فرحان بارہ بنکوی
خدائے عز و جل نے جب انسانوں کی تخلیق کی تو نسلِ انسانی میں ہر طرح کے لوگوں وجود بخشا اور ان کو بیش بہا نعمتوں سے نواز کر ان کو اپنی عبادات کا پابند کیا اور ان کے اوپر کچھ فرائض عائد کیے۔ شریعت مطہرہ نے ایک مومن کو جہاں نماز و روزے کا مکلف بنایا ہے تو وہیں زکوٰۃ کی بھی ادائیگی کا پابند کیا ہے۔
ایک صاحبِ نصاب مسلمان کے اوپر زکوٰۃ فرض ہے۔ شریعت اسلامیہ نے مال میں زکوۃ کی فرضیت کے لئے ایک نصاب مقرر کیا ہے، جس میں چاندی کا نصاب شریعت اسلامیہ نے دو سو درہم چاندی مقرر کی ہے، جس کی قدیم مقدار ساڑھے 52 تولہ چاندی اور مروجہ اوزان کے اعتبار سے 612 گرام چاندی ہے اور سونے کی شرعی مقدار حدیث کی رو سے اور ملک عرب کے رواج کے مطابق بیس دینار مقرر کیے گئے تھے، جس کا وزن ملک ہند میں قدیم اوزان کے اعتبار سے ساڑھے سات تولہ بنتا تھا، مگر فی زمانہ مروجہ اوزان کے اعتبار سے 87.5 گرام طے پایا ہے۔
جس شخص کے پاس صرف چاندی کا نصاب ہو یا صرف سونے کا نصاب ہو اور دوسری جنس یا نقدی وغیرہ نہ ہو تو اس شخص کے لئےاسی جنس کے نصاب کا اعتبار ہوگا، لیکن اگر دوسری جنس کا کچھ حصہ بھی موجود ہوگا تو پھر چاندی کے نصاب کا اعتبار ہوگا اور 612 گرام چاندی کی قیمت کی مالیت ہونے کی صورت وہ شخص صاحبِ نصاب تسلیم کیا جائے گا اور انفع للفقرا کا خیال کرتے ہوئے چاندی کے نصاب کے اعتبار سے زکوۃ ادا کی جائے گی۔
جو شخص شریعتِ مطہرہ کی نظر میں اور اس کے مقرر کردہ پیمانے کے مطابق صاحبِ نصاب قرار پایا تو ایسے شخص کے اوپر نصاب کے مالک ہونے کے سال گزرنے کے بعد زکوۃ فرض ہوگی اور سال کے مکمل ہونے کے دن جس قدر مال و دولت اس شخص کے پاس موجود ہوگی، اس کا چالیسواں حصہ یعنی کل مال کا ڈھائی فیصد غربا و مساکین پر خرچ کرنا فرض ہے۔
زکوٰۃ کی ادائیگی کے سلسلے میں اس وقت امتِ مسلمہ عدمِ توجہی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور ادائیگئ زکوۃ کے نام پر کل زکوۃ کا عشرِ عشیر بھی ادا نہیں کر رہی ہے۔
جو شخص زکوٰۃ کی فرضیت کے بعد زکوۃ کی ادائیگی میں کوتاہی اور بے توجہی برتتا ہے، اس کے لیے دنیا و آخرت کی سخت وعیدیں اور عظیم خسارہ ہے۔ نبی آخر الزماںؐ نے فرمایا: ’’جب زکوٰۃ کا مال کسی درست اور پاک مال کے ساتھ رل مل جاتا ہے تو وہ اپنے ساتھ اس کو بھی ہلاک کر دیتا ہے۔‘‘ (مشکوۃ شریف: باب الزکوۃ)
نیز کرۂ ارض پر بسنے والے غریب و نادار مسلمان بھوک و پیاس اور بے سر و سامانی کے عالم میں زندگی بسر کرتے ہیں اور اسی غربت و افلاس سے تنگ آ کر چند ٹکوں کے عوض اپنی عزت و آبرو نیلام، اور اپنے ایمان کا سودا کر ڈالتے ہیں۔ یہ دنیاوی نقصان ہماری کوتاہی کی بنا پر ظہور پذیر ہوتے ہیں۔
اسی کے ساتھ قرآن حکیم نے اخروی خسران کو ان الفاظ میں میں بیان کیا ہے کہ: ترجمہ ’’اور جو لوگ سونے چاندی کو جمع کر کرکے رکھتے ہیں، اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، ان کو ایک دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔‘‘(سورہ توبہ: 34)
ساتھ ہی قرآن حکیم کی سورۂ حمزہ میں مال کو جمع کرکے رکھنے والوں کی سرزنش کی گئی ہے اور پوری سورہ کا خلاصہ یہ ہے کہ: ’’ہلاکت و بربادی ہے۔ ایسے شخص کے لیے کہ جس نے مال جمع کرکے رکھا ہے، اور اس مال و متاع کو شمار کرتا رہتا ہو۔ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس کا مال و منال اسے زندۂ و جاوید کر دے گا۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا، بلکہ یہ اس کو سلگتی ہوئی آگ کے سپرد کر دیا جائے گا۔‘‘ (خلاصۂ سورۂ حمزہ)
ایک حدیث میں اس منظر کو بیان کیا گیا کہ جس میں زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کے ساتھ پیش آنے والے حالات کا ذکر ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے، حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اللہ تبارک و تعالیٰ جس شخص کو مال عطا فرمائے اور پھر وہ شخص اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو روزِ قیامت اس کے مال کو گنجے اژدھا کی صورت میں بنا دیا جائے گا، اس کی آنکھوں پر دو نقطے ہوں گے، اس کو اس کے گلے کا ہار بنا دیا جائے گا، پھر وہ اسے جبڑوں سے پکڑ کر کہے گا: میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔‘‘
کیا ہمارے دِل اس قدر سخت اور ہمارا ایمان اس قدر کمزور ہو چکا ہے کہ دردناک عذاب اور روح فرسا وعیدیں، ایک فرض کی ادائیگی کی طرف رُخ نہ موڑ سکیں اور ہم ایک فرض کی ادائیگی کی تقصیر میں اس قدر نڈر و بیباک ہو جائیں کہ ہمیںجہنم کی آگ کا بھی خوف نہ ہو؟
[email protected]