مختار احمد قریشی
وہ ہمیشہ سائے کی طرح اس کے پیچھے لگا رہتا تھا۔ جہاں وہ جاتی، جیسے کوئی غیر مرئی طاقت اسے کھینچ لیتی۔ شہر کے مصروف بازاروں سے سنسان گلیوں تک، وہ ہر جگہ موجود ہوتا۔
زینب کو یہ محسوس ہونے میں زیادہ وقت نہ لگا کہ کوئی اس کا تعاقب کر رہا ہے۔ پہلے پہل اسے وہم سمجھ کر نظر انداز کرتی رہی مگر جب وہی سائے جیسا شخص ہر جگہ نظر آنے لگا تو اس کی پریشانی بڑھ گئی۔
ایک رات، جب وہ اپنی خالہ کے ہاں سے لوٹ رہی تھی، اس نے پیچھے مُڑ کر دیکھنے کی ہمت کی۔ سیاہ کوٹ میں ملبوس، لمبے قد کا ایک آدمی، چہرہ دھند میں لپٹا ہوا۔ زینب کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔
“کون ہو تم؟ کیا چاہتے ہو؟” اس نے ہمت کر کے پوچھا۔
مگر جواب ندارد۔ وہ بس کھڑا اسے دیکھتا رہا۔
زینب تیزی سے گھر کی طرف بھاگی۔ اس رات نیند آنکھوں سے کوسوں دور رہی مگر یہ پہلا موقع نہ تھا۔ پچھلے تین مہینوں سے وہی سایہ اس کی زندگی میں زہر گھول رہا تھا۔
ایک دن اس کی سہیلی نسرین نے مشورہ دیا: “پولیس میں شکایت درج کروا دو۔”
مگر زینب جانتی تھی کہ اس ملک میں عورت کی شکایت مذاق سے زیادہ کچھ نہیں سمجھی جاتی۔ وہ خود ہی اس کا سامنا کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔
رات کے گیارہ بجے، جب سڑکیں سنسان ہو چکی تھیں، وہ جان بوجھ کر ایک ویران راستے پر چلی گئی۔ قدموں کی چاپ پیچھے سنائی دی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ موجود ہے۔
“سامنے آؤ۔ زینب نے دھاڑ کر کہا۔
چند لمحوں بعد وہ سایہ روشنی میں نمودار ہوا۔
“تم کون ہو؟” زینب کی آواز کپکپا رہی تھی، مگر اس میں خوف نہیں تھا۔
اس آدمی نے آہستہ آہستہ اپنا چہرہ اوپر کیا۔ زینب نے جب وہ چہرہ دیکھا تو جیسے زمین اس کے قدموں تلے سے نکل گئی۔
وہ چہرہ، جو کبھی اس کے باپ کا دوست تھا۔ وہی شخص جس نے بچپن میں اسے چاکلیٹ دی تھی، جو اس کے گھر آتا جاتا تھا، جو… جس نے۔
زینب کی آنکھوں میں برسوں کا انتقام جل اٹھا۔
“تمہیں یاد ہے؟” آدمی کے ہونٹوں پر زہرخند مسکراہٹ تھی۔ “میں نے کہا تھا نا کہ تم مجھ سے بچ نہیں سکو گی۔”
مگر زینب اب وہ معصوم لڑکی نہ رہی تھی۔
اس نے جھٹکے سے اپنی چادر کے نیچے چھپایا ہوا خنجر نکالا اور پوری طاقت سے اس کے سینے میں اتار دیا۔
خون کا فوارہ سا نکلا۔ آدمی نے حیرت اور خوف سے زینب کو دیکھا، جیسے یقین نہ آ رہا ہو کہ اس کا شکار آج شکاری بن گیا ہے۔
وہ زمین پر گرا، تڑپا، اور پھر خاموش ہو گیا۔
زینب نے اپنے کپڑوں سے خون صاف کیا، ایک گہری سانس لی اور خاموشی سے اندھیرے میں غائب ہو گئی۔
کہانی ختم نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ اب شروع ہوئی تھی۔
���
موبائل نمبر؛8082403001
[email protected]