بٹ شبیر احمد۔ شوپیان
جیسے ہمارے یہاں شادیوں کا سیزن لگ جاتا ہے، ویسے امسال کے آغاز سے ہی ریٹائیرمنٹ کا سیزن جیسے شروع ہوگیا ہے ۔ بہت سارے ملازمین اپنی سبکدوشی کی عمر تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان میں سے اکثر اپنے ڈی ۔او ۔بی کو لے کر ہاتھ مل رہے ہیں کہ کاش ہمارے والدین نے بھی ہمارا اندراج کرتے وقت لاپرواہی کا مظاہرہ نہیں کیا ہوتا اور صحیح اندراج کرایا ہوتا ۔جی ہاں! بہت سارے ملازمین ایسے ہیں جو ستاون ۔اٹھاون کے ہوتے ہوئے ہی غلط ڈی ۔او۔بی اندراج کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی سبکدوش ہوجاتے ہیں، اور کئی حضرات ایسے ہیں جو 65 سال کے ہوتے بھی سبکدوش نہیں ہوتے ہیں، کیونکہ انہیں ابھی بھی دو ڈھائی برس کام کرنا ہے ۔خیر یہ تو اپنی اپنی قسمت ہے کہ جن کو تین سال بعد سبکدوش ہونا تھا ،وہ ابھی ہوگئے اور جن کو ابھی ہونا تھا یا کب کے ہو چکے ہوتے، وہ ابھی بھی نہیں ہو رہے ہیں ۔ کئی لوگ روتے روتے اور کئی لوگ ہنستے ہنستے الوداع کہہ دیتے ہیں ۔ کسی کو جاتے جاتے یہ فکر ستاتی ہے کہ اب نہ وہ بالائی آمدنی آئے گی اوراب نہ وہ آو بھگت ہوگی ،اور نہ ہی اب ماتحت عملہ اور سائیلان ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہونگے ۔ اب مفت میں دودھ،روٹی،سبزی اور پھل بھی گھر نہیں پہنچیں گے ۔اب ہر چیز ،جگہ سے اپنے پیسے سے خریدنی ہونگی۔جبکہ کوئی کوئی ملازم اس لئے رنجیدہ ہوتا ہے کہ اب وہ عام لوگوں کی اتنی راحت اور خوشی نہیں دے سکے گا، جتنی وہ اپنی ملازمت کے دوران انہیں دے سکتا تھا ۔کوئی غریب ملازم سبکدوشی کے وقت اس لئے روتا ہے کہ اب گھر کی ضرورتیں پنشن کی رقم سے کیسی پوری ہوں گی؟ کسی کے بچے اور بچیاں بالغ ہوگئے ہیں اوربےکارو بےروزگار ہیں، اُن کی شادی کا خرچہ کہاں سے پورا ہوگا ۔ کئی لوگوں کو یہ غم کھائے جارہا ہے کہ اب اُن کی اصل عمر سرِ عام آجائے گی ،وہ چاہتے ہیں کہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ وہ ساٹھ سال کے ہو چکے ہیں۔ انہیں سب کچھ منظور ہے مگر کوئی یہ کہہ دے کہ وہ بوڑھا ہوگیا ہے اور اس کے بچے عمر کو پہنچ گئے ہیں ،یہ قطعی ان کو منظور نہیں ۔انہوں نےتووبائی بیماری کے دوران سر عام کووڈ کا پہلا ٹیکہ یہی کہہ کر لگوایا تھا کہ وہ ابھی چالیس کے نہیں ہوئے ہیں مگر سوشل میڈیا کا کیا کریں، اب یہ سبکدوشی کا معاملہ بھی گھر گھر کی کہانی بن جاتا ہے ۔
ویسے دیکھا جائے تو پچھلے سال سے ہی سرکاری ملازمین کی سبکدوشی کا موسم بڑے تام جھام کے ساتھ جاری و ساری ہےاور آئے روز اِن میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ ایک سروے کے مطابق آنے والے سال یعنی 2024 میں اس تعداد میں مزید اضافہ ہونے جارہا ہے ۔ویسے یہاں کی روایت ہے کہ جب کسی دفتر سے کوئی ملازم سبکدوش ہوتا ہے تو باقی ساتھی ایک مخصوص رقم جمع کرکے ایک عدد شال، پھول مالائیں یا کوئی اور تحفہ خریدنے پر خرچ کرتے ہیں اور باقی رقم سے اپنے کھانے پینے کا بھرپوربندوبست کرتے رہتے ہیں اور پھر بڑے چاو سے کہتے پھرتے ہیں کہ ہم نے فلاں کی ریٹائرمنٹ تقریب پر زبردست وازوان کا اہتمام کیا تھا ۔ حالانکہ سبکدوش ہونے والے اکثر اشخاص کو پھر بدلے میں پورے دفتر کو اپنے گھر یا کسی ہوٹل پر کھلانا پلانا پڑتا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سبکدوشی دیگر ملازمین کے لئے محض کھانے پینے اور دیگر فارمولٹی پورا کرنے کی ایک مشق ہے یا پھر ایک بہت بڑا درس ِعبرت یا خود کا محاسبہ کرنے کی ایک جیتی جاگتی مثال ۔ بقول شاعر
