ظفر محی الدین
ماحولیات کیا ہے؟قدرتی ماحول جس میں ہم سب زندہ ہیں۔ حیوان، پودے، چرند پرند، آبی حیاتیات اور تمام حشرات الارض زندہ رہتے ہیں اور اپنے اپنے خطوں کی بارش ،سردی، گرمی ،طوفان سب برداشت کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں قدرتی طور پر جو بھی ماحول ہوتا ہے وہ ماحولیات میں شمار ہوتا ہے۔ یہی قدرتی ماحول ہمیں زندہ رکھتا ہے خوراک مہیا کرتا ہے۔EnvioronMent فرانسیسی زبان کا لفظ ہے تمام زمینی حیات موسمی، تبدیلیاں، ہوا پانی فضا زمین سب اس زمرے میں شامل ہیں۔ زمین کی سب سے اوپری سطح اوزون کہلاتی ہے۔ یہ ایک فضائی غلاف ہے جو زمین کو سورج کی الٹراوائیلنٹ شعاعوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ سورج سے تابکاری شعاعیں خارج ہوتی ہیں جو زمین اور تمام حیاتیات کے لئے مضر ہے۔
بیسویں صدی کے چھٹے عشرے میں آسٹریلیا کے ساحلوں پر دھوپ سیکنے والے یاسن باتھ لینے والوں میں ایک بارہ سالہ بچی کی کمر کے قریب ایک پھنسی ابھرآئی،کسی نے خاص توجہ نہ دی چند روز بعد وہ مزید بڑی ہوئی اور اس میں درد شروع ہوا، تب ڈاکٹروں نے اس کا معائنہ کیا تومعلوم ہوا کہ پھنسی اندر گھٹلی بن چکی جس سے تکلیف بڑھ رہی ہے۔ بچی کا آپریشن ہوا گٹھلی نکال دی گئی۔ اس پر تحقیق شروع ہوئی پورے ایک سال بعد کی تحقیق و تفتیش کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ یہ پھنسی الٹرا وائیلنٹ شعاعوں کی وجہ سے ہوئی ۔ فضائی تحقیق سے یہ انکشاف بھی ہواکہ اوزون کے غلاف میں چھوٹا سا سوراخ ہوگیا ہے ،جس سے نکلی یہ شعاعیں بچی پر اثرانداز ہوئیں۔ اس انکشاف کے بعد سائنس دانوں اور ماہرین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ ماحولیات سمیت دیگر ممالک سائنس دان بھی سرجوڑ کر بیٹھ گئے۔ اوزون کے سوراخ پر مسلسل نظررکھی جاتی رہی مگر وہ آہستگی سے اپنا حجم بڑھا رہا تھا۔ مکمل تحقیق کے بعد یہ تشویشناک حقیقت سامنے آئی کہ زمین پر بہت تیزی سے پھیلتی آلودگی کی وجہ سے اوزون میںسوراخ پیداہوا تب اس سوراخ کو بند کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں۔اب مسئلہ یہ ہے کہ گزری بیسویں صدی کے نصف کے بعد دنیا جان گئی ہے کہ زمین پر جو موسمی تغیرات کا سلسلہ چل پڑا ہے درحقیقت اس میں انسانوں کا خود سب سے بڑا حصہ ہے۔ زمین پر پھیلتی آلودگی ،زمین ،فضا ،سمندر ہر جگہ اپنا منفی اثردکھا رہی ہے۔ درحقیقت قدرتی آفات کوئلہ پر تیل اور گیس کے بڑھتے استعمال اورکارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والا کثیف دھواں، ہزاروں گیلن آلودہ پانی اور ہزاروں ٹن کوڑا کرکٹ روز سمندروں میں بہایا جاتا ہے جن کی وجہ ہسے زمین ،پانی اور ہوا آلودہ ہو رہی ہیں ،وبائی امراض پھیل رہے ہیں۔
