شیخ بلال
نیا سال کیا ہوتا ؟کیا کوئی رنگ بدلتا ہے ؟ کیا نئے سال میں دن میں چاند اور رات میں سورج نکلتا ہے ؟ نئے سال میں پرانے سال سے نیا کیا ہوتا ہے ؟ ہندسوں کا فرق بس کل 31 دسمبر تھا،آج 1 جنوری ہے۔ اس میں ایک ہندسے کے بدلنے کے علاوہ نیا کیا ہے ؟ وہی زمین ،وہی چاند سورج ،وہی دن رات ،وہی لوگ، وہی سوچ ،وہی حالات سب کچھ وہی ہوگا بس بدلے گا کیا ایک ہندسہ، 31 دسمبر کا 1 جنوری ہوگا اور 2023 کا 2024 ہوگا،دیوار میں لٹکا کلینڈر بدلے گا بس۔ ہوتا کیا ہے بس چند لوگوں کو تہوار کی صورت میں ناچنے گانے اور فضولیات کرنے کا ایک موقع ملتا ہے ۔
سال 2020 سے کورونا وائرس کی تباہی نے نہ صرف لوگوں کی جانیں لی بلکہ لاکھوں زندہ انسانوں کو بے روزگار کیا ۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا بے روزگاری، مہنگائی اور دیگر مسائل نے ان چند سالوں میں نیا جیسا کچھ نہیں رکھا ۔ایک ہندسہ تبدیل ہوتا ہے ایک نیا سال آتا ہے اور ایسے گزرتا ہے جیسے کہ کوئی بچہ ریاضی کی مشق کرتے ہوئے کسی چارٹ پر لکھی گنتی پڑھ رہا ہو۔
دنیا میں ہر ایک قوم ہر ایک مذہب کے افراد کوئی نہ کوئی تہوار مناتے ہیں۔ ہر قوم کے تہوار کے پیچھے ان کی کوئی دلیل ہوتی ہے جیسے ہم عید مناتے ہیں ۔ ہم سال میں دو عیدیں مناتے ہیں۔ پہلی عید، عید الفطر ،رمضان کے بہترین اختتام پر اللّہ تعالیٰ کا شکر بجا لانے کے لئے ہوتی ہے۔ اس دن غريبوں میں صدقہ فطر بانٹ کر ان کو بھی خوشی میں شامل کیا جاتا ہے ۔دوسری عید ،عید الاضحی ،جو بنیادی طور پر حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی سنت ہے۔ یہ عید حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایمان اور اللّہ تعالیٰ پر ان کی عقیدت کو بیان کرتی ہے۔ اسی طرح باقی مذاہب میں جیسے ہندؤوں میں دیوالی، روحانی اعتبار سے اندھیرے پر روشنی کی، جہالت پر علم کی، بُرائی پر اچھائی کی اور مایوسی پر اُمید کی فتح و کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح سکھ قوم میں عیسائیوں میں جین قوم میں، نیز ہر قوم ہر مذہب میں کوئی نہ کوئی تہوار ہے جس کی کوئی وجہ کوئی دلیل ہے جس کی وجہ سے اس تہوار کو منایا جاتا ہے ،اس تہوار میں خوشی اور پیار بانٹا جاتا ہے۔ ہر تہوار میں کوئی نہ کوئی پیغام ضرور پوشیدہ ہوتا ہے اور اس تہوار کا ضرور کوئی مقصد ہوتا ہے۔ اس سب کے برعکس نئے سال کے جشن کی بات سمجھ سے بالا تر اور عقل کیخلاف ہے۔ گزرے ہوئے سال میں یا دسمبر کے آخری دن میں ہم نے ایسا کیا کمال کیا ہوتا ہے ،ایسا کیا طوفان لایا ہوتا ہے ،ایسا کون سا خطرناک تیر مارا ہوتا ہے جو ہم رات بھر جاگ کر نئے سال کا جشن منارہے ہوتے ہیں۔ گزرا ہوا سال، گزرے ہوئے دن ہماری زندگی کے مقررہ دنوں میں سے کم ہوئے، مطلب ایک حساب سے خسارہ ہی ہوا نا اور گزرے ہوئے سال میں آنے والے کٹھن وقت کی کوئی تیاری بھی نہیں کرپائے تو بھلا کوئی خسارے اور نقصان کا جشن کیسے مناسکتا ہے ۔ ایک رات کو جاگ کر خرافات کرکے نئے سال کی بھی اس طرح خوش آمدید کرتے ہیں کہ آجاو ہماری زندگی کی تباہی میں رہی سہی کسر پوری کرلو، آجاو جیسے آج تک کے اتنے سال خسارے اور گھاٹے میں گزرے آپ بھی ویسے ہی گزر جاو اور ہمیں بس جشن کا ایک موقع دو۔ خرافات اور بے وقوفی سے نئے سال کو بھی ایک امید کی کرن ،زندگی بدلنے کا ایک موقع سمجھنے کے بجائے بس جشن اور ناچ گانے کا ایک موقع بنا کر ایک تہوار منانے کا کیا فائدہ ہے ۔
نیا سال ہر شخص پر آتا ہے چاہے وہ کامیاب ہو یا ناکام ہو ،امیر ہو غریب ہو ،کالا ہو یا گورا ہو لیکن ہر ایک شخص کا اس نئے سال کا خیر مقدم کرنے کا ایک خاص طریقہ ہوتا ہے – ناکام اور نامراد لوگ اس بہترین موقع کو بس ایک جشن اور ایک تہوار سمجھ کر گنوا دیتے ہیں اور کامیاب لوگ اسی موقع پر خوشیاں ضرور مناتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ سال کی کوتاہیوں اور غلطیوں کو یاد کر کے ان پر قابو پانے کا ایک عزم کرتے ہیں ، ان کمیوں کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب نیا سال شروع ہوتا تھا تو صحابہ کرام ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے تھے ۔ (ترجمہ )’’اے اللہ اس کو ہم پر امن و ایمان سلامتی اور اسلام کے ساتھ رحمٰن کی رضامندی اور شیطان سے حفاظت کے ساتھ لائیے۔‘‘
