انتخابی سیاست اور جنگ جیسی پُر خطر فضا میں ایک سیاسی تجزیہ نگار کیلئے حالات کو حقیقت کے آس پاس پیش بھی کرنا مشکل ترین کام ہے، اُس وقت جب کہ ہرتجزیے یا قدم کو حب الوطنی اور قوم پرستی کے پیمانے پر تولا جائے۔اگر یہ دونوں کسوٹیاں ہوںتو پھر غیر جانب دارانہ نتائج کی امید معدوم ہو نا فطری امر ہے۔اس کے علاوہ جب ہر پل حادثہ میں تبدیل ہوا چاہتا ہو،اُس وقت بھی قیاس آرائی کی عمر بہت مختصر ہو جاتی ہے۔ان چار پانچ دنوں میں ایک باشعور شہری جن ہیجابی کیفیات سے گزرتا جارہا ہے، اس کاا ندازہ لگانے کیلئے میڈیکل کے پاس شاید ہی کوئی آلۂ تشخیص موجودہو۔چینلوںکو تو جانے دیجئے جب دوسری صبح وہ اپنا محبوب اخبار دیکھتا ہے، اُس وقت بھی وہ مایوس ہوئے بغیرنہیں رہ پاتا کہ اخبار والوں کو بھی یہ کیا ہوگیا کہ سب کے سب ایک ہی رنگ میں رنگ ہوئے ہیں۔اپنے دماغ پر جب وہ زور ڈالتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ جتنی خبریں نشر ہو رہی ہیں یا چھپ رہی ہیں، ان کا منبع وماخذایک ہی ہے۔اسی لئے ان دنوں میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون ہوتے ہوئے بھی جمہوریت کو ڈھانے پر مائل بہ کرم نظر آرہا ہے۔یہ ہمارے ملک ہی کی بات نہیں ہے بلکہ پارکا میڈیا بھی کم و بیش یہی انہونا کردار ادا کر رہا ہے۔ایک ہی حادثے کو دو طرح سے سن کر اور ا سکی متضاد تصویریں دیکھ کر ایک عام باشعور شہری خاصے تذبذب کا شکار ہوتاہے۔چونکہ سچ جاننا ایک فطری عمل ہے تو وہ تیسرے میڈیا کی جانب نظر دوڑاتا ہے یہ سوچ کر کہ کم از کم وہ غیر جانب دار ہوگا۔تیسرے میڈیا سے یہاں مراد دونوں ملکوں کے باہر کے چینل اور اخبارات وغیرہ ہیں نہ کہ سوشل میڈیا۔
بہر کیف پلوامہ حملے کے رد عمل میں مودی حکومت نے پاکستان کی سرزمین بالاکوٹ میں اپنے لڑاکا جہازوں کے ذریعے جیش ملی ٹنوں پر بم برسائے اور جیش کے کیمپ کو مبینہ صفحۂ ہستی سے مٹا دیا ۔ ہندوستانی میڈیا کا یہ دعویٰ ہے کہ اس اچانک حملے میں جیش کے ۳۵۰؍ملی ٹنٹ مار ے گئے۔یہ کارروائی ۶۲؍ فروری کو صبح سویرے یعنی ۳؍بجے کوگئی اورسرکاری طور بتا یا گیا کہ تمام جنگی طیارے بغیر کسی خراش کے واپس آگئے۔صبح سے ہی چینلوں پریہ سنسنی خیز خبر بطور سرخی پیش کی گئی ۔ وزیر اعظم ہند نریندرمودی اس سرجیکل اسٹرائیک دوم سے اتنا متاثر ہوئے کہ راجستھان کے چورو میں اپنی انتخابی ریلی کے دوران اپنی پیٹھ تھپتھپائی اورانڈین ائرفورس کوشاباشی دی۔ساتھ ہی بر سر موقع کانگریس کو کوسنے سے بھی باز نہ رہے ۔ اس موقع پر ملک کو ایک اور نعرہ سننے کو ملاکہ ’’مودی ہے تو ممکن ہے‘‘ یعنی دوسروں کے ہوتے ہوئے یہ ناممکن ہے۔پلوامہ کے خودکش حملے میں ۴۹؍ سی آر پی ایف کے جوان کام آئے تھے ، ا ور اس کے ۱۲؍روز بعد بالاکوٹ ( خیبر پختونخواہ ) میں کی گئی فضائی کارروائی کا خوب جشن منایا گیا اور حسب ِسابق اس الیکشن ریلی میں ’’مودی مودی‘‘ کے نعرے پھر سے کونج کرفضا میں ارتعاش پیداکر گئے۔قابل ذکر ہے کہ پلوامہ سے پہلے مودی ریلیوں کی حالت یہ نہ تھی۔