اب موسمی تبدیلیوں کی صورتحال یہ ہو چکی ہے کہیں طوفانی بارشیں، ہوائی طوفان، شدید برفباری کہیں گرمی میں شدت تو کہیں سیلاب ،دوسرے لفظوں میں قدرتی ماحول اور موسمی صورتحال سب کچھ تتر بتر ہو کر رہ گیا ہے۔ گزشتہ سال شدید طوفانی بارشوں نے تھالی لینڈ کے ایک بڑے شہر کو اجاڑ کر رکھ دیا۔ امریکی ریاست فلوریڈا ایک طرح سے مکمل کھنڈر بن چکا۔بارشوں اور سمندری طوفانوں نے کیوبا تا کیریبین جزائر تک شدید ترین نقصان پہنچائے اور ڈیڑھ سو افراد ہلاک ہوگئے۔پاکستان کے شمالی خطوں میں موسلا دھار بارشوں شدید طوفانی ہوائوں نے تین کروڑ سے زائد افراد کے گھر ڈھا دیئے، کھڑی فصلیں تباہ کردیں اورکئی ماہ تک لاکھوں ہیکٹر ایکڑ زمین پانچ چھ فٹ پانی بھرا رہا۔ بھارت کے بھی شمالی علاقوں کا برا حال ہوا۔ لوگوں کو بارشوں اور سیلاب سے بڑے بڑے نقصانات برداشت کرنے پڑے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان اناج کی پیداوار کو ہوا۔ کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں۔ زرعی زمین پانچ پانچ فٹ پانی کھڑا رہا،ایسے میں کا شتکار کیا کر سکتا ہے۔ ادارہ عالمی خوراک کو تشویش اس پر ہے کہ لوگ اسٹاک اناج استعمال کررہے ہیں جو تیزی سے ختم ہو رہا ہے جبکہ مزید اسٹاک میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ ایسے میں آئندہ دو تین برسوں میں خوراک میں کمی اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
دنیا میں کچھ سائنس دان اور ماہرین یہ کہتے ہیں کہ ماحولیات میں بگاڑ اور موسمی تبدیلیوں کا شور برپا ہے یہ محض چند سائنس دانوں اور ان کے حاشیہ بردار ماہرین کا ڈرامہ ہے، تاکہ اس طرح کروڑوں ڈالر جمع کر سکیں دوچار کانفرنسیں کریں نام بھی اور دام بھی پیدا کر سکیں، جبکہ ان عناصر کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ دنیا میں صدیوں سے ہوتا رہا ہے۔ دریافت تاریخ میں دریائے نیل کے سیلابوں نے مصر اور دیگر ممالک کی زندگیاں اجیرن کر رکھی تھیں۔ روما اسمارٹا ،سوسووشیما اور گنگا کی وادیوں میں بڑے بڑے سیلاب ، زلزلے آتے رہے، وبائی امراض پھیلتے رہے۔ کم و بیش یہی صورتحال ماضی بعید میں بھی تھی ،کچھ نیا نہیں ہو رہا ،یہ محض واویلا ہے، دنیا وہی ہے جو لاکھوں برسوں سے ہے۔
کرئہ ارض کے حوالے سے جیسا اوپر بیان کیا گیا اوزون میں سوراخ ہونے کے نتیجے میں زمین گلوبل وارمنگ اور موسمی تغیرات کے مسئلے سے دوچار ہوئی۔ اس حوالے سے یہ کہنا کہ محض واویلا اور پیسہ بٹورنے کا کھیل ہے قطعی غلط ہے۔ قدرتی ماحول متاثر ہو رہا ہے۔ موسمی تبدیلیاں عمل میں آرہی ہیں۔ آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔اس لئے دنیا کے ہوش مند، سنجیدہ ماہرین اور سائنس دانوں کوکرئہ ارض کے قدرتی ماحول میں سدھار لانے ،آلودگی کو کم سے کم کرنے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ انسانیت کی بقاء کیلئے جنگ لڑنا ہوگی۔ ہمیں اختلاف رائے رکھنے والوں کو قطعی نظرانداز کرنا ہوگا۔
