قیصر محمودعراقی
اخلاق کا ایک آسان معنی یہ ہوتا ہے کہ جو توڑے اسے جوڑنا ، جو سلام نہ کرے اسے سلام کرنا، جو غیبت کرے اس کی تعریف کرنا، جو گالی دے اس کو دعا دینا اور جو برا کرے اس کا اچھا چاہنا ہوتا ہے۔ لیکن یہ باتیںآج کے دور میں محض زبان تک محدود ہیں، کوئی بھی عملی طور پر کرنے والا نظر نہیں آتا، ہر کوئی اس طرح کے آداب کو اپنی روزمرہ زندگی میںمعمول بنانے سے قاصر ہیں۔ غلط افعال میں حصہ لینے اور ان کو بجا لانے میںہر کوئی ہاں میں ہاں ملاتا ہے لیکن اچھے کام کرنے میں ہر کسی کو آڑ ، سستی اور شرم محسوس ہوتی ہے۔ یہ اچھے اخلاق کا پیکر ہرگز نہیںکہ آپ برائی میں دلچسپی رکھیں اور اچھے کاموں کو نظرانداز کریں۔ ہم اخلاق کو محض سلام دعا ، میٹھی بول اور معاشرے تک محدود سمجھتے ہیںلیکن اخلاق کا کردار نہ صرف معاشرے میں بلکہ پورے ملک میں اور ملک کے ہر ادارے میں لاگوں ہوتے ہیں، اخلاق بہت وسیع معنوں میںاستعمال ہوتے ہیںاور اس کے معنوں کو سمجھتے ہوئے ہمیں معاشرے میں عدل وانصاف اور ملک کے ہر اداروں کو اپنا کام خوش اسلوبی سے کرنا لازم ہے۔ تاہم ایک اچھے اخلاق یہ نہیں کہ باہر کے لوگ آپ سے خوش ہیںبلکہ اچھے اخلاق تو یہ ہیں کہ آپ سے اپنے گھر والے کتنا خوش ہیں، جب تک آپ اپنے اندورونی معاملات اور گھر میں اپنے رویوں کو درست نہیں رکھیں گے ، آپ کا ظاہری اخلاق ایک اچھے اخلاق میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔دورِ حاضر میں اگر ہم معاشرے میں کسی کے گھریلومعاملات پر نظر رکھیں تو اکثر گھروں میں ہمیں ناچاقی اور بدامنی ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ کسی کا باپ سے جھگڑا، تو کسی کا اپنے بھائی سے لڑائی، کسی کا ماں سے بدزبانی تو کوئی اپنی بہنوں سے منھ موڑے ہوئے ہیںاور میاں بیوی کے جھگڑے ، بدکلامی اور غلط فہمیاں تو ہمیں ہر گھر میں دیکھنے کو ملتی ہیں، ہر خاندان میں بے سکونی اور نااتفاقی ہی نظر آتی ہے جبکہ ایک اچھے اخلاق کا پہلویہ ہر گز نہیں کہ آپ زبان اور مسکراہٹوں سے لوگوں کا دل جیت لیں بلکہ ہر وہ پہلوجس سے ہم اپنے ربّ کو راضی کرسکیں اور معاشرے میں امن پیدا کرسکیں، یہ سارا کاسارا پہلو ہمیں اخلاقی طور پر اختیار کرنا ہمارے لئے ضروری ہے ۔ لیکن آپ کے افعال جن سے آپ کے گھر والے خوش نہ ہوںتو اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ آپ سے کیسے راضی ہوگا؟ ہمیں اس بات ضرور آگا رہنا ہے کہ ربّ کی رضا اور اپنے حسن واخلاق میں نکھار پیدا کرنے کیلئے ہمیں گھریلومعاملات میں درستگی اور اچھے اخلاق سے کام لینا لازمی ہے، کیونکہ اخلاق ایک ایسی چیز ہے جس کی قیمت نہیں دینی پڑتی مگر اس سے ہر چیز کو خریدا جاسکتا ہے، اس لئے اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں ہر وہ چھوٹے بڑے کام میں پہل کرنا چاہئے جسے معاشرے کے لوگ پسند کریں، جو ایک اچھے اخلاق میں شامل ہوتا ہو۔
