قیصر محمود عراقی
ساحرؔلدھیانوی کا حقیقی نام عبدالحئی تھا، انہوںنے بچپن اور نوجوانی میں بہت سی سختیاں جھیلی تھیں۔ ۱۹۳۷ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ مزید تعلیم کیلئے گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں پھر دیال سنگھ کالج کا رخ کیا ۔ ساحرؔ نے شاعری کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیاتھا، طالب علمی کے زمانے میں ہی ان کا شعری مجموعہ ’’تلخیاں‘‘ شائع ہوچکا تھا، جس نے اشاعت کے بعد دھوم مچا دی تھی۔ ساحرؔمبلغ تھے نہ مصلحت پسند مگر ان کے اندر اپنے ماحول کے خلاف بغاوت کا جذبہ موجود تھا ، ان کی نظم ’’ثنا خواں تقدیسِ مشرق کہاں ہیں‘‘ ۔ ان کے جذبات کی عکاس اور ان کے ماحول کے تجزیے کی بہترین نظم ہے ۔ ان کی ایک نظم ’’تاج محل ‘‘ہے ،جس میں مغل بادشاہ کی تعمیر کا مزاق تھا۔ ’’ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق‘‘اس نظم میں ساحرؔکو ہندوستان میں شہرت بخشا۔ ساحرؔکی شاعری تین دہائیوں پر پھیلی ہے ، ساحرؔنے نظمیں لکھیں، گیت لکھے مگر غزلیں بہت کم ، لیکن ایک غزل ان کی ایسی ہے کہ اس فن کا جوہر شناس حیرت زدہ رہ جائے، وہ غزل ہے ۔؎
جب کبھی ان کی توجہ میں کمی پائی گئی
از سرِ نو داستانِ شوق دہرائی گئی
ساحرؔہمیشہ لوگوں سے بے نیاز رہے، بے نیازی کی یہ ادا ان کی نظموں سے جگہ جگہ جھلکتی دکھائی دیتی ہے، ہندوستان میں خاموش فلموں کے بعد جب بولتی فلموں کا دور آیا تو رفتہ رفتہ ادب کے لوگ بھی فلمی دنیا سے جڑتے چلے گئے تھے۔ بمبئی کی فلم انڈسٹری کو جاںنثار اختر ؔ، مجروحؔ سلطان پوری ، کیفیؔ اعظمی اور شکیلؔ بدایونی جیسے ہیرے نصیب ہوئے اور ان شاعروں نے فلموں کو ادبی معیار عطا کیا۔ ساحرؔلدھیانوی جب نئے نئے بمبئی آئے تو ابھی فلمی دنیا کے دروازے ان پر کھلے نہیں تھے، پھر ایک دور ایسا آیا جسے بلا شبہ ساحرؔلدھیانوی کا دور کہا جانے لگا، بمبئی آنے والا بے یار ومددگار شاعر بمبئی فلم انڈسٹری کا چہیتا شاعر بن گیا ، ان کے دلکش گیتوں کی سارے ہندوستان میں دھوم مچ گئی ، ان کے گھروں کے دروازے پر اس دور کی کئی قیمتی گاڑیاں کھڑی رہنے لگیں، ان کا نام فلموں کی کامیابی کی زمانت سمجھا جانے لگا ، فلموں کے اشتہار میں ان کا نام جلی حروف میں لکھا جانے لگا ۔ ساحرؔسے پہلے فلموں کے پوسٹرزپر شاعروں کا اور موسیقاروں کا نام نہیں لکھا ہوتا تھا اور نہ ہی ریڈیوں سے نثر ہونے والے گانوں کو لکھنے والوں کا نام اور موسیقاروں کا نام اعلان کیا جاتا تھا، ساحرؔنے آتے ہیں، فلموں کے پوسٹرز پر شاعر اور موسیقار کا نام لکھوانے کا چلن دیا اور ریڈیوں پر شاعروں اور موسیقار کے ناموں کا اعلان جاری کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بمبئی کی فلم انڈسٹری میں ساحرؔدنیائے شاعری کا شہزادہ مشہور تھے۔ بمبئی میں ساحرؔکی شاعری کو اصل عروج حاصل ہوا اور ساحرؔکی خوبصورت نظمیں جب منظر عام پر آئیں تو لوگ ساحرؔکی شاعری کے دیوانے ہوتے چلے گئے۔ اس دور کی چند نظموں ’’پرچھائیاں‘‘، ’’تاج محل‘‘، ’’مادام‘‘، ’’چکلے‘‘ اور ’’نور جہاں کے مزار پر‘‘کو بڑی شہرت ملی تھی۔
