جموں و کشمیر متضاد سیاسی دھاروں پر مبنی کولیشن میں آج کل بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو مل رہی ہیں ۔ریاست کے نائب وزیر اعلی نرمل سنگھ نے حال ہی میں بھاجپا کی دیرینہ پالیسی کو دہراتے ہوئے یہ بیاں دیا کہ بھاجپا اُن تمام آئینی تحفظات کو کالعدم قرار دلوانے کی وعدہ بند ہے جن سے ریاست کی خصوصی پوزیشن واضح ہوتی ہے۔ظاہر ہے اُنکا اشارہ دفعات 370 اور 35-Aسے متعلق تھا۔اُن کے یہ بیان سنگھ پریوار میں بالا دست تنظیم آر ایس ایس کے سر براہ موہن بھاگوت کے اُس بیان کے کچھ ہی دنوں بعد منظر عام پہ آیا جس میں موصوف نے آر ایس ایس کے کنونشن میں یہ بیاں دیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن ختم ہونی چاہیے ۔اُس کے چند ہی دنوں کے بعد یہ خبر بھی موصول ہوئی کہ موہن بھاگوت بھارت کے کئی سر کردہ حلقوں میں جن میں سیاستدان،قانوں دان، اکیڈمک حلقے و سول سوسائیٹی کے ارکان شامل ہیں کے ساتھ صلاح مشورے میں مشغول ہیں۔رہبری کے اعلیٰ ترین حلقوں کی شہ پہ نرمل سنگھ کی زباں بھی کھل گئی، البتہ اُنہوں نے یہ بات ضرور دہراہی کہ ایجنڈا آف الائنس نے اُن کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ایک مختلف زاؤیے سے پرکھا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جہاں ایک طرف ایجنڈا آف الائنس کی بات ہو رہی ہے ، وہیں دوسری جانب بالائی سطح پہ اُن امکانات کو پرکھنے کی سعی بھی ہو رہی ہے جس سے ایجنڈا آف الائنس کو بالائے طاق رکھ کے سنگھ پریوار کی دیرینہ آرزؤں کی تکمیل ہو سکے۔یہ صاف ظاہر ہے کہ اِن دیرینہ آرزؤں میں ریاست کی خصوسی پوزیشن کو کالعدم قرار دلواناہے۔
ریاست جموں و کشمیر میں جیسا کہ سیاسی تجزیات میں واضح ہے سنگھ پریوار کیلئے راہ کھول دی گئی ہے اور اِس راہ کا کھلنا اُس کولیشن سرکار کا پیش خیمہ ہے جو اِس وقت ریاست میں بر سر اقتدار ہے۔ریاست جموںو کشمیر پچھلے تین سالوں سے ایک متضاد کولیشن کی حکمرانی میں ہے۔اِس کولیشن کے بنیاد گذار مفتی محمد سید نے اِس کولیشن کو قطب شمالی و قطب جنوبی کے ایک ساتھ آنے کا عنواں دیا تھا۔یہ عنواں اِس عیاں حقیقت کے باوجود دیا گیا کہ قطب شمالی او ر قطب جنوبی کے ملنے کے امکان کو انہونی کہا جا سکتا ہے۔اِس عیاں حقیقت کے باجود مفتی محمد سیداِس کولیشن کی پذیرائی میں کیوں پیش پیش رہے؟ اُس کی کئی وجو ہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ جموں و کشمیر کے مین اسٹریم لیڈروں میں یہ خوف ہے کہ اگر اُنہوں نے دہلی میں قائم ہوئی سرکار سے جماعتی سطح پہ گٹھ جوڑ نہیں کیا تو اُن کی حکومت کو چلنے نہیں دیا جائے گا۔ یہ سلسلہ 1960ء کے دَہے کے وسطی سالوں میں ہی شروع ہوا جب غلام محمد صادق نے جموں و کشمیر کی دیرینہ علاقائی تنظیم نیشنل کانفرنس کو آل انڈیا کانگریس میں مدغم کر کے دہلی کے سنگھاسن پہ راج کرنے والی اندرا گاندھی کو اپنی وفاداریوں کا بھر پور یقین دلایا۔سنگھ پریوار کی مانند اندرا گاندھی بھی جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حثیت کو یکسر ختم کرنا چاہتی تھیں گرچہ اِس حدف کو پانے میں اُن کا طریقہ کار مختلف تھا۔ دہلی کے راج سنگھاسن کے احداف کے حصول میں اندرا گاندھی نے جو جا نفشانی کی وہ سنگھ پریوار کی اعلی ترین رہبری کی نظروں میں بھی قابل تحسین تھی۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد اُنہیں اتل بہاری واجپائی نے درگا کے خطاب سے نوازا۔
