سرینگر//پولیس نے گائو کدل سانحہ میں 29برس قبل شہریوں کے قتل عام واقعہ سے متعلق ریکارڈ2014 کے تباہ کن سیلاب میں ضائع ہونے کا انکشاف کرتے ہوئے انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن میں رپورٹ پیش کی ہے،جبکہ اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اس کیس کو’’پتہ نہیں چلا‘‘ کے بعد بند کیا گیا۔ انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن چیئرمین جسٹس(ر) بلال نازکی نے پیر کو ایس ایس پی سرینگر کو چیف پراسکیوٹنگ افسر کے ذریعے6فروری کو ذاتی طور پر کمیشن میں حاضر رہنے کیلئے طلب کیاہے تاکہ وہ اس بات کی وضاحت کر سکے کہ22جنوری1990 کو گائو کدل میں پیش آئے قتل عام سے متعلق درج کیس میں تحقیقات مکمل کرنے میں کیوں تاخیر ہوئی۔سنیئر سپرانٹنڈنٹ آف پولیس نے بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا کہ مجرموں کی نشاندہی کی کافی کاوشوں کے بعد بھی کوئی بھی سراغ حاصل نہیں ہوا،اور کیس کو بند کیا گیا۔ایس ایس پی سرینگر نے مزید اپنی رپورٹ میں کہا کہ کیس سے متعلق تمام ریکارڑ،جو کہ پولیس تھانہ کرالہ کھڈ میں موجود تھا،2014کے تباہ کن سیلاب کی نذر ہوگیا۔ایس ایس پی سرینگر نے رپورٹ میں مزید کہا ہے’’چونکہ ریکارڈ سیلاب کی نذر ہوگیا ہے،اب اس فائل کی بحالی کی جاری ہے‘‘۔
انہوں نے رپورٹ میں کہا’’اس مسئلہ کی ایس پی نارتھ زون کی طرف سے تحقیقات ہوئی،اور پوچھ تاچھ کے دوران ایس ایچ ائو کرالہ کھڈ نے بتایا کہ ریکارڈ سیلاب کی نذرہوگیاہے‘‘۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عدالت میں حتمی رپورٹ پیش کرنے کیلئے مسئلہ زیر عمل ہے‘‘۔گائو کدل میں21جنوری کو پیش آئے واقعے کے خلاف انٹرنیشنل فورم فار جسٹس نے پہل کی،اور بشری حقوق کے ریاستی کمیشن کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے یکم اپریل2012کو ایک عرضی زیر نمبر SHRC/112/SGR/2012 دائرکی۔عرضی میں درخواست کی گئی گئی کہ کمیشن سانحہ گائو کدل کی جانچ کیلئے تحقیقاتی ٹیم کو تشکیل دیے۔انٹرنیشنل فورم فار جسٹس کے چیئرمین اور عرض گزار محمد احسن اونتو نے کہا’’ ہم چاہتے ہیں کہ اس واقعے میں جاں بحق ہوئے لوگوں کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے،اور انکی باز آباد کاری کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں،جبکہ ڈی ایس پی اللہ بخش اور سی آر پی ایف اہلکاروں کے خلاف علیحدہ سے کیس درج کیا جائے‘‘۔اس معاملے میں آئی جی پی کشمیر نے23 اگست 2017کو ایک مفصل رپورٹ پیش کی ۔جس میں کہا گیا کہ کیس کے سلسلے میں8ستمبر2013 کو ریاستی پولیس ہیڈ کوارٹر کے پراسکیوشن سیکشن نے کیس سے متعلق ڈائری ہیڈ کانسٹبل غلام احمد زیر نمبر4165/sزیر ڈی ڈی آر نمبر18 پیش کی ۔
پولیس رپورٹ میں کہا گیا’’یہ بات واضح کرنی ضروری ہے کہ ایس پی انسانی حقوق کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اتھارٹی اس روز گائو کدل علاقے میں مجسٹریٹ سے متعلق تفصیلات فراہم کرنے میں ناکام ہوئی،مکمل طور پر نادرست اور غلط فہمی پر مبنی ہے‘‘۔ انسانی حقوق کمیشن کے تحقیقاتی شعبے کی رپورٹ کے مطابق کیس کی تحقیقات میں کئی خامیاں سامنے آئیں،بالخصوص کیس سنیئر پولیس افسراں کی توجہ کا مرکز نہیں بنا،کہ اس کو انسانیت کے تقدس کو برقرار رکھنے اور قانون کی بالا دستی کو بنائے رکھنے کیلئے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ایس ایچ ائو ترلوکی ناتھ نے تحقیقاتی فائل کو کئی برسوں تک اپنے ہی پاس رکھا،حتیٰ کہ اس کو پولیس کی دوسری ونگ میں بھی تبدیل کیا گیا۔