ساحرؔلدھیانوی کی شہرت اور عظمت ان کے فلمی گیتوں ہی کی مرہون منت نہیں تھی بلکہ ساحرؔکی نظموں نے بھی ادبی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا تھا ۔ ان کی ایک نظم میں ہمارے متعفن معاشرے کو آئینہ اس طرح دکھایا تھا کہ کوئی شاعر اس سے پہلے ایسی جرأت نہ کرسکا تھااور یہ جرأت صرف ساحرؔکی شخصیت کا حصہ تھی اور وہ نظم تھی’’عورت نے جنم دیا مردوں کو ،مردوں نے اسے بازار دیا‘‘۔ جہاں ساحرؔکی شاعری میں یاس ، ناامیدی، معاشرے کی بے رحمی ، عورت کی بے توقیری کا تذکرہ کیا گیا تھا وہاں ساحرؔکی شاعر ی امن، سلامتی اور محبت کی بھرپور جذبوں کی عکاسی بھی کرتی تھی۔ ساحرؔلدھیانوی نے بڑی سچائی کے ساتھ اپنے ایک گیت میں انسان کی بے ثباتی کا ذکر کیا ہے( ’’مجھ سے پہلے کتنے شاعر آئے اور آکر چلے گئے، کچھ آہیں بھر کر لوٹ گئے ، کچھ نغمیں گا کر چلے گئے، وہ بھی ایک پل کا قصہ تھے ، میں بھی ایک پل کا قصہ ہوں ، کل تم سے جدا ہوجائوگا گو آج تمہارا حصہ ہوں ، میں پل دو پل کا شاعر ہوں‘‘)فلم کبھی کبھی کے لئے یہ گیت لکھا تو ساحرؔلدھیانوی نے تھا مگر اس میں جو فلسفہ تھا وہ ایک فلمی شاعر سے کہیں بڑھ کر ساحرؔلدھیانوی کو عظمت کی بلندی تک لے جاتا ہے ، ساحرؔہمیشہ ہی سے انسان کی اونچ نیچ کے خلاف تھے، انسانوں کے درمیان عدم مساوات کے خلاف تھے، انسانوں کے درمیان چھوٹے بڑے طبقوں کے خلاف تھے ،انہیں نفرت تھی ان لوگوں سے جو انسان ہوتے ہوئے بھی زمین پر خدا بن جاتے ہیں اور پھر انسانوں کو مذہب کے نام پر تقسیم در تقسیم کرتے چلے جاتے ہیں ، ساحرؔکا ایک گیت انتہائی حقیقت پسندانہ ہے مگر اس گیت کو اس دور میں مذہبی ٹھیکیداروں نے ناپسند کیا تھا اور یہ گیت متنازعہ بنا دیا گیا تھا، وہ گیت یہ تھا جسے ساحرؔنے فلم ’’دھول کا پھول‘‘کیلئے لکھا تھا’’تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا ،انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا ‘‘۔ اس گیت نے آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے معاشرے کی جن برائیوں کی اور انسانوں کی بربادیوں کو پیش نظر رکھا تھا آج بھی وہی برائیاں بجائے کم ہوئے کے اور بڑھتی چلی جارہی ہے۔ انسان مذہب کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کررہا ہے ، انسانوں کی دنیا میں انسان ہی قہر برسارہے ہیں ، ہر مذہب نے تو انسانیت کا سبق پڑھایا ہے، ہر مذہب میں انسانوں کو بھلائی کا پیغام دیا مگر مذہب کو آج صرف دنیاوی ضروری اور ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کیا جارہا ، انسان ہی انسانیت کی تذلیل کررہے ہیں، انسان کی انسانوںپر ظلم کے پہاڑتوڑرہے ہیں ، آج بھی انسانیت رو رہی ہے، سسک رہی ہے ، بلک رہی ہے اور اناپرست لوگ صداقت ، دیانت اور انصاف کی بیخ کنی پر اترے ہوئے ہیں اور زمین پر خدا بنے ہوئے ہیں۔ ساحرؔلدھیانوی کے نظریات سے لوگ انحراف کرسکتے ہیں مگر ساحرؔکے اشعار کی سچائیوں سے کبھی منھ نہیں موڑ سکتے۔ ساحرؔکل کا بھی سچا شاعر تھا اور ساحرؔآج کے دور کا بھی سچا شاعر ہے، ان کی شاعری برسوں تک انسانیت کا درس دیتی رہی گی ، ساحرؔلدھیانوی کی شاعری ہمیشہ زندہ رہیگی۔
قارئین محترم !چلتے چلتے اس بات کا بھی انکشاف کرتا چلوں کہ ساحرؔلدھیانوی کو جب یہ پتہ چلا کہ میوزک کی تمام بڑی کمپنیاں موسیقاروں اور شاعروں کو ان کے گیتوں پر سب سے کم رائلٹی دیتی ہیں اور ہر گیت پر سب سے زیادہ رائلٹی گلوکاروں اور گلوکارائوں کو ملتی ہے تو ساحرؔلدھیانوی نے ہی اس پر احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اس وقت تک کسی فلم کیلئے گیت نہیں لکھونگا جب تک ہر میوزک کمپنی اس بات کا فیصلہ نہ کردے کہ وہ فلم کے ہر گیت پر شاعر اور موسیقار کو گیت گانے والے فنکاروں سے زیادہ رائلٹی ادا کریگی اور پھر ہرمیوزک کمپنی نے مجبور ہو کر ساحرؔکے فیصلے کے آگے اپنا سر جھکا دیا تھا۔ ایک واقعہ کاجل فلم کے ایک گیت ’’یہ زلف اگر کھل کے بکھڑ جائے تو اچھا ‘‘ پر بھی ہوا تھا ۔ جسے ۲۰۰۵ء میں رفیع لور سرکل پروگرام میں روحی خان اور ہاشم خان کی دعوت پر آنے والے چیف گیسٹ کی حیثیت سے موسیقار روی صاحب نے کیا تھا ۔ انہوں نے سامعین سے اس واقعہ کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ اس گیت میں فلم کے ڈائریکٹر ایک لفظ کا اضافہ چاہتے تھے، یعنی یہ زلف اگر کھل کے بکھڑ جائے تو اچھا ہو، اس کے متعلق ساحرؔصاحب سے کہا گیا تو ساحرؔنے برجستہ ڈائرکٹر کو جواب دیا کہ آپ ایک لفظ کی بات کرتے ہیں اس گیت میں ایک نقطہ بھی بڑھانے کی اجازت میں نہیں دونگا، ہاں آپ اس فلم کے دائرکٹر ہیں ، آپ کو یہ اختیار ضرورہے کہ آپ اس گیت کو اس فلم سے نکال دیں۔ پھر روی صاحب نے کہاکہ میں نے ڈائرکٹر صاحب کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ آپ فکر نہ کریں ، میں کچھ کرتا ہوںاور میں نے دھن بنائی اس گیت کیلئے اور جب یہ گیت بن کر تیار ہوئی تو یہی گیت فلم کاجل کا سب سے خوبصورت گیت بن گیا۔ یہاں اس بات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ساحرؔصاحب کسی موسیقار کی دھنوپر تُک بندی نہیں کرتے تھے بلکہ شاعری کرتے تھے، ساحرؔدھنوپر گیت نہیں لکھتے تھے بلکہ ان کے لکھے ہوئے گیت پر دھنیں بنتی تھیں، یہی وجہ ہے ساحرؔنے صرف چند موسیقاروں کے ساتھ ہی کام کیا جبکہ اس زمانے میں موسیقارِ اعظم نوشاد صاحب بھی باحیات تھے مگر ساحرؔکبھی بھی ان کے ساتھ کام نہیں کیا کیوں کہ نوشاد صاحب گانے میں ردوبدل کیا کرتے تھے جو ساحرؔکو پسند نہیں تھا۔ وہ جو گیت لکھ دیتے تھے اسے دوسرا کوئی اور تو کیا وہ خود بھی کاٹ چھانٹ نہیں کرتے تھے۔
آخرمیں بس اتنا ہی کہ فلموں میں شاعر تو بہت تھے، مگر اردو کو فلموں میںساحرؔنے زندہ رکھا ، انہوں نے اپنے نغموں میں ایک سے ایک اردو لفظوں کا استعمال کیاجو سننے والوں کو بھی اچھے لگتے تھے اور گانے والوں کو بھی مزہ آتا تھا ۔ ساتھ ہی انہوں نے کچھ ایسے گانے لکھے جس کا کوئی جواب نہیں ۔ مثلاً فلم وقت کا یہ گانا ’’وقت سے دن اور رات ، وقت سے کل اور آج‘‘اس گانا میں وقت سے متعلق جو شاعری ساحرؔنے کی ہے اب اس کے آگے وقت کے متعلق کوئی بھی شاعر اور کچھ بھی لکھ ہی نہیں سکتا، اسی طرح آنکھوں کے متعلق فلم آنکھیں میںیہ گیت ’’ہر طرح کے جذبات کا اعلان ہے آنکھیں‘‘جو تعریف آنکھوں کی کی ہے اسے دوسرا کوئی بھی شاعر اس انداز سے پیش نہیں کرسکتا جس انداز سے ساحرؔنے پیش کیا۔ اسی طرح عشق کے اوپر فلم برسات کی رات یہ قوالی’’نہ تو کارواں کی تلاش ہے، نہ تو رہ گذر کی تلاش ہے‘‘اس میں ساحرؔنے عشق کی انتہاں کردی ہے ، ان کے لکھے ہوئے اور بھی نغمے ہیں جس کے ہر بند میں کوئی نہ کوئی درس اور سبق چھپا ہوتا ہے بس لوگوں کو سمجھ آنی چاہئے۔
بہر حال ساحرؔلدھیانوی وہ شاعر تھے جن کے گیتوں پر سب سے زیادہ ایوارڈز دیئے گئے تھے، حکومت ہند نے بھی پدم شری ایوارڈ سے نوازا تھا اور روس کی طرف سے بھی ساحرؔلدھیانوی کو ادب کا لینن ایوارڈ دیا گیا تھا۔ ساحرؔکے پاس شہرت ، عزت،عظمت اور دولت کی کمی نہیں تھی صرف کمی تھی تو زندگی میں چین وسکون کی جو صرف عورت کی ذات ہی سے میسر ہوسکتا تھا۔ آخری دنوں میں جب ساحرؔبیمار رہنے لگے تو انہیں بے خوابی کے ساتھ تنہائی بھی بری طرح ستانے لگی تھی ،ان کا مزاج چڑچڑا ہوگیاتھا ، وہ دوستوں سے بھی ملنے کترانے لگے تھے، ساری ساری رات جاگتے رہتے، بستر پر لیٹتے تو نیند ان سے کوسوں دور رہتی اور گھبراکر ساحرؔبستر سے اٹھ بیٹھتے۔ ساحرؔغم دوجہاں کا مارا ہوا انسان تھے ان کی تنہائی آہستہ آہستہ ان کو موت کی منزل کی طرف لے جارہی تھی اور ۲۷؍اکتوبر ۱۹۸۰ء کا دن ان کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا، ساحرؔلدھیانوی دل کا شدیددورہ پڑنے کے بعد جانبر نہ ہوسکے اور اس طرح دنیائے شاعری کا شہزادہ ساحرؔلدھیانوی ان گنت امر گیتوں کا خالق اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے۔
موبائل6291697668