دوسرے ہی دن پاکستانی فضائیہ کی کاروائی سے دفعتاًیہ فضا بدل گئی کیونکہ ہماراایک مگ۔ا۲ طیارہ پارگر کر ملبہ بن گیا بلکہ پاکستان کے قبضے میں ہمارا ایک فوجی پائلٹ ونگ کمانڈرابھی نندن چلا گیا۔ہمارا پائلٹ اُن کے قبضے میں یوں ہی نہیں چلا بلکہ یہ جوابی کارروائی کا نتیجہ تھا ۔اس وقعہ سے ملکی مزاج میں قدرتی طور اُلٹ پھیرہوا۔کسی نے یہ سوچا بھی نہ تھا کہ ایسا بھی ہو جائے گا لیکن ایسا ہوا اور دنیا نے یہ ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ پاکستان کو یہ اعتراف ہے کہ14؍ فروری کو ایل او سی عبور کر تے ہوئے بھارتی جنگی جہاز اس کی سرزمین پر آئے اور گولے بھی برسائے لیکن اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا بلکہ بالاکوٹ کے ایک جنگل میں کچھ درختوں اور ایک کوے کا نقصان ہوا۔ اس کے ردعمل میں اسلام آباد نے صاف کیا کہ وہ بھی کچھ کر دکھائے گا اور اپنی طاقت کا جلد ہی مظاہرہ کرے گا۔اگلے ہی ن پاکستان کی سرزمین پر ہمارا مگ طیارہ جا گرا اور اس کا پائیلٹ ونگ کمانڈر پکڑا گیا۔پاکستان کہتا ہے کہ ہم نے مار گرایا ، ہمارا میڈیا کہتا ہے کہ یہ گِر گیا۔ظاہر ہے کہ ہمیں اپنے میڈیا کا کہنا ہی ماننا پڑے گا۔
یہ بات ضرور ہوئی کہ ابھی نندن کے ویڈیو سوشل میڈیا پر دھڑادھڑا آنے لگے اور ہندوستانی حکومت نے کچھ توقف کے بعد قبول بھی کر لیا کہ اس کا پائلٹ دشمن ملک کی تحویل میں ہے۔اس دن سے مودی جی کا انداز گفتار بدل گیا لیکن بعض چنلیں اُن کے حق اب شدومد سے لڑ رہی ہیں۔ایک ٹی وی چینل نے سروے دکھانا شروع کیا کہ جو ہوائی حملہ ہندوستان نے پاکستان پر کیا ، اس کاکریڈٹ کس کو جاتا ہے؟جواب میں ۴۴؍فیصدی مودی جی کو،۴۰؍فیصدی ائر فورس کو،۱۵؍فیصدی فوج کو اور ۱یک فیصدی من موہن سنگھ کو۔اس سروے سے چینل یہ بتلانا چاہتا ہے کہ جنگی معاملات میں من موہن سنگھ کی کوئی حیثیت نہیں تھی اور مودی جی جس طرح سے اقدام کر سکتے ہیں، وہ من موہن سنگھ کے بس کا روگ نہ تھا۔اُن کے پاس وہ قوتِ فیصلہ نہیں جو مودی جی کے پاس ہے وغیرہ وغیرہ۔خیر وزیراعظم پاکستان عمران خان نے گرفتار شدہ پائلٹ ابھی نندن کو دوہی دن میں ہندوستان کے حوالے کر کے جو اچھی نظیر پیش کی ہے،دنیا بھر میں امن مساعی کے طور اس کا خیر مقدم کیا گیا ۔ یہاں ہندوستان میں بھی باشعور افراد نے امن کے اس سندیسے پرسابق کر کٹرکی پیٹھ تھپتھپائی۔پاکستان چاہتا تھا کہ ابھی نندن کو دوپہر کے اُجالے میں ہندوستان کو پیش کرے اور واہگہ بارڈر پر مشترکہ پریڈ کے ساتھ واپسی کا یہ عمل اختتام پذیرہو لیکن اخباروں کی مانیں تو پاکستان کی طرف سے ہی اس بارے میں دیری کی گئی کیونکہ وہ ابھی نندن کا ویڈیو بنا رہے تھے۔آج کے دور میں یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک دو منٹ کا ویڈیو بنانے کیلئے کوئی پہروں مشغولر ہے۔ظاہر ہے کہ ایسے ویڈیو بنانے نہ کسی اسٹوڈیو کی ضرورت ہوتی ہے، نہ پروڈیوسر کی اورنہ فائنانسر کی،البتہ اسکرپٹ کی اشد ضرورت سے انکار نہیں۔عموماً ۵؍بجے شام میں واہگہ بارڈر بند کر دیا جاتا ہے اور اس سے پہلے روزانہ ہی پریڈ ہوتی ہے۔