کشمیر میں بنگلہ دیش بننے کے بعد اندرا گاندھی ایک نئے روپ میں نظر آئی۔ اُنہیں شیخ محمد عبداللہ کو یہ باور کرانے میں ذرہ بھی دقت پیش نہیں آئی کہ بر صغیر میں طاقت کا توازن بدل چکا ہے ۔ایک نئی صورت حال میں بھارت کو اِس حد تک برتری حاصل ہو چکی ہے کہ پاکستان سمیت کسی ملک میں یہ دم نہیں رہا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ آنکھ سے آنکھ ملا سکے۔شیخ محمد عبداللہ جو 22سال تک ایک مزاحمتی تحریک کے سر براہ تھے مطمین ہوئے کی نئی صورت حال میں اُن کے پاس خودسیاسی خود سپردگی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اُن کی 1953ء کی آئینی پوزیشن پہ واپس جانے کی بات تو دور کی رہی اُن کی تقرری بحثیت وزیر اعظم ہو یہ بھی دہلی سرکار کیلئے قابل قبول نہیں رہا ۔سچ تو یہ ہے کہ اُنکو ایک ایسے راج سنگھاسن پہ بیٹھنا پڑا جس کے پایے کانگریسی تنظیم پہ استوار تھے۔شیخ محمد عبداللہ محاز رائے شماری کے کفن و دفن کے بعد نیشنل کانفرنس کو ایک دفعہ پھر بازار سیاست میں لے آئے لیکن اُنہیں دہلی کی منظور نظر کانگریس کے ساتھ کولیشن سرکار تشکیل دینی پڑی۔فاروق عبداللہ نے جب کانگریس کے ساتھ مل کے انتخاب لڑنے اور کولیشن سرکار بنانے سے انکار کیا تو اُن کی حکومت گرا لی گئی جس کے بعد یہ خیال زور پکڑتا گیا کہ ریاست جموں و کشمیر کی سرکار کوحزبی سطح پر بھی دہلی کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ رہنا پڑے گا۔
مفتی محمد سید مرحوم نے سابقہ سیاسی تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے پی ڈی پی کی عافیت اِسی میں سمجھی کہ وہ دہلی میں بر سر اقتدار حزب سے ہاتھ ملا کے کولیشن تشکیل دیں بھلے ہی قطب شمالی اور قطب جنوبی کا نا ممکنہ ملاپ ہو۔یہ کولیشن اُس پس منظر کو صرفنظر کرتے ہوئے تشکیل دی گئی جس میں پی ڈی پی نے یہ عندیہ دیا تھا کہ وہ بھاجپا کے خلاف انتخاب لڑ رہی ہے اور حتی المکان اِس حزب کو بر سر اقتدار آنے سے روکنے کی کوشش کرے گی ۔یہ ایک سیاسی وعدہ ثابت ہوا جس میں سچ کا عنصر ہی نہیں تھا۔ کولیشن سرکار کو وقت کی ضرورت اور جائز قرار دلوانے کیلئے یہ کہا گیا کہ جموں کے منڈیٹ کو مد نظر رکھ کے یہ فیصلہ نا گزیر تھا حالانکہ جموں ڈویژن کی نمائندگی کیلئے نیشنل کانفرنس اور کانگریس سے گٹھ جوڑ کر کے کولیشن تشکیل دی جا سکتی تھی جیسے کہ پچھلے کئی ادوار میں ہوا لیکن وجہ وہی رہی جو بیاں کی جا چکی ہے۔پی ڈی پی میں دہلی سرکار کا عتاب سہنے کی ہمت نہیں تھی ثانیاََ پی ڈی پی کیلئے ایک ایسی صورت حال قابل قبول نہیں تھی جہاں اِس حزب کو نیشنل کانفرنس کے ساتھ مل کے کام کرنا پڑتابھلے ہی یہ صورت حال وادی کشمیر،چناب بیسن و پیر پیچال کیلئے مناسب رہتی۔پی ڈی پی نے اقتدار کی بندر بانٹ کو بھاجپا کے مل کے ہضم کرنا مناسب سمجھا گر چہ کولیشن بنتے ہی یہ عیاں ہونے لگا کہ کولیشن میں شامل پارٹیوں کو ایک دوسرے کی بات ہضم کرنا مشکل ہو رہا ہے لیکن شدید بد ہضمی میں مبتلا ہوتے ہوئے بھی دونوں صرف و صرف اقتدار میں جمے رہنے کیلئے ایک دوسرے کو برداشت کر تے چلے جا رہیں ہیں۔
