سید مصطفیٰ احمد
میں خود طالب علم ہونے کے علاوہ دو تین برسوں سے ایک نجی کوچنگ سنٹر میں کام کر رہا ہوں۔خود کی اصلاح کے علاوہ میں نے بہت سارے طلباء کی بھی حتی المکان اصلاح کی ہے۔ اصلاح اس لحاظ سے کہ کسی بھی مضمون کے fundamentals کو سمجھنے کی خود بھی اور بچوں کو بھی سمجھانے اور سکھانے کی کوششیں کی ہیں۔ اس دو طرفہ تعاون سے ہم سب ایک تو علم سے آگاہی حاصل کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہے تو دوسری طرف ہم ایک دوسرے کو سمجھنے میں بہت حد تک کامیاب ہوئے۔ کئی ناہمواریوں کوہم ہموار کر کے ایک خوبصورت کل کی فکر میں جٹ گئے۔ Communication کے خلا ءکو ہم نے بھرنے کی بھرپور کوششیں کیںاور علم کی باریکیوں سے روشناس ہونے لگے۔ لیکن اس سفر کے دوران میں نے طلباء میں بہت ساری بنیادی چیزوں کا فقدان پایاہے۔ جب میں چھوٹا تھا، تو میں بھی اس نائو میں سوار تھا۔ ہم ایک جماعت سے دوسری جماعت میں پہنچ تو جاتے تھے لیکن جن باتوں کا جاننا ایک جماعت میں ضروری تھا، ہم ان سے ناآشنا رہتے تھے۔ اس کےبُرے نتائج آج سامنے آرہے ہیں۔ ریاضی سے لے کر انگریزی تک، میں نے لگ بھگ ہر شاگرد کو سائنس کے بنیادی نکات سے ناآشنا پایا ہے۔Identity اور equation کے درمیان کیا فرق ہوتا ہے بیشتر طلباء بولنے سے قاصر ہیں ۔ Writing skills کے اصولوں پر کیسے عمل کیا جاتا، اس ہنر کو میں نے سرے سے ہی نہیں پایا۔ فزیکس کے بنیادی قوانین جیسے Newton’s Laws of Motion اور Einstein کی تھیوریاں بچوں کے اذہان سے بھاپ بن کر اڑ گئی ہیں۔ اس کے علاوہ سوشل سائنس کے مختلف ادوار کی جانکاری سے یہ معصوم طلباء کوسوں دور ہیں۔ Historical perspectives کسےکہتے ہیں بچوں کی لغت میں ہی نہیں ہے۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے صورتحال کیونکر پیدا ہوئی ہے۔ وہ کونسے وجوہات جو اس سنگین صورتحال کے بنیادی محرک ہیں۔ کچھ وجوہات کا مختصر ذکر آنے والی سطروں میں کیا جارہا ہے۔
پہلا ہے گھریلو نظام۔ جو نظام ہمارے بیشتر گھروں میں رائج ہے، اس میں طلباء کی حقیقی نشوونما نہیں ہوپاتی ہے۔ ہاں!گھر کے کچھ افراد کچھ دیر کے لیے اپنے بچوں کی پڑھائی کی طرف دھیان تو دیتے ہیں مگر اس قسم کا رویہ کسی بھی طریقے سے بچوں کو پڑھائی کے میدان میں عام طور پر اور ہنر سیکھنے میں معاون ثابت نہیں ہوسکتے ہیں۔ کچھ گھنٹوں کے لیے بچوں کو اسکول بھیجنا اور پھر یہ توقع کرنا کہ ہمارا بچے بنیادی باتوں سے واقف ہوں، کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ دوسری وجہ ہے نظام تعلیم۔ ہمارے نظام تعلیم میں آگے دوڑ پیچھے چھوڑ کا طوطی بولتا ہے۔ ایک جماعت کو مکمل کرنے پر ایک طالب علم کو جتنی بنیادی باتیں جاننی چاہیے، وہ کہیں بھی نظر نہیں آتی ہیں۔ ایک سال کے لئے جو نصاب ترتیب دیا جاتا ہے، اس کو مکمل کرنے کی فکر اسکول کے سربراہ سمیت ہر استاد کو ہوتی ہےلیکن اس دوڑ میں طلباء کہیں بھی نہیں دکھائی دیتےہیں۔ syllabi کو مکمل کرنے کی ہر جائز اور ناجائز کوششیں کی جاتی ہیں۔ طلباء کے والدین کو بھی اس نصاب کے جال میں ایسے پھنسایا جاتا ہے کہ وہ اس تعلیم پر انگلی اُٹھانے کی بھی جرأت نہیں کرپاتے ہیں۔ اس طرح ایک طالب علم بنیادی باتوں سے بےخبر رہتا ہے جو اچھی سوغات نہیں ہے۔ تیسری وجہ ہے علم کی ناقدری۔ ہمارے یہاں علم کو پیسوں یا نوکریوں کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔ اگر علم پیسہ کما کے نہیں دے سکتا ہے تو یہ ناقص علم ہے۔ اس کے علاوہ جو علم نوکریاں دینے سے بھی قاصر ہے، وہ علم کہلانے کے لائق بھی نہیں ہے۔ تو اس صورتحال میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک بچہ پڑھائی کے بنیادی اصولوں سے واقف ہو۔ اب بچہ گھر میں بیٹھ کر کیا کرے گا، بہتر ہے کہ اس کا داخلہ کسی نام نہاد اسکول میں کیا جائے اور زندگی کے کچھ سال کو ضائع کرکے پھر گھر کے بوجھ تلے اس کو دبایا جائے۔ اس طرح تعلیم کو پامال کیا جاتا ہے اور اس کی وقعت ختم کی جاتی ہے۔ چوتھی وجہ ہے سائنس اور ٹیکنالوجی کے منفی اثرات۔ انٹرنیٹ کی بدولت خاص کر سوشل میڈیا نے طلباء کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پردے کے پیچھے ہونے والے دُکھ اور سکھ کے ملے جلے تجربات نے بچوں کو پہلے انسانیت سے دور کرنے کی قسمیں کھائی ہیں۔ اس کے علاوہ ان طلباء کی بنیادوں پر کاری ضربیں لگانا اس کا مقصد بن گیا ہے۔ جو بچہ زیادہ تر فون کے ساتھ جڑا رہتا ہے اور ایسی دنیا میں کھویا ہوا ہوتا ہے، جہاں جذبات کی قدر اور نہ انسانیت کی قدر ہو، تو ایسے میں طلباء کا پڑھائی سے دور ہونا سیدھی سی بات ہے۔ تو پھر اس بات کا گلہ کرنا کہ بچوں میں اب بنیادی ہنر کی کمی ہے، کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ہے۔ پانچویں اور آخری وجہ ہے جہالت۔ ہماری جہالت نے ہم سب کو اپنا محاسبہ کرنے سے روکا ہے اور بچے بھی اس کےشکار ہوئے ہیں۔ اگر ہم سب اپنا محاسبہ کرتے اور اپنی گند کو پہچانتے، تو ممکن تھا کہ ہم آنے والی نسلوں کو اس گناہ سے دور رکھتے۔ لیکن ہم نے اپنی جہالت کو اپنا پیشوا بنا کر ہمیشہ تنگ نظری اور سطحی چیزوں کو ہی پتھر کی لکیر سمجھ کر اپنا نقصان کیا ہے۔ ہم کو جو حق لگتا ہے ہم اس کی پوجا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کبھی بھی ہم نے یہ زحمت نہیں کی کہ ہم اس کو تولے اور پھر آگے پہنچائے۔ ہم خود عالم ہو کر بھی جاہل ہی رہے اور آنے والی نسل کو بھی جہالت کا اندھیرا سونپ کر اب بوڑھے شیروں کی طرح لاحاصل لڑائیوں کا حساب کر رہے ہیں۔ چھٹی وجہ ہے حکومت کا غیر ذمہ دارانہ رویہ۔اگر حکومت چاہتی تو وہ ملک میں تعلیم کا انقلاب لاسکتی تھی۔ ملک کی بنیاد کو مضبوط کرنے کی غرض سے تعلیم کو ہی زیادہ فوقیت دیتی۔ اس سے موجودہ اور آنے والے کل کے بچے ایک بالترتیب اور منافع بخش کاموں میں تن و من سے جڑے رہتے، جو ان کی تعلیمی عمارت کی بنیاد کے علاوہ عمارت کی دوسری منزلوں کو بھی مضبوط کرتیں۔
