ریاستی گورنر ستیہ پال ملک کے بجٹ 2019-20ء میںایسا کوئی امتیازی نشان نظر نہیں آتا جو اُنہیں آج تک کے ریاستی بجٹوںسے مختلف انداز میں پرکھنے کا داعیہ پیدا کر دے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جو چال بے ڈھنگی سی کل تھی وہ آج بھی ہے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ پرانی شراب کو نئی بوتلوں میں ڈال کے ریاست کے بازار اقتصاد میں پیش کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔یہ سچ ہے کہ اقتصادی محفل میں ساقی بدلتے رہتے ہیں لیکن وہی مے کہنہ مختلف انداز لئے پیش کی جاتی ہے۔سابقہ بجٹوں کی مانند گورنر ملک کے بجٹ میں بھی فکر و نظر کا فقدان ہے۔ اِس بجٹ کو گوشوارہ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔گوشوارے میں آمدن و خرچ کا حساب ہوتا ہے جبکہ بجٹ حقیقی معنوں میں تب معنی خیز ہوتا ہے جب پیسہ ایسے مدوں پہ خرچ کیا جائے جہاں مستقبل میں بیشتر آمدنی کے مواقع میسر رہیںبہ معنی دیگر سرمایہ کاری ایسے مدوں پہ ہونی چاہیے جہاں اثاثے بنانے کے امکانات ہوں۔ملکی اثاثے ہی ایک ایسی بنیاد فراہم کرتے ہیں جہاں مستقبل میں کل آمدن میں اضافے کے امکانات فراہم ہوتے ہیں اور عوام الناس کو اقتصادی سہولیات میسر ہوتی ہیں۔2019-20 کے بجٹ میں ایسے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں جہاں اثاثے بنانے پہ توجہ مرکوز رہی ہو۔
منتخب حکومت اور اسمبلی کی غیر موجودگی میں گورنر کو مالی امور نبھانے کیلئے صرف ایک عبوری بجٹ کی منظوری دینی چاہیے تھے لیکن اِس کے بجائے مالی سال 2019-20کا مکمل بجٹ منظور کیا گیا جو کہ آئینی طور پہ قابل قبول تو ہو سکتا ہے لیکن اُسکی معنویت پہ سوالات اٹھ سکتے ہیں ۔بد قسمتی سے ریاست جموں و کشمیر میں اقتصادی امور پہ توجہ مرکوز نہیں ہوتی بلکہ یہاں سیاست چھائی رہتی ہے جبکہ پیشرفتہ ممالک میں بیشتر توجہ اقتصادی امور پہ مرکوز رہتی ہے اور عوام الناس بھی صبح سویرے سیاسی خبروں کے بجائے اقتصادی و تجارتی خبروں کو جانچنے کی تلاش میں رہتے ہیںکیونکہ یہ خبریں اُن کی روز مرہ زندگی کو متاثر کرتی ہیں۔ریاست جموں و کشمیر میں البتہ انداز فکر بدلنے کے امکانات کم نظر آتے ہیں کیونکہ یہ ریاست بد قسمتی سے سیاسی عدم استحکام کی شکار ہے ۔سیاسی عدم استحکام اقتصاد کو بھی اِس حد تک متاثر کئے ہوئے ہے جہاں امپورٹ کی شرح ایکسپورٹ پہ اِس حد تک بھاری پڑتی ہے کہ اقتصاد میں توازن بر قرار رکھنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ سیاسی عدم استحکام میں تولیدی صلاحیتوں کا کم ہونا ایک مانی ہوئی بات ہے چونکہ امنیت متاثر ہونے سے اقتصادی میدان سمٹنے لگتا ہے۔کشمیر میں امنیت کا فقدان اِس حد تک عیاں ہے کہ کسی کو خبر نہیں کہ کل کیا ہو گا بلکہ کل تو دور کی بات ہے یہاں آنے والے لمحات کی خبر نہیں ہوتی!
