سرینگر // عوامی نیشنل کانفرنس کے نائب صدر مظفر احمد شاہ نے کہا کہ ریاست کو حاصل خصوصی درجہ ہٹانے کی صورت میں ہند کشمیر تعلقات بھی خود بخود متاثر ہوں گے۔انہوں نے ریاست میں نئے سرے سے آئین ساز اسمبلی منتخب کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہئے کہ 1951کی آئین ساز اسمبلی میں لئے گئے فیصلوں پر پانی پھیر دینے کے نئے فتنے برپا کئے جا رہے ہیں ۔سرینگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ اگر مشروط سمجھوتہ نہ ہوا ہوتا تو آج حریت کے لیڈران کو بھی کشمیر کے بارے بات کرنے میں مشکل پیش آتی ۔پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ سابق آئین ساز اسمبلی کے فیصلوں کے تحت اور آئین ہند کے دفعہ 370اور 35Aکے تحت ریاست کو خصوصی درجہ دیا گیا ہے۔ اور تین امور کے بارے میں مشروط سمجھوتہ ہوا ہے یعنی دفاع ،رسل ، ورسائل اور امورخارجہ مرکز کے تابع رہیں گے، باقی امور ریاست جموں وکشمیر میں اندروانی خود مختار بن گی ۔انہوں نے کہا کہ ریاست جموں وکشمیر کو دفعہ 370کے تحت جو خصوصی پوزیشن حاصل ہو گئی ہے اس کے مطابق ہی ریاست کو اپنا علیحدہ آئین بنانے صدر ریاست کو سربراہ بنانے اور وزیر اعلیٰ منتخب کرنے کے علاوہ علیحدہ جھنڈا رکھنے کا اختیار ملا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ مرحوم شیخ محمد عبداللہ کاریاست کے محفوظ مستقبل کیلئے ایک ضمانت اور پر خلوص شراکت تھی ۔انہوں نے کہا کہ اگر مشروط سمجھوتہ نہ ہوا ہوتا تو آج حریت کے لیڈران کو بھی کشمیر کے بارے بات کرنے میں مشکل پیش آتی اور ظاہر ہے کہ ریاست کو حاصل خصوصی درجہ ہٹانے کی صورت میں ہند کشمیر تعلقات بھی خود بخود متاثر ہوں گے ۔انہوں نے کہا کہ دلی کے حکمرانوں کو بھی فیصلہ کرنا ہو گا کہ اگر سابق آئین ساز اسمبلی کے فیصلوں کو دل سے تسلیم کرتے ہیں تو پھر دفعہ 370اور 35Aکے متعلق الگ الگ بولیاں بولنے سے احتراز کیا جانا چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ ریاست میں نئے آئین ساز اسمبلی منتخب کی جائے تاکہ ریاست کے تینوں خطوں جموں لداخ اور کشمیر کے لوگوں کی خواہشات کو دریافت کیا جائے کہ ان خطوں کے لوگوں اپنے مستقبل کے بارے میں کیا چاہتے ہیں ۔پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ وہ اس سلسلے میں صدر جمہوریہ ہند وزیر اعظم اور جموں وکشمیر کے گورنر کو بھی نئی آئین ساز اسمبلی کے قیام کے سلسلے میں ایک یاداشت بہت جلد پیش کرنے جا رہا ہوں، تاکہ وہ اس سلسلے میں ہماری مدد کر سکیں ۔انہوں نے کہا کہ اسی صورت میں دفعہ 370اور 54Aکے متعلق نفرت ہنگامہ آرائی اور جارحانہ باتوں کا دروازہ بند ہو گا ۔انہوں نے شیخ محمد عبداللہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ختمی یا عارضی الحاق نہیں کیا تھا بلکہ وہ واحد عوامی لیڈر کی حیثیت سے مشروط سمجھوتہ کے گواہ بھی اس شرط پر بن گئے کہ حالات سدھرنے کے بعد کشمیری عوام سے اس عارضی سمجھوتہ کی تصدیق کا مطالبہ تسلیم کیا گیا ،اس طرح راے شماری کرانے کا معاملہ اسی مرحلہ پر پیدا ہوا اور تسلیم بھی کیا گیا ۔