اس کے بعد کوئی بھی آ جا نہیں سکتا ،خواہ اس کے پاس ضروری کاغذات ہی کیوں نہ ہوں،لیکن ابھی نندن کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔پاکستان نے وقت پراپنی پریڈ کی اور رات کے اندھیرے میں ابھی نندن کو ہمارے حکام کے ہاتھ سونپ دیا۔ونگ کمانڈر نے اپنے ملکی میڈیا سے یہ سطور لکھنے تک کچھ بھی نہیں کہا ہے اور باور یہی کیا جاتاہے کہ معاملہ حسا س ہونے کے سبب آگے بھی ان کی زبانی کچھ سننے کو نہ ملے گا۔اگر ملے گا بھی تو وہ سرکاری بیان ہی ہوگا۔اس لئے ہمیں یہ مان لیانا چاہئے کہ اس موضوع پر میڈیا کو وہی کہنا ہے جو بر سر اقتدار پارٹی اس سے کہلوا نا چا ہے۔
ابھی نندن کو عمران خان کے ذریعے ہندوستان کو سونپے جانے کی جو پوری دنیا ستائش کر رہی ہے، وہیں پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پاس ہوئی ہے کہ عمران خان کو اس کام کی بابت امن کا نوبیل انعام سے نوازا جائے۔وہ انعام انہیں ملے یا نہ ملے وہ الگ بات ہے ، تاہم عمران یقیناًابھی نندن ، اُن کے گھر والوں اور باشعور ہندوستانی عوام کیلئے امن پیغام کے حوالے سے ایک اچھی اور صحت مند یاد قلب وذہن میں نقش کر چکے ہیں۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عمران خان اس کاز کو آگے بڑھاتے ہوئے ملک میں انتہا پسندی کا قلع قمع کریں جس کی اس وقت شروعات کی جا چکی ہے۔ اسلام کو فروغ دینے کے لئے پہلی اور آخری شرط اچھے ا عمال ہیں۔اس سے دنیا مسلمانوں کو اچھی ملت تسلیم کر تی رہی ہے ۔ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کو عوامی جذبات کے طوفان کو روکنا چاہیے ، خاص کر انڈیا میں قومی انتخابات کے بعد دونوں طرف سے بحالیٔ اعتماد کے ایسے کارگر اقدامات کر نے چاہیے جو ڈائیلاگ میں آئے ڈیڈلاک کو ختم کر نے میں ممد ومعاون ثابت ہوں ۔
پس نوشت:
آرگنا ئزیشن آف اسلامک کوآپریشن(او آئی سی) میں ہماری شمولیت ایک بہت بڑی کامیابی تھی جو مودی جی سے ہی موسوم تھی لیکن او آئی سی نے کشمیر کے تعلق سے جو تیز طرار قرارداد پیش کی ہے اور ہمیں’’ انڈین ٹیرارزم‘‘ جیسی اصطلاح سے نوازا ہے،اس سے اچھا ہوتا کہ ہم وہاں جاتے ہی نہیں ۔مودی جی نے کشمیرکے مسئلے کو عالمی پیمانے پرمشتہر کر دیا ہے جس سے یقیناًکشمیر کو ہی فائدہ ہوگا۔کیاکشمیر کے فائدے میں ہندوستان کا فائدہ بھی مضمر ہے ، یہ سوچنے کا مقام ہے۔اسی طرح آئی سی سی یعنی انٹرنیشنل کرکٹ کنٹرول بورڈ نے بھی ہندوستانی مطالبے کو مسترد کر دیا ہے کہ پاکستان کو ورلڈ کپ کرکٹ میچ میں کھیلنے نہیں دیا جائے یا کم از کم ہند پاک میچ کو منسوخ کیا جائے۔اس کے علاوہ بالا کوٹ میں ہلاکتوں کی تعداد پر حکومت، فوج اور میڈیا میں ٹھن گئی ہے اور تینوں شعبے اپنے اپنے حساب سے بیانات دے رہے ہیں۔اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تذبذب اور chaosکس حد تک بڑھا ہے؟کہا جاتا ہے کہ بندوق سے نکلی ہوئی گولی اور منہ سے نکلی ہوئی بولی واپس نہیں آ تی لیکن ہندوستانی میڈیا نکلی ہوئی بولی کو بھی واپس لانے کا ہنر جانتا ہے۔دیکھتے رہئے،آگے ابھی بہت کچھ باقی ہے!
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ، نئی ممبئی کے مدیر ہیں رابطہ9833999883)