2019-20کے بجٹ پہ ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ کہیں بھی خود کفالت پہ گامزن ہونے کی تلقین نہیں ۔مالی وصولی اور اخراجات کا جہاں تک تعلق ہے تو دونوں میں کہیں بھی ایسا نظر نہیں آتا کہ ریاست اپنے اخراجات خود پورا کرنے کی متحمل ہو سکے۔مالیاتی وصولی کیلئے ایسے ذخائر کی ضرورت ہے جو آمدن فراہم کر سکیں لیکن ایسے ذخائر کمیاب ہیں جو ریاست کے اخراجات کے متحمل ہو سکیں۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ اخراجات پورے کرنے کیلئے نظر دہلی کے خزانے پہ رکھی جا تی ہے جبکہ آمدن کے وسائل کو ریاست میں فروغ دینے پہ بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ 2019-20کے اخراجات میں گر چہ پچھلے سال 2018-19 کے بجٹ سے زیادہ رقم مختص کی گئی ہے لیکن اِس سرمایہ گذاری سے بہتر نتائج کا حصول تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جبکہ اِن رقومات کا مناسب استعمال ممکن بنایا جا سکے جس کے لئے مہارت،نیک نیتی اور معقول لیبر فورس کو یقینی بنانا انتہائی ضروری ہے۔معقول لیبر فورس میسر بھی رہے تب بھی ایسے فورس کو کام پہ لگانے اور معقول نتائج کے حصول کیلئے امنیت کا ہونا نا گزیر ہے ۔ریاست میں جو سیاسی ماحول ہے اُس میں امنیت کو بر قرار رکھنا کارے دارد ہے لہذا وادی کشمیر میں مخصوصاََ اقتصادی پلاننگ کبھی بھی اپنے مراحل طے کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ثانیاََ یہاں موسم کی نا سازگاری کو بہانہ بناتے ہوئے اقتصادی دائرے میں وادی کو وہ سب کچھ نہیں مل پاتا جس کی وہ آبادی کے تناسب سے حقدار ہے۔
2019-20 کے بجٹ میں 84571 کروڑ روپے کی مالی رسیدگی کا ذکر ہے یعنی وہ رقم جو اخراجات کیلئے ریاست کو میسر رہے گی جبکہ کل خرچے کا تخمینہ 88911 کروڑ لگایا گیا ہے۔ یہ رقم پچھلے مالی سال 2018-19 کے80, 313 کروڑ کے بجٹ سے قدرے زیادہ ہے ۔مالی رسیدگی کے دو مد ہیں جن میں سے ایک مالیاتی رسیدوں (revenue receipts) کا مد ہے اور دوسرا کیپٹل رسیدوں (capital receipts) کا اور دونوں مدوں کے میں آمدن و اخراجات کا تخمینہ بھی الگ الگ ثبت ہوتا ہے ۔ بعد میں دونوں مدوں کی رسیدوں اور اخراجات سے کل آمدن اور اخراجات کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ مالیاتی رسیدوں (revenue receipts ) میں 71193 کروڑ کی رسیدگی دیکھائی گئی ہے جبکہ اخراجات کے مد میں 58442 کروڑ خرچے کا ذکر ہے چناچہ خرچہ رسیدوں سے 12751کروڑ کم ہے۔ کیپٹل رسیدوں (capital receipts) کے مد میں جہاں رسیدوں میں 13378کروڑ دیکھائے گئے ہیں وہی اخراجات کے مد میں 30469 کروڑ خرچے کا ذکر ہے یعنی یہاں رسیدوں اور خرچے میں 17091 کروڑ کا تفاوت ہے۔ جہاں کل اخراجات کے مد میں 88911 کروڑ (58442+30469) کا ذکر ہے وہی رسیدوں کا کل تخمینہ 84571(71193+13378)کروڑ ہے بنابریں ریاست کو 4340 کروڑ مزید فنڈس کی تلاش رہے گی تاکہ اخراجات کو پورا کیا جا سکے۔