پی ڈی پی بھاجپا کولیشن کو قابل قبول بنوانے کیلئے ایک ایجنڈا آف الائنس کی تشہیر ہوئی جس میں ریاست کی خصوصی پوزیشن کو بر قرار رکھنے اور دو پاور پروجکٹس کی ریاست کو واپسی کا اقرار بھی کیا گیا۔ ریاست کی خصوصی آئینی پوزیشن کو چونکہ آئینی اقدامات سے کالعدم قرار دلوانے میں مشکلات کا احساس ہوا اسلئے سنگ پریوار سے وابستہ کئی تنظیموں نے عدالتوں سے رجوع کیاتاکہ اُن آئینی دفعات کی قانونی حثیت کو چلینج کیا جائے جس سے ریاست کی خصوصی آئینی پوزیشن بنی رہی ہے۔اِن چلینجوں سے یہ بات منظر عام پہ آئی کہ مختلف ریاستی اداروں میں جن میں عدلیہ بر سر فہرست ہے ریاست کی مخصوص آئینی حثیت کو شک کے دائرے میں لاتے ہوئے اُن کی بیخ کنی کی کوششیں جاری رکھیں جائیں۔یہ سب کوششیں جو سنگھ پریوار سے وابستہ تنظیمیں کر رہی ہیں تب پایہ اثبات تک پہنچی جب موہن بھاگوت نے علنناََ اعلان کیا کہ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن کو ختم کیا جانا چاہیے جس کے بعد احداف کی تشریح کیلئے نائب وزیر اعلی نرمل سنگھ سامنے آئے ۔ویسے بھی وزیر اعظم نریندرا مودی کے دفتر میں منسٹر آف سٹیٹ ڈاکٹر جتیندرا سنگھ جو اِسی ریاست کے باشندے ہیں شب و روز یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ ریاست جموں و کشمیر اور دوسری بھارتی ریاستوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ٹیلی ویژن سکرین پر کم و بیش ہر روز نظر آنے والے ڈاکٹر دویندر سنگھ کو لگتا ہے کہ یہی ماموریت دی گئی کہ وہ ہر روز یہ دہرائیں کہ جموں و کشمیر اور دوسری بھارتی ریاستوں میں کوئی فرق نہیں۔وہ یہ بھی دہراتے رہتے ہیں کہ مسلٔہ کشمیر کوئی مسلٔہ ہی نہیں اور اگر اِس میں کچھ ہے بھی تو وہ یہ کہ خط متارکہ کے اُس پار کا کشمیر اور گلگت بلتستان پہ بھارتی کنڑ ول قائم ہو جائے۔
سیاسی محاذ پہ سنگھ پریوار کا اٹوٹ انگ کی مالا جپنے کے ساتھ ساتھ عدالتی عرضیوں کا سلسلہ جاری ہے تاکہ اٹوٹ انگ پر حقیقت کا رنگ و روپ چڑھایا جائے۔جہاں دفعہ 370کو عدالتی چلینجوں کا سامنا رہا وہی 35 (A)بھی عدالتی اپیلوں کے نرغے میں رہی ۔ 35 (A)کی سنوائی جب بھارتی سپریم کورٹ میں ہوئی تو جہاں ریاست جموں و سرکار کے وکلا نے اپیل کی مخالفت میں اپنا موقف عدالت عالیہ کے سامنے رکھا وہی دہلی سرکار کے وکلا نے ریاستی وکلا کے موقف کی حمایت کرنے کے بجائے دفعہ 35 (A)کو ایک حساس موضوع قرار دیتے ہوئے ایک وسیع تر عدالتی بینچ کی سفارش کی۔کہا جا سکتا ہے کہ ایک مختلف موقف اپنانے میں دہلی کی بھاجپا سرکار نے ایجنڈا آف الائنس کی سریحاََ خلاف ورزی کی۔ یہ موضوع واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ایجنڈا آف الائنس اپنی تمام تر خامیوں تمام تر کوتائیوں کے باوجود پی ڈی پی اور بھاجپا کے درمیان قائم ہواہے بنابریں عدالت عالیہ میں دونوں ہی احزاب کا ایک ہی صفحے پہ نظر آنا لازم و ملزوم تھا ثانیاََ ریاست کی خصوصی پوزیشن کو تحفظ فراہم کرنا ایجنڈا آف الائنس کے اہم ترین نکات میں شامل ہیں ۔ایک مختلف موقف اختیار کرنے سے دہلی سرکار نے ایجنڈا آف الائنس کی دھجیاں اڑا دیں۔
وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے سپریم کورٹ میں بھاجپا کی سرکار کے مختلف موقف کا سخت نوٹس لینے کے بجائے دہلی دربار میں حاضری دے کر دہائی دینی شروع کی ۔اُن کی دہائیوں کا جواب نریندرا مودی جی نے یہ دیا کہ آئینی تحفظات کو بر قرار رکھا جائے گاحالانکہ یہ معاملہ اب عدالت میں زیر سماعت ہے اور اگلی پیشی دیوالی کے بعد ہونی قرار پائی ہے ۔ محبوبہ مفتی نریندرا مودی کی بات کو حرف آخر مان کر مطمین نظر آتی ہیں خاصکر کہ جب یہی بات وزیر داخلہ راج ناتھ نے سرینگر کے ایک دورے کے دوران دہرائی لیکن بلی تھیلے سے تب باہر آئی جب جموں نے راج ناتھ نے کہا کہ مسلہ عدالت میں ہے۔حقیقت یہی ہے کہ 35 (A)کو عدالتی چلینج کا سامنا ہے اور چلینج میں سنگھ پریوار سے وابستہ اکائیاں شامل ہیں ۔خالی خولی یقین دہانیوں سے مسلہ حل نہیں ہو گا بلکہ دہلی کی بھاجپا سرکار کو سپریم کورٹ میںوہی موقف اختیار کرنا ہو گا جو ریاستی سرکار 35 (A)کے دفاع میں اختیار کرے گی ۔عدالت عالیہ میں سنوائی سے پہلے ہی آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے جو موقف اختیار کیا ہوا ہے اُسے در نظر رکھتے ہوئے ایسا نہیں لگتا کہ دہلی کی بھاجپا سرکار 35 (A)کا دفاع کرنے پہ مائل ہو گی بلکہ لگتا ہے کہ کوشش یہی رہے گی کہ اِسے حساس قرار دیتے ہوئے 35 (A)کو شک کے دائرے میں لایا جائے ۔اِس کے ساتھ ساتھ میڈیا خاصکر الیکٹرونیک میڈیا کا پروپگنڈا 35 (A)کو کالعدم قرار دلوانے کو قومی احداف میں شامل مانتے ہوئے عدالتی فیصلوں پہ اثر انداز ہو سکتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھنی پڑی گی کہ جج صاحباں بھی اِسی سماج میں رہتے ہیں اور اُنکا متاثر ہونا خارج از امکان نہیں جیسا کہ پہلے بھی دیکھا گیا کہ منجملہ قومی ضمیر کی آواز کا نوٹس لیا گیا جس کا ذکر عدالتی فیصلے میں ہوا۔جو بات کل ممکن ہوئی وہ آج بھی ممکن ہو سکتی ہے ۔یہ نگرانی کا مقام ہے۔
جموں و کشمیر کے عوامی حلقوں میں نگرانی کا سبب ریاستی حکومت میں 35 (A)کے ضمن میں بے حسی کی کیفیت ہے۔سپریم کورٹ میں ریاستی حکومت کی عدالتی ٹیم نے گر چہ 35 (A)کا دفاع کیا لیکن تجزیہ نگاروں و کئی سیاسی حلقوں کا یہ ماننا رہا کہ اِس دفاع میں جو شدت ہونی چاہیے تھی وہ نہیں تھی ۔مزید برآں ریاستی حکومت کی من جملہ حمایت اِس دفاع میں شامل نہیں ہے۔ بھاجپا نے جو کہ ریاستی حکومت کا ایک انگ ہے نہ صرف کنارہ لیا ہے بلکہ کھلم کھلا یہ کہا جا رہا ہے کہ اُن کی پالیسی ریاست کی خصوصی آئینی حثیت کے خلاف ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دفعہ 35 (A)ریاست کی خصوصی آئینی پوزیشن کا ایک مضبوط ستون ہے جس میں خدانخواستہ خلل پڑنے سے اُن تحفظات پہ ضرب لگ سکتی ہے جو ریاستی عوام کو حاصل ہیں۔اِس دفعہ کی رو سے ریاست میں رہائش کا حق یہاں کے مستقبل باشندوں کو حاصل ہے۔علاوہ ازایں یہاں ذرایع معاش و سرکاری وظائف کے حصول کا حق ریاستی عوام کے نام محفوظ ہے ۔اِس اساسی دفعہ کا دفاع شد و مد سے ہونا چاہیے لیکن پی ڈی پی کے رہنماؤں کے بیانات سے لگتا ہے کہ وہ بھاجپا کے مرکزی رہنماؤں کے بیانات پہ تکیہ کئے ہوئے ہیں جن میں یقین دہانیاں شامل ہیں لیکن اُن یقین دہانیوں کا کیسے عملی جامہ پہنائے جائے اِس بارے میں اقدامات نظر نہیں آتے۔ 35 (A کے ضمن میںاگلے کچھ ہفتے سخت امتحان کے ہو سکتے ہیں اور اِس امتحان میں ریاستی حکومت کو پورا اترنا ہو گا۔
Feedback on: [email protected]