کرئہ ارض کے تحفظ کے عنوان سے پہلی عالمی سربراہی کانفرنس 1982ء میں برازیل میں منعقد ہوئی۔ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام بڑی کانفرنس دسمبر 1988ء میں، نیویارک میں 1997ء میں اور۔2002ء میں جوہانسبرگ میں ماحولیات میں سدھار پر کانفرنس منعقد ہوئی۔ بعدازاں نومبر 2015ء میں پیرس میں دنیا کے تمام سربراہوں کی کانفرنس منعقد ہوئی اس میں پیرس معاہدہ پر تمام سربراہوں نے دستخط کئے تھے۔ اس معاہدہ سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے علیحدگی اختیار کرکے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا، تاہم یہ ڈونلڈ ٹرمپ کا محض پبلسٹی اسسٹنٹ تھا۔امریکی صدر جوبائیڈن نے دوبارہ امریکہ کو معاہدہ میں شریک کردیا۔ دنیا علامتی طور پر لیفٹ لبرل اور رائٹ قدامت پسندوں کے گروہ عالمی سیاست میں سرگرم ہیں۔ ان میں رائٹ ونگ کے اکثر رہنما ماحولیات کے موضوع پر اپنے شک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں اور اکثریت ان کے خیالات کی مذمت کرتی رہی ہے۔ تمام دنیا کو اب یہ بات تسلیم کرلینا چاہئے کہ قدرتی ماحول اور موسمی حالات میں زبردست بگاڑ ہوچکا ہے ۔ ہر فرد کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ دنیا کو آلودگی سے محفوظ بنانے میں اپنا کردار ادا کرے ،یہ زمین اورانسانیت کی بقاء کا مسئلہ ہے۔
نومبر 2022ء میں مصر کے شہر شرم الشیخ میں عالمی سربراہوں کی کانفرنس ہوئی۔ اس دو روزہ کانفرنس میں ماہرین نے مقالات اور جائزہ رپورٹس پیش کیں وہ انتہائی تشویشناک تھیں ۔کانفرنس میں فرانس کے سائنس دانوں نے خلاء سے اتاری گئیں تصاویر پیش کیں جس میں دکھایا گیا ہے کہ چار سال قبل اتاری تصاویر اور حالیہ تصاویر میں بہت زیادہ فرق ہے، کبھی ہری بھری زمین اب بیش تر جگہوں پر خشک سالی کا شکار نظر آرہی ہے۔ ان تصاویر نے دنیا کو حیرت اور شدید خوف میں مبتلا کر دیا ہے ۔ سائنس دانوں کا خیال ہے ،جو سبزہ اب نظر آرہا ہے، سال 2050 تک شاید یہ بھی نہ رہے۔ اس تشویشناک صورتحال میں انسان کرئہ ارض کے تحفظ کے لئے جو بھی کر سکتا ہے کر ڈالے۔
ماہرین نے گلوبل وارمنگ اور موسمی تغیرات کو عالمی دہشت گردی سے کہیں زیادہ خطرناک قرار دیا ہے۔ یہ پوری انسانیت کا سنگین مسئلہ ہے۔ دراصل دنیا کی آبادی میں بے ہنگم اضافہ کی بدولت دنیا گوناگوں مسائل کا شکار ہوتی جا رہی ہے،اس وقت دنیا کی آبادی آٹھ ارب تیس کروڑ ہے ،خیال ہے اس صدی میں نو ارب سے زیادہ بڑھ سکتی ہے ،ایسے میں ماحولیات کو بہتر بنانے کی کوششیں عبث ہو جائیں گی ،آبادی میں اضافے کے حوالے سے پہلی بار 1954 سے سال 2022ء تک ماحولیات کے موضوع پر ستائیس کانفرنسیں منعقد ہو چکی ہیں مگر نتیجہ لاحاصل۔ (جاری)