یہاں بات گوشوارے پہ آئی جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے یعنی بجٹ کے پیش کردہ کاغذات میں روپیہ آیا کہاں سے اور کہاں جا رہا ہے۔2018-19کے بجٹ میں 80, 313 کروڑ روپے کی مجموعی ما لی رسیدگی کا ذکر ہے جس میں 43% دہلی سرکار کے فنڈس ہیں۔
2019-20 کے بجٹ میں یہی دیکھائی گیا ہے کہ 84571 کروڑ کی کل رسیدوں میں 43% دہلی سرکار کے فراہم کردہ فنڈس ہیں۔ اِس کے جواز میں بار بار ماضی میں ریاست کے وزرائے اقتصاد یہی کہتے آئے ہیں کہ یہ دہلی سرکار کی مہربانی نہیں بلکہ مرکزی قانون اساسی کی 268سے 279 کی دفعات کے تحت ریاستوں کا حق بنتا ہے اور کس ریاست کو کتنا ملے اِس کا تعین فائنانس کمیشن (finance commission)کرتا ہے جبکہ اِس کمیشن کے ممبراں کا تعین بھارتی آئین کی دفعہ 280کے تحت صدر جمہوریہ ہند ہر پانچ سال کے بعد کرتا ہے۔ آئینی جواز جو بھی ہو سچ تو یہ ہے کہ ریاستی بجٹ کی آبیاری بیشتر دہلی سرکار کے دئے ہوئے فنڈس سے ہوتی ہے جبکہ 1947ء سے پہلے ریاست جموں و کشمیر اقتصادی دائرے میں خو دکفیل تھی ۔1947ء سے پہلے ریاستی ایکسپورٹ امپورٹ سے کم و بیش تگنا تھا جبکہ آج امپورٹ ایکسپورٹ سے سات گنا ہے ۔یہ سچ ہے کہ 1947ء سے پہلے ریاست میں غربت تھی لیکن یہاں پاؤں چادر کی لمبائی تک پھیلائے جاتے تھے جبکہ آج کے اخراجات ہماری تولید سے پورے نہیں ہوتے ۔ہماری تولیدی صلاحیتوں میں دن بدن گراوٹ آ رہی ہے جبکہ ہمارے اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں۔
84571 کروڑ روپے کی آمدن جہاں 43% دہلی سرکار کے دئے ہوئے فنڈس سے پورا ہو تی ہے وہی 16% مرکزی ٹیکسوں میں ریاست جموں و کشمیر کا حصہ بنتا ہے اور 14% ریاستی ٹیکسوں سے حاصل ہونے کا تخمینہ ہے جبکہ 7% غیر از ٹیکس ذرائع سے حاصل ہوئے ہیں جسے نان ٹیکس کہا جاتا ہے۔یہ کل ملا کے84571 کروڑ کا 80% بنتا ہے اور باقی 20%قرضے اٹھا کے پورے کئے جائیں گے ۔یہ اعداد کم و بیش پچھلے کئی سالوں کے اعداد کے برابر ہی ہیں۔ جہاں تک مالی رسیدگی کے مختلف ذرائع کا تعلق ہے جس میںمرکزی فنڈس،مرکزی ٹیکسوں میں ریاست کے حصے،ریاست کے اپنے ٹیکسوں سے وصولی اور نان ٹیکس کا تعلق ہے در صد کے حساب سے دیکھا جائے تو پچھلے کئی سالوں سے کوئی خاص تفاوت نظر نہیں آتا۔جہاں تک بجٹ کا ایک خاطر خواہ حصہ20%قرضوں سے پورا کرنے کا تعلق ہے اِس سے قرضہ جات اور بقایا جات(Loans & Liabilities) میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ریاست کے پاس اسقدر مالی ذخائر نہیں کہ قرضوں سے نجات حاصل کر سکے بلکہ یہاں تو حالت یہ ہے قرضے پہ جو سود کی رقم ہے وہ بھی مشکل سے پوری ہو پاتی ہے قرضے کی ادائیگی تو دور کی بات ہے۔ریاستی اخراجات کا ایک حصہ سود کی ادائیگی پہ خرچ ہوتا ہے۔