دنیا کی طوالت بے جا ہے خلقت کا لمبا قصہ ہے
ہر شخص فقط یہ غور کریں اُس کل میں میرا کیا حصہ ہے
جی ہاں ! یہ کرسی،عہدہ،افسری یا ملازمت ایک خاص مدت کے لئے متعین ہوتی ہے اور اس مدت میں ہر شخص کی نظریں اس ملازم پر ہوتی ہے ۔کئی لوگوں کی توقعات اس سے جڑی رہتی ہے ۔اپنی سروس کے دوران ہر گزرتے ہوئے دن میں یہ ملازم اپنے قول و فعل سے اپنی ایک پہچان بناتا ہے ۔اس کے ماتحت کام کرنے والے ہوں یا اس کے باس حضرات یا پھر وہ عام لوگ، جن کی آسانی اور خدمت کے لئے اسے یہ ملازمت اور عہدہ ملتا ہے، اس کی ہر حرکت کو یاد رکھتے ہیں اور سبکدوشی کے بعد اس کی ساری باتیں،اور اس کے قول و فعل دہرائے جاتے ہیں ۔ایمانداری ہو یا بے ایمانی ۔ محنتی ہو یا کام چور،ذمہ دارانہ رویہ والا ہو یا غیر ذمہ دار، خوش اخلاق ہو یا بد اخلاق ، یہ ساری باتیں ،یہ سارے وصف ، سبکدوشی کے بعد اس شخص کی تاریخ بن جاتی ہے اور محلے ،گائوں،شہر اور سماج میں اُن ہی اچھے یابُرے کرموں سے اس کی پہچان بن جاتی ہےاور مثال دی جاتی ہے ۔جیسے فلاں ملازم ،’’ہائے وہ بدبخت انڈا تک رشوت لیتا تھا ‘‘۔ ’’ہاں! اس نے شرافت اور ایمانداری کا چولا پہن کر کروڑوں کا غبن کیا ‘‘۔’’ وہ بڑا چور تھا اور ہر وقت تاڑتا رہتا تھا کہ کب ہاتھ مارنے کا موقعہ مل جائے‘‘ ۔’’ارے یا ر! وہ کام کرنے والا بندہ تھا مگر زبان کا اتنا گندہ تھا کہ ہر ماتحت اس سے ملنے سے کتراتا تھا گویا وہ کمینہ تھا اور ہر شخص کی بے عزتی کرتا تھا‘‘ ۔’’فلاں چوکیدار !واہ کیا فرشتہ صفت ملازم تھا، کبھی بھی دفتر کی چیز کو ہاتھ تک نہیں لگایا ،اپنے کام سے کام رکھتا تھا ،اللہ سلامت رکھے اُسے، دل اور زبان کا صاف تھا اس کی یادیں ہمیشہ زندہ رہے گی‘‘وغیرہ وغیرہ ۔غرض ہر ملازم کی اصلی پہچان سبکدوشی کے بعد ہی معلوم پڑ تی ہے ۔مجبوری ،خوف اور ماتحتی کے سبب جو لوگ چُپ ہوتے ہیں لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد وہی لوگ اس کے تمام کالے کارنامے بیان کرتے ہیں جبکہ سبکدوشی کی تقریب کے وقت وہ خود بھی سمجھتا اور جانتا ہے کہ کون سا شخص میری جھوٹی تعریف کرکے محض فارمولٹی پورا کر رہا ہے ۔ سبکدوشی کے بعد بھی کئی لوگوں کو دیکھ کر گلے لگانے کو جی کرتا ہے اور کئی لوگوں کو دیکھ کر لوگ راستے بدل دیتے ہیں ۔اس لئے سروس کے دوران ہی ملازم چاہے افسر ہو یا ماتحت ،ہر ایک کو سوچنا اور سمجھنا چاہیے کہ یہ رہنے والی نہیں ہے ۔ساٹھ کا ہونا ہے اور پھر اس ڈیپارٹمنٹ میں اس محکمے میں اپنےمحلے ،گائوں اور سماج میں اپنی ایک پہچان بنانی ہے ۔اس لئے غور کرنا ہے کہ اُس کل میں میرا کیا حصہ ہے؟
موبائل ۔9622483080
[email protected]
�����������������