خالد بشیر تلگامی
سال 2210ء
زمین کے پرانے میدان تباہ ہو چکے تھے۔ گلوبل وارمنگ اور جنگوں نے کرکٹ کو ایک خواب بنا دیا تھا مگر انسان اپنی یادوں اور کھیل کے جنون کو مار نہیں سکا۔ اسی لئے دنیا کی بڑی ٹیک کمپنیوں اور خلائی اداروں نے مل کر ’’اسکائی ڈوم‘‘ بنایا۔ آسمان میں ایک شیشے کا گراؤنڈ، جہاں آدھی کشش ثقل زمین کی تھی اور آدھی خاموشی خلا کی۔یہی وہ جگہ تھی جہاں پہلا اسکائی ورلڈ کپ فائنل کھیلا جانا تھا۔تماشائی دو طرح کے تھے۔ آدھے اصلی انسان اور آدھے مصنوعی مخلوق، جنہیں امیر ممالک نے خریدا تھا تاکہ وہ شور، جذبات اور تالیوں کی گونج پیدا کر سکیں۔ اصل انسانوں کے لئے ٹکٹ لینا تقریباً ناممکن تھا۔ صرف وہی جا سکتے تھے جنہوں نے اپنی زندگیاں گروی رکھ دی تھیں۔ باقی دنیا، غریب اور بھوکے عوام، گائوں گائوں اور شہر شہر میں لگے بڑے بڑے اسکرینوں پر یہ میچ دیکھنے کے خواب بن رہی تھی۔مگر یہ کھیل عام نہیں تھا۔ یہاں بیٹ اور بال کے بیچ کا فاصلہ زمین جیسا سیدھا نہیں رہا تھا۔ خلاء کے ہلکے پن نے گیند کو ایک عجیب رفتار دے دی تھی۔ وہ کبھی بجلی کی طرح تیز نکل جاتی، کبھی اچانک رک کر ہوا میں تیرنے لگتی۔ کھلاڑیوں کو صرف ہنر نہیں بلکہ اپنے دماغ میں نصب کردہ نیو نیورل چپس پر بھی انحصار کرنا پڑ رہا تھا۔ ان چپس کے بغیر خلا میں بیٹ اور بال کو پڑھنا ناممکن تھا۔لیکن ایک کھلاڑی مختلف تھا۔ وہ عام پس منظر سے آیا تھا۔ اس کے پاس نہ کوئی نیورل چپ تھی نہ جدید ساز و سامان، صرف ایک پرانا بیٹ اور زمین کے گلی کوچوں کا تجربہ۔ لوگ اسے پاگل کہتے تھے، مگر وہ ہنس کر جواب دیتا۔
“کھیل دل سے ہوتا ہے، دماغ سے نہیں۔”فائنل کا آخری اوور آیا تو مصنوعی کھلاڑیوں کے چپس نے error دینا شروع کر دیا۔ خلا، میں موجود مقناطیسی لہروں نے ان کے سسٹم کو جام کر دیا۔ پورا میدان ساکت ہو گیا۔ دنیا بھر کے لوگ اپنی سانسیں روک کر اسکرینوں پر جھک گئے۔
اس لمحے صرف وہی کھلاڑی باقی تھا۔بغیر چپ والا انسان۔
اس نے گیند کو اپنی آنکھوں، دل اور جذبے سے پڑھا۔ بیٹ گھمایا، اور گیند خلا کے گراؤنڈ سے باہر گونجتی چلی گئی۔پہلا آسمانی ورلڈ کپ انسان نے جیت لیا۔تماشائی چیخ اٹھے۔ مصنوعی ہجوم کی نقلی تالیوں اور اصل انسانوں کے دلوں کی دھڑکنیں ایک ساتھ گونجنے لگیں۔دنیا نے پہلی بار سمجھا”ٹیکنالوجی کمال ہے، مگر دل کے کھیل کو کبھی نہیں ہرا سکتی۔”
قبرستان
چاند کی پہلی بستی ابھی نئی تھی۔ شیشے کے گنبدوں کے اندر سب کچھ مصنوعی تھا۔۔۔ ہوا، پانی، حتیٰ کہ پھولوں کی خوشبو بھی۔
ایک دن ایک حادثہ ہوا۔ ایک مزدور مشین کی زد میں آ گیا۔ لاش زمین پر بھیجنے کی سہولت نہ تھی، سو وہیں ایک گڑھا کھود کر دفنایا گیا۔ یہ چاند کی پہلی قبر تھی۔
سال گزرتے گئے۔ ہر بار کوئی مرتا تو اسی مٹی میں دفن ہوتا۔ سفید قبروں کی قطار بڑھتی گئی۔
بہت برسوں بعد ایک ننھا بچہ اپنے باپ کے ساتھ وہاں آیا۔ اُس نے سفید قبروں کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔
’’ابّا! یہ سب کون ہیں؟‘‘
باپ نے آہ بھری۔۔۔’’یہ وہ لوگ ہیں جو زمین کو چھوڑ آئے…‘‘
ننھا بچہ خاموش ہو گیا۔ کچھ لمحوں کے بعد اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور معصومیت سے جواب دیا۔۔
’’ابّا، مجھے لگا یہاں موت نہیں ہو گی۔‘‘
پٹن بارہمولہ، کشمیر
موبائل نمبر; 9797711122