بجٹ میں آمدن کی تفصیلات کے بعد اخراجات کی طرف آئیں تو ہماری اقتصادی خوشحالی میں حائل مشکلات کا اندازہ ہونے لگتا ہے ۔اخراجات میں22% سرکاری ملازموں کی تنخواؤں اور 5%پنشن کی ادائیگی پہ صرف کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے یعنی اخراجات کا 27 فیصد سرکاری ملازموں کی تنخواہ اور پنشن پہ خرچ کرنا ہے۔ اخراجات کے مد میں دیکھا جائے تو یہ سب سے سنگین خرچہ ہے گر چہ پچھلے سال کے اِس مد میں کئے گئے خرچہ سے کم ہے جہاں تنخواہوں پہ30فیصد اور پنشن پہ 6%خرچہ آیا۔ اِسے ریاست کی مجبوری ہی ماننا ہو گا کہ اقتصاد کا شعبہ خصوصی یعنی پرائیوٹ سیکٹر کے سکڑنے سے ریاستی سرکار روزگار فراہم کرنے کی صنعت بن گئی ہے لہذا اخراجات کا کم و بیش یک سوم تنخواؤں اور پنشن پہ صرف کرنا پڑتا ہے جو کہ ریاستی اقتصاد کیلئے بار گراں ہے ۔ اِس خرچ کثیر کی بنا پہ ریاست ترقیاتی کا موں کیلئے خاطر خواہ رقم بچا نہیں پاتی تاکہ ترقیاتی کاموں پہ پیسہ لگا کے مالیاتی جمع آوری کو فروغ حاصل ہو سکے۔ترقیاتی کاموں سے اثاثے بنتے ہیں جو ایک مستقل آمدن کا ذرائع بنتے جاتے ہیں لیکن ایک تو ریاست کے پاس ترقیاتی کاموں کیلئے قلیل رقم ہوتی ہے ثانیاََ رشوت خوری کی وبا سے جو بھی رقم ترقیاتی کاموں کیلئے صرف ہوتی ہے اُس کا مصرف ایسا نہیں ہوتا جس کی کہ توقعہ رکھی جا سکتی ہے۔
ریاستی بیروکریسی یا نوکر شاہی کہیں ایک ایسے سفید ہاتھی کا روپ دھارے ہوئے ہے جس پہ خرچہ کر کے ریاست کی تولیدی صلاحیتوں میں اضافے کی توقعہ رکھی جائے بعید نظر آتا ہے۔ اِس کے علاوہ بھی ریاست کئی ایسے خرچوں کی متحمل ہے جن کا کوئی اقتصادی جواز نظر نہیں آتا ۔ریاستی آمدن کا ایک خاطر خواہ حصہ بجلی کی خرید پہ خرچ ہوتا ہے جس کا تخمینہ اِس سال آمدن کا 6% ہے۔ یہ خرچہ اِس کے باوجود خرچ کرنا پڑتا ہے کہ ریاست بجلی کی تولید میں خو د کفیل ہے۔ ریاست میں بجلی کی مجموعی تولید کا تقریباــــ دو تہائی حصہ کم و بیش 2400 میگاواٹ NHPC کے کنٹرول میں ہے جس میں سے ریاست کو صرف 12%بجلی دستیاب رہتی ہے اور اضافی بجلی کیلئے پیسے دینے پڑتے ہیں ۔ریاست کی ضرورت کم و بیش 2500میگاواٹ ہے جبکہ ریاستی سیکٹر میں 1261میگاواٹ بجلی ہے جس میں سے سب کی سب تکنیکی مشکلات کے سبب میسر نہیں رہتی۔ َ دو تہائی ہیڈرو الیکٹریک منصوبوں پہ NHPCکے کنٹرول نے ایک ایسی صورت حال پیدا کی ہے جہاں ریاست خود کفیل ہوتے ہوئے بھی بجلی کی خرید کی محتاج ہے اور ہر سال کم و بیش 4000کروڑ کی بجلی کی خرید کیلئے فنڈس مختص کرنے پڑتے ہیں۔
جہاں بجلی کی خرید پہ بجٹ کا 6%خرچ ہوتا ہے وہی 6% قرضوں پہ سود کی ادائیگی پہ خرچ ہوتاہے۔مجموعی طور پہ بجٹ کا خاطر خواہ حصہ تنخواہ (22% ) پنشن (5%. ) بجلی کی خرید ( 6%) اور سود کی ادائیگی ( 6%)پہ خرچ ہوتا ہے ۔یہ مجموعاََ بجٹ کا 39% بنتا ہے۔بجٹ کا 35% دیگر اخراجات کیلئے مختص کیا گیا ہے جو ظاہر ہے ریاستی سرکار کو چرخانے کیلئے خرچ ہونگے۔پس ریاست کے ترقیاتی کاموں کیلئے جو سب خرچوں (39%+35%)کے حساب کے بعد بچتی ہے وہ بجٹ کا 26%ہے۔ایسے میں ریاست کے خود کفیل ہونے کی توقع رکھی جائے بعید نظر آتا ہے۔
…………….
Feedback on: [email protected]