کے شکارہوگئے جس کے سبب وقت کے علماء نے ان سے شدید اختلاف کرکے ان کے نظریات کو متروک اور ناقابل عمل قراردیا، بہرحال ان سب اختلافات سے تعرض کرکے یہ تسلیم کرناپڑے گاکہ سرسید ایک عظیم مصلح ، مفکر اورمجدد تھے جنہوں نے مسلمانان ہند کی اصلاح وترقی کیلئے اپنی زندگی وقف کی اور انہیںترقی کی راہ پر ڈالنے کیلئے کارہائے روشن ا نجام دئے ۔
سرسید جامع صفات وکمالات کے مالک تھے ، وہ گفتاروکردار کے غازی اورتقریروتحریرکے شہسوار تھے،تصنیف و تالیف کے میدان میں انھیں ملکہ حاصل تھا اور زبان وادب پر گہری نگاہ رکھتے تھے،دینیات سے انہیں خاص لگاؤ تھا اور تاریخ نویسی ان کاطمح نظرتھا،آپ نے قیام دہلی کے دوران دہلی کی تاریخی عمارتوں اور شخصیات پر'' آثارالصنادید ''کے نام سے خزانہ معلومات سے معمور کتاب تحریرکی جوکہ تاریخ کے موضوع پر موصوف کی وسعت علمی اورمعلومات بیکراںسے عبار ت ہے، آپ کی دیگر تصانیف میں خطبات احمدیہ، الکلام، سفرنامہ لندن، تاریخ بجنورخاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
سرسید نے اردوزبا ن وادب کے فروغ وارتقاء میں نہایت اہم کردارنبھایا، انہوں نے ادب کی مقصدیت و افادیت پر زوردیااور اپنے دلکش اور رواں اسلوب کے ذریعے اردومیں علمی نثر کی بنیادڈالی، انہوں نے اپنے مضامین سے سوتوں کو جگایا اوران میں امنگ اور عزیمت کی روح پھونکی، آپ نے 24 دسمبر 1870 میں’’ تہذیب الاخلاق‘‘ کے نام سے ایک علمی رسالے کا اجراء کیااور اس میں اپنے وقیع نظریات رقم کرکے معاشرے کی رگ وریشہ میں سرایت کرنے والے امراض مہلک کا تریاق اور اکیسر پیش کیا۔سرسید احمد خان کاروان ملت کے وہ عظیم سالار تھے جنہوں نے جہالت اور پستی کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں علم وحکمت کی قندیلیں روشن کی ،انہوں نے احیاء دین کا پرچم بلندکیااورمسلمانوں کو ایک منفرد قوم کی حیثیت سے پیش کرکے حضرت مجددالدین الف ثانی اور شاہ ولی اﷲ کے افکار کو آگے بڑھایا،وہ ملی غیرت کے پیکر اور علمی بصیرت کے مجسم تھے جنہوںنے مسلمانان ہند کی روحوں کو جگایااورانھیں اپنا کھویا ہوا مقام اورتشخص یاددلایا،نور الحسن نقوی کے الفاظ میں : انہوں نے بے عملوں کو جدوجہد پر آمادہ کیا، گوشہ نشینوں کو کھلی فضامیں سانس لینا سکھایا، ماضی کے پرستاروں کو حال کی اہمیت پیداکرنے کی تلقین کی ،مشرق کے پجاریوں کو مغرب کی خوبیوں سے روشناس کیا، تقلید پرستوں کو اجتہاد کی اہمیت سے واقف کرایا ، دنیاکو بے حقیقت سمجھنے والوں کو دنیا میں نیکی کمانے اور آخرت کیلئے توشہ جمع کرنے کاراستہ دکھایا،غرض انہوں نے سوتوں کو جگایا، مردہ دلوں میں جان ڈالی اور ہندوستانی مسلمانوں کو زندہ قوموں کی طرح زندگی گزارنے اور سربلند ہوکرجینے کا سلیقہ سکھایا'' ۔
نوٹ : مضمون نگاراسسٹنٹ پروفیسرعربک،
گورنمنٹ ڈگری کالج اسلام آباد ( اننت ناگ)کشمیر ہیں