کسی سے سلام کرنا اور کسی کا حال چال پوچھنا ادب میں شمار ہوتا ہے اور یہ فعل عمل میں لانا سب سے آسان کام ہے، اگر آپ اس ادب کو روزمرہ کا معمول بنالیںتو یہ آپ کے اچھے اخلاق نمایاں کرتا ہے۔ حضوراکرمؐنے فرمایا:لوگو!میں ایک ایسا عمل بتاتا ہوں جس میں بدن بھی نہیں تھکتا اور ہے بھی بڑا آسان اور فرما یا کہ وہ عمل خاموشی اور اخلاق ہیں۔ خاموشی ایک ایسی شئے ہے جو ہر اچھے اخلاق والے کا زیور ہوتا ہے، کیونکہ زیادہ بولنے والا جھوٹ ، غیبت ، گالم گلوچ اور دل آزاری جیسے گناہوں میں مبتلا رہتے ہیں‘‘۔ آج ہمارے معاشرے کے ہر چھوٹے بڑے افراد کاتکیہ کلام ہی گالم گلوچ بن چکا ہے، آپ بدزبانی کئے بغیر بھی کسی دوسرے کو اپنا پیغام سمجھا سکتے ہیںلیکن آپ ایسا نہیں کرتے جو کہ کسی بندے کے برے اخلاق کو ثابت کرتا ہے، اس لئے زیادہ بولنے سے بہتر ہے کہ خاموش رہیں کیونکہ خاموشی میں ثواب بھی ہے اور نجات بھی ہے۔زبان پر قابورکھنا ہی ایک اچھے اخلاق کی نشانی ہے۔ اس لئے ہمیشہ اخلاق سے بات کیا کریں کیونکہ انسان پر سب سے زیادہ مصیبتیں اس زبان کی وجہ سے آتی ہیں۔ ایک اچھے اخلاق کی نشانی یہ بھی ہے کہ آپ حرام سے دور بھاگیں اور حلال کی طلب کریں، لیکن عصر حاضرمیں اکثریت ہمیں حرام کی لت میں نظر آتے ہیں، لوگ دولت بنانے کی فکر میں حرام اور حلال کو بھول رہے ہیں، لوگ یہ نہیں دیکھ رہے کہ وہ کیسے کمارہے ہیں بس یہ دیکھتے ہیں کہ کتنا کمارہے ہیں۔ حالانکہ انسان کی عزت اس کی اچھے اخلاق سے ہوتی ہے دولت سے نہیں۔
دورِ حاضر میں یہ بات محض دکھاوے تک محدود نظر آتے ہیں کیونکہ لوگ مجمع میں فرشتہ صفت اور نجی معاملات میں اس کی افعال شیطانی اوصاف سے بھی بدتر ہوتے ہیںاور یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جن کی بدولت معاشرے میں بدامنی ، بے سکونی اور ناچاقی جیسے افعال جنم لیتے ہیں۔ دورِ حاضر کے نفسا نفسی کے عالم میں لوگ آپ سے تب تک تعلق نہیں جوڑتے جب تک آپ سے اخلاق نہیں ملتے، جب تک ان کو آپ میں اپنی مفاد کی چیز نظر نہ آئیں اس لئے اگر کوئی شخص آپ سے معمول سے ہٹ کر ملنے لگے تو آپ کی ذہن میں یہ بات ضرور ہونا چاہئے کہ وہ شخص آپ کو اپنی مفاد کی خاطر استعمال کرنے والا ہے، ایسے مفاد پرست لوگوں سے دور ہی رہیں کیونکہ جس کا اخلاق اچھا ہوگا وہ کسی کو استعمال میں لائے بغیر بھی اپنا کام خوش اسلوبی اور آسانی سے نکال سکتا ہے۔ الغرض انسان کی اصل اس کی اخلاق سے منعقد ہوتی ہے کیونکہ جب اس میں اخلاق ہی نہ ہو تو وہ پھر انسان کیسا ؟ اس لئے ہمیں چاہئے کہ اخلاقیات کو اپنی زندگی کا شیوہ بنائیں کیونکہ ایک معاشرہ تب ہی خوشحالی و ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا جب معاشرے کے افراد اچھے اخلاق کے حامل ہوںگے۔
رابطہ۔6291697668