اسلام کی ہمہ گیریت اس امر کی متقاضی ہے کہ صرف انسان کے روحانی تقاضوں ہی کی تکمیل نہ کی جائے بلکہ سب سے پہلے اس کی مادی اور دنیاوی احتیاجات و ضروریات کی تکمیل اور ان سب تقاضوں کی فراہمی کا سامان کیا جائے۔ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں اسلام نے قرآن ، حدیث اور شرعی احکام کے ذریعہ اپنے پیروکاروں کو واضح اوروقابل عمل ہدایات نہ دی ہوں ۔ معاشیات کے شعبے میں جو سب سے اہم ترین اور انقلاب آفرین نظام اسلام نے دیا ہے وہ ہے زکوٰۃ۔ اسلام کا نظام زکوٰۃ دولت کے جمود کو ختم کرنے، دولت کو گشت میں رکھنے اور بقائے باہمی کے اصول کا سب سے موثر نظام ہے ۔شرعی حکم ہے کہ مسلم ممالک میں نظام اسلام نافذہواورپھر زکو ٰۃ کے نظام کو سرکاری ادارہ بیت المال چلائے اوربیت المال کے ذریعے اس کی وصولی اورتقسیم ہو۔زکوٰۃ،صدقات ، جزیہ ، خراج کے مال کو ایک مرکز کے ذریعہ منظم کرنے کا طریقہ 1400 سال قبل بیت المال کے ذریعہ اسلام ہی نے پیش کیا ۔آج بھی سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں زکو ٰۃ کی وصولی اور تقسیم سرکاری اداروں کے ذریعہ ہی ہوتی ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں زکو ٰۃ کے ذریعہ سالانہ 60 ؍ارب ریال سے زیادہ رقم وصول ہوتی ہے جب کہ پاکستان میں بھی زکوٰۃ کی وصولی اورتقسیم کاری کاسرکاری انتظام موجودہے لیکن انتہائی ناقص ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں خیرات کا حجم 240 ؍ارب روپے سالانہ سے زائد ہے، جس میں سے 70 فیصد لوگ عمومی طور پر رشتہ داروں، ضرورت مندوں، محتاجوں اور بھکاریوں کو انفرادی سطح پر دیتے ہیں۔ اس خیرات میں سے لگ بھگ 30 فیصد اداروں، تنظیموں اور مدارس تک پہنچتا ہے۔پاکستان کی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی’’نسٹ‘‘کی رپورٹ کے مطابق پنجاب سے 113 ارب روپے، سندھ سے 78، خیبر پختونخوا سے 38 اور بلوچستان سے 10 ارب روپے سالانہ کی خیرات دی جاتی ہے۔ چونکہ پاکستان میںنظام حکومت بدعنوانیوں سے پاک ومنزہ نہیں،اس لئے ملک کے صاحبانِ مال ودولت زکوٰۃ کے حوالے سے اس پر اعتبار نہیں کرتے، اس کے باوجود پاکستان کے بینکوں میںاکائونٹ ہولڈرس کے رقوم پرسالانہ زکوٰۃکی کٹوتی کاایک خودکار نظام موجودہے اس سسٹم کی فعالیت کے باعث رمضان میں حکومت کو زکوٰۃ کی مد سے تقریبا 4 سے 5 ارب روپے موصول ہوتے ہیں۔
اسلام میںزکوٰۃ کے مصارف طے شدہ ہیںجن میں قیامت تک کوئی ردوبدل نہیں ہوسکتی اورقیامت کے دن تک اس میں مستثنیات کی کوئی شق نہیںہے۔ آج دنیا کی جملہ آبادی 7.5بلین ہے اور دنیا کی جملہ آبادی میں ہر پانچواں فرد مسلمان ہے ۔ارکان اسلام میں نماز کے بعد دوسرا اہم ترین رکن زکو ٰۃ ہے۔ قرآن حکیم میں بیاسی (82) مقامات وہ ہیں جہاں نماز اور زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم یکجا وارد ہوا ہے اورزکو ٰۃ کی اہمیت ، فرضیت ،فضیلت فوائد وثمرات کا ذکر موجود ہے اور ادائیگی کی تاکید ی حکم دیا گیا ہے،عدم ادائیگی کی صورت میں نقصانات، وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں۔شریعت مطہرہ میں زکو ٰۃ کی اہمیت کا اندازہ تنہا اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد سر زمین عرب میں کئی فتنے سر اٹھانے لگے جن سے اسلامی ریاست کو نازک ترین صورتِ حال اور بحران کا سامنا کرنا پڑا تو اپنی سنگینی کے اعتبار سے سب سے بڑا چیلنج منکرین زکوٰۃ کا تھا۔ اسلامی تاریخ کے اس انتہائی نازک لمحے میں خلیفہ اول امیرالمومنین سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کمال جرأت ایمانی سے ببانگ ِدہل اعلان کیا کہ جو کوئی نماز اور زکوٰۃمیں کسی قسم کی تفریق اور امتیاز روا رکھے گا میں اس کے خلاف جہاد کروں گا۔ چنانچہ امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منکرین زکوٰۃ کے خلاف کھلم کھلا جہاد کیا اور ان کی تلوار اس وقت تک نیام میں نہ آئی جب تک منکرین زکوٰۃ کی برپا کی ہوئی شورش پوری طرح فرونہ ہوگئی۔ نظامِ صلواہ اور نظامِ زکوٰۃکا قیام اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ ایک سے انسان کی روحانی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی ہے تو دوسرے سے اس کی مادی ضرورتوں کی کفالت کی ضمانت میسر آتی ہے۔ ایک اسلامی معاشرہ افراد کی روحانی اور مادی تقاضوں کی تکمیل کے بعد ہی جنم لیتا ہے جس کے نتیجے میں نیکیوں اور اچھائیوں کو فروغ ملتا ہے اور اس کے اندر پائی جانے والی برائیوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔ اس نکتہ کو ذہن نشین کرنے کے لئے کہ اسلامی نظام کے نفاذ سے اچھائیوں کا فروغ اور برائیوں کا سد باب کس طرح ممکن ہے، یہ بات ذہن میں مستحضر ہونی چاہئے کہ امر بالمعروف کا تعلق نظامِ صلو اہ سے اور نہی عن المنکر، کا تعلق نظام زکو اہ سے ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلام کے روحانی نظام کے نافذ کرنے سے نیکیوں کو فروغ ملتا ہے جب کہ اس کے اقتصادی نظام کا نفاذ برائیوں کو جڑ سے کاٹنے کا موجب بنتا ہے۔ اگر اسلام کا اقتصادی نظام مفقود ہو تو غیر متوازن معیشت کے مضر اثرات پورے معاشرے پر مرتب ہوں گے اور دولت چند ہاتھوں میں سمٹ جانے کی وجہ سے ارتکازِ زر کا رجحان فروغ پذیر ہوگا جس سے معاشرے میں برائیاں جنم لینے لگیں گی اور ایسی راہیں کھل جائیں گی جو فسق و فجور کی زندگی پر منتج ہوں گی۔ بندہ و خالق کے مابین تعلق عبودیت پیدا کر دینا اسلام کا اولین تقاضا ہے جو انسانی زندگی میں روحانی نظام کے نفاذ کو مستلزم ہے، اس لئے کہ جب تک انسانوں کے اندر خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت، للہیت اور اخلاص کی بنا پر تعلق پیدا نہیں ہوگا ،ان میں ایثار و قربانی کی زندگی اپنانے کا محرک (Motive) اور میلانِ طبع ناپید رہے گا۔ روحانیت کا مطمع نظر یہ ہے کہ بندے کا اپنے مولا سے تعلق اتنا پختہ اور محکم ہو جائے کہ اس کی زندگی کا محور اس کی رضا کا حصول بن کر رہ جائے۔ جب یہ مقصد ہمہ وقت بندے کے پیشِ نظر رہے تو پھر وہ اپنی ذہنی تسکین اور مادی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے بے لگام نہیں ہوگا۔ اس کے رگ و پے میں روحانیت کی دوڑتی ہوئی لہر اس کے قدم غلط راستوں کی طرف جانے سے روک دے گی اور رضائے خدا وندی کے تابع ہونے کے بعد وہ اپنی دولت غلط کاموں پر خرچ نہیں کرے گا۔ یہی سبب تھا کہ اسلام نے سب سے پہلے روحانی ضرورتوں کی بات کی اور روحانی تقاضوں کی تکمیل کو اولیت دی تاکہ انسان صحیح معنوں میں انسانیت کے منصب پر فائز ہو جائے اور اس کے پاس دولت کی بہتات کہیں اسے فرعون و قارون کے مقام پر نہ گرا دے۔فرعون و قارون دونوں ایسے بے خدا نظام کے علمبر دار تھے جس کی اساس تعلق باللہ کا فقدان اور مادی دولت و قوت کی کثرت تھی۔