اب اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم بچوں کو بنیادی باتوں سے واقف کرائیں تو ہمیں چاہئے کہ ہم سب اُن کی جائز رہبرِی کریں۔ یہ بھی اپنے آپ میں ایک کامیابی ہے کہ ہم نے بچوں کی خامیوں کو پہچانا ہے۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ طلباء کی خامیوں کی نشاندہی ہی نہیں ہوپاتی ۔ اب اگر خامیاں عیاں ہورہی ہیں، تو ان کو سدھارنے کے لئے ایک holistic approach کی ضرورت ہے۔ گھر سے لے کر تعلیمی اداروں تک ہر ذی شعور انسان کو اس کار خیر میں اپنا تعاون دینا پڑے گا۔ یہ بچےکسی درخت کے شاخ کی مانند ہے، ان کو دھوپ اور ہوا کے تند جھونکوں سے بچانا ہمارا فرض بنتا ہے۔ اس ضمن میں جو چیز سب سے زیادہ کارآمد ہے، وہ ہے کہ بچوں میں کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا کیا جائے۔ مطالعہ کے ان گنت فوائد ہیں، سب سے بڑا فائدہ ہے کہ ایک بچہ بنیادی باتوں سے روشناس ہوتا ہے۔ زبان کے اُتار چڑھاو سے واقف ہوتا ہے۔ کس جملے کو کس انداز میں اور کہاں استعمال کرنا، یہ سکھانا کتابوں کی شان ہے۔ ریاضی کی کتابیں پڑھنے سے ہندسوں کا صحیح استعمال سیکھا جاسکتا ہے۔ بڑے ہندسوں کا جوڑ توڑ اور روزمرہ زندگی میں ان کا استعمال بھی کتابوں کی دین ہے۔ کائنات کس زبان میں بات کرتی ہے، ریاضی کے مضمون سے ہی سمجھی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ انگریزی کی شاہکار کتابوں کا مطالعہ کرکے بچہ وسعت زبان اور وسعت ذہن دونوں سے بہرہ ور ہوگا۔ تعلیمی اداروں میں بھی نصاب سے زیادہ بچوں پر دھیان دیا جائے۔ Rote learning اور parroting سے بہتر ہے کہ بچہ اپنی مرضی کی کتابوں کا انتخاب کریں تاکہ اس میں اپنا لوہا منوائے۔ ایک بچے پر چیزیں تھوپنے سے بہتر ہے کہ بچے خود تعلیمی اداروں میں غور و فکر کا مادہ اپنے اندر پیدا کریں۔ انٹرنیٹ پر موجود سودمند ویب سائٹس کا فائدہ اٹھایا جائے۔ ایسی ویب سائٹس موجود ہیں جو بچوں کی بنیاد کو ٹھیک کرنے میں کارآمد ثابت ہورہی ہے۔ The Hindu اخبار اس کی ایک زندہ تصویر ہے۔ اس اخبار نے بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک علم کے بہت سارے دروازے کھلے ہوئے ہیں، جس سے بچے فیضیاب ہوتےہیں۔ میں نے بھی اپنی غلطیوں کو’ دی ہندو‘ کی بدولت سدھارا ہے۔ سماج کے دوسرے اداروں کو بھی بچوں کی حقیقی نشوونما کرنے میں اپنا رول نبھانا چاہیے۔ یہ ادارے بچوں کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے علاوہ آنے والی کل کو نکھار سکتے ہیں۔ یہ کام کٹھن ہی سہی لیکن بہت سودمند ہے۔ اس لیے مزید وقت ضائع کیے بغیر اس نیک کام میں جُٹ جائیں اور بچوں کے بنیادی نکات پر اپنی ساری توجہ مرکوز کریں۔
(حاجی باغ، بمنہ، سرینگر،رابطہ۔ 9103916455)
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)