ایک اچھے مسلمان کی نظر میں نیا سال انسانوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ خوشی منانے کے بجائے اپنا محاسبہ کریں۔ یہ ایک بہترین موقع ہوتا ہے کہ انسان اپنے پورے سال کے اعمال کا جائزہ لے کہ کیا کھویا اور کیا پایا ہے، عبادات معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ اورحقوق العباد کی ادائیگی کتنی کی ہے اور کتنا اس میں غافل رہے ہیں۔ کیا ہم خوشی منانے میں مگن ناچ گانوں کی محافل کا انعقاد آتش بازی اور فضول خرچ کرکے اللہ کے عذاب کو دعوت دیتے رہے، حضور کا فرمان ہے تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔ حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن مسلمان سے پانچ سوالات ہوں گے اپنی عمر کس کام میں بسر کی؟ اپنی جوانی کس کام میں صرف کی؟ مال کس ذریعہ سے کمایا؟ مال کو کس راہ میں خرچ کیا؟ اور جو کچھ سیکھا اس پر کتنا عمل کیا۔
اگر غور کریں ہماری زندگی کا ہر لمحہ صرف فضولیات ،خرافات، بد اخلاقی ، بے ادبی ،بد تمیزی اور گناہوں میں ہی گزر جاتا ہے۔ ہر انسان کو بس ایک لالچ ایک عجیب سی جلدی، بے صبری ہے ۔ زندگی کی اس بے جا دوڑ میں اخلاقیات، معاشرت سب کچھ بھول کر انسانوں کے حقوق پامال کرکے ایک سال گزارا اور نئے سال کا کیا جشن ؟ جانوروں کی سی زندگی گزار کر سال گزارا تو نئے سال کا کیسا جشن؟ زندگی میں آگے بڑھنے کی دوڑ میں راستے میں آئے نہ والدین کو دیکھا ،نہ رشتے کو دیکھا ،نہ کسی انسان کی قدر، نہ اخلاقی اقدار ،اور نہ ہی کوئی انسانی ادب کا خیال کیا ،اس حالت میں ایک سال گزارا اور پھر نئے سال کا جشن ؟ خسارے اور گھاٹے اور فضول وقت کے ضیاں کا کیسا جشن، کیسا تہوار ؟نئے سال کی خوشی ہی گر منانی ہے نئے سال کا خیر مقدم ہی کرنا ہے تو چلیں آج یہ تہیہ کرلیں کہ ہم آج سے ہی بد اخلاقی ،بد تمیزی ، بے ادبی، جھوٹ، مکرو فریب، غیبت، بخیلی، تنگ دلی فضول گوئی، بے صبری، شیخی خوری، تکبر ، خودنمائی، وعدہ خلافی، لڑائی جھگڑے، آبروریزی ،نفرت غصہ، احساسِ کمتری، چغل خوری، حرام کاری، کام چوری، سود خوری، ظلم، بدعہدی، خیانت، جعل سازی، رشوت خوری، بدزبانی، بہتان تراشی، فساد انگیزی، ہٹ دھرمی، حرص، ریاکاری اور منافقت جیسی برائیوں کا اپنی زندگی سے ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرکے نظم وانضباط، تعاون، امدادِ باہمی، محبت، اعتبار، وسعت نظری، سچائی، نیکی، انصاف، پاسِ عہدی، امانت داری، ہمدردی، رحم، فیاضی، صبر و تحمل، اخلاقیات، خودداری، شائستگی، ملنساری، فرض شناسی، وفا شعاری، احساس ذمہ داری، والدین کی خدمت، رشتہ داروں کی مدد، ہمسایوں سے حسن سلوک، دوستوں سے رفاقت، یتیموں اور بے کسوں کی خبر گیری، مریضوں کی تیمارداری، مصیبت زدہ لوگوں کی اعانت، پاک دامنی، خوش گفتاری ،نرم مزاجی، خیر اندیشی، راست بازی، کھرا پن ،فراخ دلی اور اَمن پسندی جیسی اچھائیوں کو اپنائیں گے۔ اگر کرنا ہی ہے تو جشن ہی منانا ہے تو ان سب کا تہیہ کر لیں چلیں ،آج اس بہترین موقع کو غنیمت جان کر ٹوٹے رشتوں کو جوڑیں ،انسانوں کی قدر جانیں، انسانوں اور حیوانات میں فرق جانیں۔ انسان کی اصل اور انسانیت کی حقیقت اور انسانیت کا مقصد سمجھیں ۔ یہ عزم کر لیں کہ گزشتہ سال جو بھی خامیاں، کمیاں ،کوتاہیاں رہ گئی ان کو دور کرنے کی کوشش کریں گے اور ایک بہترین انسان بننے کی کوشش کریں گے ۔ہندسے تو روز بدلتے ہیں۔
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
بس ان بدلتے ہندسوں کے ساتھ زندگی بدلے ،زندگی خوبصورت بنے ، ہم ایک اچھے انسان بنیں، یہی اصل جشن اور یہی اصل تہوار ہے، ورنہ ہندسے تو بدلتے رہیں گے ،ہجری ہو یا عیسوی سال تو بدلتے رہیں گے اور ہم بس موت کے قریب ہوتے جائیں گے اور گنتی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
رابطہ۔ [email protected]