جموں میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر کشیدگی پیدا کرکے پُر امن حالات کو خراب کرنے کےلئے دائیں بازو کے انتہا پسند ہمیشہ اپنی آستنیں چڑھائے رہتے ہیں اور جب سےملک میں گا ؤرکھشا کے نام پر سیاست فروغ پانے لگی انکے حوصلے مزید بلند ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں ریا سی کے ضلع صدر مقام سے چند کلو میٹر دوری پر واقع تلواڑا علاقے میں ایک بکروال کنبے پر حملہ کرکےنہ صرف اُن کی شدید مار پیٹ کرکے ان کے مال مویشی چھین لئے گئےبلکہ ان بے رحم غنڈہ عناصر نے کمسن بچوںتک کو نہیں بخشا اور ایک 9سالہ معصوم بچی کی بھی شدید مار پیٹ کرکے اُسے زخمی کر دیا ۔ اس واقعہ میں کل ملا کرچھ افراد زخمی ہوئے ۔ملک کی مختلف ریاستوں خاص طور پر اتر پردیش اور راجستھان میں گائورکھشاکے نام پر اس طرح کی غنڈہ گردی کا سلسلہ کافی وقت سے جاری ہے،جس میں حالیہ ایام کے دوران ایک شخص کی موت بھی واقع ہوئی۔ اب یہ وبا کُھلے عام ریاست کے اندر داخل ہو رہی ہے،جو انتہائی تشویشناک بات ہے۔اگرچہ جموں،راجوری اور دیگر کچھ علاقوں میں اس نوعیت کے واقعات پہلے بھی رونماہوتے رہے ہیں اور مختلف بہانوں سے مال مویشی پالنے والوں یا اسکی تجارت سے وابستہ لوگوں کی مارپیٹ کی جاتی رہی ہے جبکہ کئی مرتبہ مال مویشی لے جانے والی گاڑیاں نذر آتش کی گئیں۔لیکن غالباًیہ پہلا موقعہ ہےجب ریاسی ضلع میں اس طرح کا تشویشناک واقعہ رونما ہوا ہواور وہ بھی اس شدت کے ساتھ کہ حملہ کا نشانہ بننے والے بکروال کنبے کے سبھی افراد کوشدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچاناپڑاجبکہ ایک دس سالہ بچہ لاپتہ ہوگیا اور کنبے کے تمام مویشی بھی شر پسندوںنے اپنے قبضے میںلے لئے ۔بکروال کنبوں کا یہ معمول ہے کہ وہ ہر سال گرمیوں کا موسم شروع ہوتے ہی اپنے آبائی علاقوںسے ہجرت کرکے مال مویشی بالائی علاقوں میں کھلی چراگاہوں میں چلے جاتے ہیں اور انکی یہ موسمی ہجرت صدیوں سے جاری ہے۔تاہم پہلی مرتبہ ایسا ہواہے جب انہیں موسمی ہجرت کے دوران تشدد کا نشانہ بنایاگیاہو اور وہ بھی گائو رکھشا کے نام پر ۔یہ بات قابل اطمینان ہے کہ ریاست کے پولیس سربراہ نے اس معاملے میں سخت کارروائی کرنے کی ہدایت جاری کی ہے اور تاحال گیارہ افراد کو گرفتار کرنے کادعویٰ بھی کیاگیاہےتاہم یہ بات قابل تشویش ہے کہ پورے ملک کی طرح ریاست میں بھی گائو رکھشا کے نام پر غنڈہ عناصر کی ایک ایسی فوج تیار ہورہی ہے جو نہ تو قانون کو مانتی ہے اورنہ ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خاطر میں لاتی ہے۔یہ ایسے لوگ ہیں جولوگوںکو بغیر کسی وجہ کے قتل تک کردیتے ہیں ۔ اب تک ملک میں اسی وجہ سے متعدد ہلاکتیںہوچکی ہیں لیکن افسوسناک بات ہے کہ حکومت نے ان عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور خاموشی سے ہر ایک واقعہ کا مشاہدہ کیا ،جس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ ان عناصر کو کہیں نہ کہیں اعلیٰ سطح پر کی حمایت حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ کھلے عام بغیر کسی خوف کے قانون کی دھجیاں اڑاتے پھرتے ہے ۔ظاہر ہے کہ ان عناصر کے جموں وکشمیر میں بھی ایسے ہی حالات پیدا کرنے کے ارادے ہوسکتے ہیںکیونکہ کچھ عرصہ سے جموں خطہ میں بار بار فرقہ وارانہ کشیدگی کو مختلف بہانوں سے ہوا دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔یہ تو جموں کا عوام اور خاص کر سنجیدہ فکر طبقہ ہے، جنہوں نے اب تک ان شرپسندوں کے جھانسے میں آنے سے انکا کر دیا ہے۔ یہ انتہائی حوصلہ افزاء صورتحال ہے کہ جموں خطہ سے متعدد تنظیموں کی جانب سے تلواڑہ تشدد کی کھل کر مذمت کی گئی اور اس سوچ اور طرز عمل کو نا قابل قبول قرار دیا۔ جموںوکشمیر میں ایسے ماحول کو پروان چڑھنے کی ہر گز اجازت نہیں دی جانی چاہئے ، جس سے اکثریتی اور اقلیتی طبقے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوجائیں ۔اس سلسلے میں جہاں حکومت کی وسیع ذمہ داریاںبنتی ہیں وہیں پولیس کو بھی غنڈہ عناصر کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دینی چاہئے ،نہیں تو کل کوکوئی بھی بدمضر عنصر گائو رکھشا کے نام پر ریاست میں امن و امان کو تباہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔اب یہ انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ریاسی واقع کے پس پردہ حقائق کو بے نقاب کرکے ان غنڈہ عناصر کو عبرت ناک سزا دلوائیں تاکہ فرقہ وارانہ سوچ رکھنے والے عناصر کے حوصلے بلند نہ ہوں ۔