عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر//غلام نبی ڈار، سرینگر کے ایک 72 سالہ ماہر کاریگر، جنہیں لکڑی کی تراش خراش میں ان کی شراکت کے لیے پدم شری سے نوازا گیا ہے، محسوس کرتے ہیں کہ روایتی فنون کو محفوظ رکھنے کے لیے حکومت کی مدد بہت ضروری ہے۔چھ دہائیوں سے زائد عرصے تک اپنے فن کے لیے ان کی غیر متزلزل لگن سے انہیںبے شمار تعریفیں حاصل ہوئیں جس کا اختتام ملک کے 75ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر اعلان کردہ اس قومی شناخت پر ہوا۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ڈار کو یہ ایوارڈ کشمیر کی تاریخ میں موجود ہنر کے احیاء کی بحالی کے طور پر کام کرے گا ۔
مشکلات میں پیدا ہونے والے ڈار کا تعارف چھوٹی عمر میں ہی لکڑی کے نقش و نگار سے ہوا تھا۔ کاریگروں کی طرف سے ابتدائی طور پر مسترد کیے جانے کے باوجود آخر کار اس کی استقامت نے اسے ایک سرپرست نورالدین ٹکو تک پہنچایا، جس نے کاغذ پر پیچیدہ ڈیزائن کے ذریعے اپنا علم فراہم کیا۔پائین شہر کے سیکہ ڈافرعلاقے کے رہایشی غلام نبی ڈارنے بتایا’’میں 10 سال کا تھا جب میرے والد کو اپنے کاروبار میں نقصان ہوا اور وہ ٹوٹ گئے۔ چونکہ وہ فیس ادا نہیں کر سکتے تھے، اس لیے مجھے سکول سے نکال دیا گیا۔ میرے ماموں مجھے اور میرے چھوٹے بھائی کو سرائے صفاکدل میں لکڑی کے نقش و نگار کے یونٹ میں لے گئے تا کہ ہم ہنر سیکھ سکیں‘‘۔انہوں نے کہا ’’اگرچہ ماسٹر کاریگرنے پانچ سالوں کے دوران زیادہ کچھ نہیں سیکھا، تاہم وہاں رہتے مجھے فن میں دلچسپی پیدا ہوئی۔انہوں نے کہا ’’مجھے اس فن کو سیکھنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، میں کئی کاریگروں کے پاس گیا لیکن انہوں نے مجھے یہ کہہ کر پھیر دیا کہ میں نہیں سیکھ سکوں گا، لیکن میں نے عزم کیا اور سخت محنت کی‘‘۔ڈار نے کہا ’’میرے استادپرفالج کا حملہ ہوا اور اس کا دایاں ہاتھ مفلوج ہو گیا تھا۔ جب اس نے میری کہانی سنی تو اس نے کہا کہ وہ مجھے اب بھی کاغذ پر بنائے گئے ڈیزائن کے ذریعے سکھائیں گے۔ میں نے ان کی ہدایات پر عمل کیا اور اس نے مجھے یہ فن سکھایا۔ڈار کی فنکارانہ صلاحیت اس وقت پروان چڑھی جب وہ روایتی ڈیزائنوں سے ہٹ کر فطرت سے متاثر ہوکر اپنے منفرد کام تخلیق کرنے لگے۔ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف اس وقت ہوا جب انہیں 1984 میں ریاستی ایوارڈ ملا، اور بعد میں 1990 کی دہائی کے اوائل میں بغداد میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کی کاریگری اس وقت نئی بلندیوں پر پہنچی جب انہیں 1995-96 میںقومی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ڈار نے روایتی فنون کے تحفظ میں حکومتی تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے لکڑی کی تراش خراش کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے نوجوان کاریگروں کی تربیت اور حوصلہ افزائی کے لیے ایک جامع ادارہ یا ورکشاپ کے قیام پر زور دیا۔