نظام صلواہ و عبادات سے اسلامی معاشرہ روحانی برکات و ثمرات سے متمتع و فیض یاب ہوتا ہے۔ حقوق اللہ جن کے لئے نظامِ صلواہ و عبادات ابتدا بھی ہے اور نقطئہ کمال بھی اسلام کے روحانی نظام کی اساس کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس لئے اسلامی حکومت کی اولین ذمہ داری اس کا نفاذ قرار پایا تاکہ اسلامی معاشرے کی روحانی ضرورتوں کی تکمیل ہو سکے۔ اس کے باوصف چونکہ زکواہ کا تعلق اقتصادیات سے ہے، یہ اسلام کے اقتصادی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایتائے زکواہ کے حکم کے پیچھے یہ فلسفہ کار فرما ہے کہ اسلامی حکومت پورے معاشرے کو ایسا اقتصادی و معاشی نظام، طرزِ زندگی اور سماجی ڈھانچہ مہیا کرے جس سے حرام کمائی کے راستے مسدود ہو جائیں اور رزقِ حلال کے دروازے کھلتے چلے جائیں۔ اس لئے شریعت مطہرہ نے ہر صاحبِ مال پر یہ فریضہ عائد کیا کہ وہ سالانہ بنیادوں پر اپنے جمع شدہ اموال پر اڑھائی فی صد کے حساب سے مال نکال کر اجتماعی طور پر حکومت کے بیت المال میں جمع کرا دے تاکہ وہ اسے معاشرے کے نا دہند (Have Nots)اور محتاج افراد کی ضروریات پوری کرنے پر صرف کر سکے۔ اس شرح سے اگر سب اہل ثروت اور متمول افراد اپنے سال بھر کے اندوختہ و زر و مال سے اپنا اپنا حصہ نکالتے رہیں تو اس طرح نہ صرف ان کی کمائی حلال اور ان کا مال و متاع آلائشوں سے پاک و صاف ہو جائے گا بلکہ معاشرے میں پائی جانے والی معاشی ناہمواریاں بھی از خود دور ہوتی رہیں گی۔ اگر یہ سوچ افرادِ معاشرہ کے قلوب و اذہان میں جاگزیں ہو جائے تو پوری زندگی میں حلال و حرام کی حدیں متعین ہو جائیں گی اور اجتماعی حیات کے احوال و معاملات سنور جائیں گے۔واضح رہے کہ لفظ زکواہ کا لغوی معنی اور مفہوم پاکیزگی اور اضافہ ،بڑھوتری ہے۔زکواہ کے مفہوم پاکیزگی سے مراد اس مالی عبادت سے انسان کامال اسکے لیئے حلال اور پاک بنتا ہے۔اور نفس بھی برائیوں ،گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔اسی طرح زکو اہ کے مفہوم اضافہ اور بڑھوتری سے مراد زکو اداکرنے کی برکت سے مال میں اور انسانی اعمال نامہ میں اجر وثواب میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
یہ بات ذہن میں مستحضر رہے کہ فی نفسہ مال و دولت میں کوئی برائی نہیں اور امیر و غریب ہونا بذات خود کوئی شرف و فضیلت یا تحقیر کی بات نہیں۔ یہ مال و دولت کا استعمال یا عدم استعمال ہے جو اس کی قدر و قیمت اور اہمیت و معنویت کو متعین کرتا ہے۔ اس کی مثال پانی کی سی ہے جو اگر کسی جگہ جمع ہو کر دیر تک کھڑا رہے اور اس کے نکاس کا کوئی اہتمام و بندوبست نہ ہو تو اس میں تعفن پیدا ہو جاتا ہے۔ اس طرح وہ پانی جو صاف و شفاف ہونے کی صورت میں انسان کے لیے حیات بخش اور صحت افزا تھا متعفن ہونے کی وجہ سے بیماری کا گھر اور موت کا سامان بن جاتا ہے۔ پانی کو صاف و شفاف اور تعفن سے پاک رکھنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ وہ ایک جگہ زیادہ دیر جمع نہ ہو اور اس کے نکاس کا خاطر خواہ بندوبست ہوتا رہے۔ اس اعتبار سے زکواہ، مال و دولت اور سرمائے کے لئے گردش اور نکاس کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ وہ نظام ہے جو زر و مال کو ایک جگہ بغیر خرچ کیے جمع رہنے سے باز رکھتا ہے۔ اس طرح سال میں ایک بار ادا کی ہوئی زکواہ، مال و دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز نہیں ہونے دیتی اور اس گردشِ زر سے سرمائے کا چشمہ صافی تکدر آشنا نہیں ہونے پاتا۔اس لحاظ سے زکو اہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے وہ میل کچیل ہے جسے نکال دیا جائے تو دولت آلودگی سے پاک و صاف ہو جاتی ہے۔
زکوٰۃ صاحب ِنصاب مسلمان پر سال میں ایک بار ادا کرنا فر ض ہے۔ قرآن وحدیث کے دلائل کی روشنی میں زکواہ سونے، چاندی، مال تجارت، زمین کی پیداوار ، شہد کی پیدا وار، رکاز ،معدنیات، مویشی، ان اشیا پر نصاب کی ادائیگی سال میں ایک بار فرض ہے۔ اور نصاب کے حوالے سے مکمل صر احت موجود ہے۔ سنن ابن ماجہ کی رویت کے مطابق زکو ٰۃ کا نصاب ساڑھے سات تولے یا 87 گرام کی مقدار میں ، جب کہ چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولے یا 612 گرام بنتا ہے۔ زکو ٰۃ کی شرح بہ لحاظ وزن ، بہ لحاظ قیمت اڑھائی فیصد متفقہ ہے۔ سنن دار قطنی کی روایت کے مطابق سال کے آخر میں مال تجارت مع نفع کی قیمت لگا کر زکو ٰۃادا کرنی چاہئے۔ سنن نسائی میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق زمین کی پیداوار کے کے لیئے زکواہ کا نصاب پانچ وسق یعنی 725 کلو گرام ہے۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق قدرتی وسائل سے سیراب زمین کی پیداوار پر شرح زکوٰۃ دسواں حصہ’’عشر ‘‘ہے جب کہ مصنوعی ذرائع کنواں، ٹیوب ویل سے سیراب زمین پر شرح نصف عشر یعنی بیسواں حصہ ہے۔جانوروں کی زکوٰۃ کی بھی مختلف احادیث میں تعداد اور نصاب کے لحاظ سے متعین کر دی گئی ہے۔ جامع ترمذی کے حوالہ سے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق60 سے زائد گائے ہوں تو ہر 30 کے اضافے پر ایک سال کا بچھڑا یا بچھڑی اور چالیس کے اضافے پر دو سال کا بچھڑا یا بچھڑی زکو اہ ہے۔ اس ضمن میں سنن ابی داود میں حضرت بہز بن حکم کی روایت کے مطابق شرح نصاب کے وقت وسائل کو مد نظر رکھا جائے گا آیا وہ قدرتی وسائل پر گزارہ کر رہے ہیں یا پھر مالک کے ، مگر اس کے با وجود تجارتی مقصد اور تجارتی نقطہ نظر کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے گا آیا ذاتی استعمال کی غرض تھی یا ذاتی استعمال۔صحیح بخاری میں سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی رویت کے مطابق ذاتی استعمال کی اشیا ء مثلا ذاتی مکان کی تعمیر کا پلاٹ، سواری، فرنیچر، حفاظتی ہتھیار، ذاتی استعمال کے مویشی ان پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ چونکہ زکوٰۃ کاموضوع جتنااہم اوروسیع ہے اسی لحاظ سے اس پرخامہ فرسائی کا حق ایک اخباری کالم میں ادا نہیں ہوسکتا۔
المختصر!زکوٰۃایک مضبوط و مستحکم اور قابل عمل معاشی نظام سے مربوط عبادت ہے جو جس معاشرے میں مروج ہو وہاں کے معاشی استحکام اور مادی فوائد کی خدائی ضمانت ہے جوکہ اشتراکیت،سرمایہ دارانہ نظام،سودی نظام کے برعکس اور ان کے مقابلے میں کشادہ،مثالی معاشی نظام کی بنیاد ہے ۔زکوٰۃ کی ادائیگی سے غربت دوراورمعاشرے کے معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں اور پیشہ ورانہ گداگری کی لغت کا خاتمہ یقینی ہو سکتا ہے۔عصرحاضرمیں جن مسلمان ممالک اورمسلم ریاستوں میں غربت کے دلدوز مناظردیکھے جارہے ہیں اورمسلمانوںکومعاشی تنگی درپیش ہے ،اس کا سبب بھی زکوٰۃ،صدقات اورانفاق فی سبیل للہ سے انحراف ہے۔ صحیح الترغیب طبرانی کی روایت کے مطابق زکو ٰۃ کی عدم ادائیگی قحط سالی کاسبب اور ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔زکوٰۃ مستحقین غریبوں، ناداروں، مفلسوں، مقروضوں، تنگ دستوں کا حق ہے زکوٰۃ کی عدم ادائیگی گویا حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی بھی تلفی ہے۔ حقوق العباد میں زیادتی اللہ کی عدالت میں ناقابل معافی جرم ہے۔ واضح رہے کہ زکوٰۃ سال بھر میں کسی بھی وقت دی جا سکتی ہے مگر آج کل رمضان المبارک میں بالخصوص آخری عشرے میں اس کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے جو کہ مستحسن امر ہے کیونکہ رمضان میں اجر وثواب کئی گنا زیادہ ملتا ہے اور غریب لوگ بھی اس عمل سے عید کی خوشیوں میں برابر شریک ہوسکتے ہیں۔