اللہ تعالی کا شکر ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا دین اسلام ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل دین ہے بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اسلام کی تعلیمات تمام انسانوں کے لیے واضح ہیں۔ہمارا یہی ایمان ہے کہ ہم کوئی ایسا کام نہیں کریں جو اسلام کے خلاف ہو۔ہم اللہ کے بندے ہیں اور مسلمان کی پوری زندگی تو اللہ کی بندگی میں گزرتی ہے۔غرض مسلمان صرف وہ کام کرتے ہیں جو اللہ تعالی کو پسند ہوں اور ان تمام کاموں سے بچتے ہیں جو اللہ تعالی کو ناپسند ہوں۔اس طرح زندگی گزارنا عبادت ہے۔اسلام میں نیکی اور گناہ کے اعمال پوری طرح بیان کئے گئے ہیں۔قرآن مجید کی آیات بینات اور احادیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس ارشادات سے جائز و ناجائز اعمال کافرق روز روشن کی طرح واضح ہیںلیکن بشریت کے سبب انسان سے گناہ اور غلطیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں،نادانی یا شیطان کے بہکاوے میں آکر ہم سے کچھ ایسے گناہ سرزد ہوتے ہیں جن سے ہم بے خبر ہوتے ہیں، یہاں تک کہ ہم ان گناہوں کے عادی بن جاتے ہیں۔ابلیس لعین کے بہکاوے میں آکر ہم ایسے گناہوں کی زد میں آتے ہی رہتے ہیں۔انہی گناہوں میں تکبر ، ریاکاری ، خودنمائی ، خودستائش ، خود پرستی اور نمود و نمائش ہیں ، یہ ایسے گناہ ہیں جن کی اسلام میں سخت مذمت کی گئی ہےکیونکہ اسلام میں سارے امور و اعمال کا دارمدار خلوص نیت پر ہےیعنی اعمال کے صحت کا دارمدار نیتوں پر ہے۔ اگر کوئی کسی نیک یا اچھے کام کا ارادہ کرتا ہے لیکن کسی وجہ سے وہ کام ہو نہیں پاتا ، تب بھی نیت کرنے والے کو ثواب مل جاتا ہے۔ خلوص نیت کے ساتھ کیا جانے والا چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی بارگاہ الہیٰ میں بڑی قدر و قیمت رکھتا ہےجب کہ عدم اخلاص ، شہرت ، نمود و نمائش اور ریاکاری پر مبنی بڑے سے بڑا عمل بھی اللہ کے ہاں کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔ریاکاری اور نمود و نمائش انسان کے اعمال دنیا میں ہی تباہ کردیتی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق قیامت کے دن سب سے پہلے جن تین لوگوں کو جہنم میں پھینکا جائے گا وہ ریاکار عالم دین ، ریاکار سخی اور ریاکار شہید ہیں جو اپنے اعمال کی فضیلت کے باوجود ریاکاری کی وجہ سے سب سے پہلے جہنم میں جائیں گے۔حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، اس نے دریافت کیا کہ ایک آدمی جہاد کرتا ہے آخرت میں اجر حاصل کرنے اور دنیا میں شہرت پانے کے لیے تو اس کو کیا ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو کچھ نہیں ملے گا۔سوال کرنے والے نے اپنا یہ سوال تین بار دہرایا اور ہر بار بنی پاک صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرماتے رہے:اس کو کچھ نہیں ملے گا‘‘پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ بزرگ و برتر صرف اسی عمل کو قبول کرے گا جو خالص اسی کے لیے کیا گیا ہو اور صرف اسی کی خوشنودی اس کا محرک ہو(ابوداؤد ، نسائی) اس حدیث مبارک کی مختصر تشریح "تفہیم الحدیث" نامی کتاب میں مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب اس طرح کرتے ہیں کہ اعمال کو قابل قبول بنانے والا جوہر اخلاص ہے. اللہ تعالی صرف اسی عمل کو قبول فرما کر صلے سے نوازتا ہے جس میں ذرا آمیزش نہ ہو،جو صرف اللہ کی رضا کے لیے کیا گیا ہو اور اس حقیقت کو ذرا کسی تبدیلی کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار دہرایا۔تین بار صحابی ؓنے سوال کیا اور تینوں بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دہرایا۔
نمود و نمائش کے دلدادہ شخص کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے،وہ کسی کا محتاج نہیں ہے،سب اسی کے محتاج ہیں۔اس کو کسی ایسے عمل کا کیا سروکار جو صرف اس کی رضا کے لیے نہ کیا گیا ہو،جس میں دنیا مقصود ہو،جو عمل لوگوں کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا ہو،جسے اپنی تعریفیں اور ستائش مقصود ہو،جو شہرت کا متمنی ہو،جو خودستائش کا قائل ہو،جسے خود پرستی کی چاہ ہو۔ایسا عمل دنیا میں ہی ضائع ہوتا ہے اور ایسا شخص آخرت میں محروم و نامراد رہے گا۔مزید برآں جس عمل میں نمود و نمائش مقصود ہو یا جس عمل کی پشت پر اخلاص نہیں ہوتا ہے، اسے شخصیت بھی واضح ہوتی ہے۔اس سے شخصیت میں پاکیزہ کردار وجود میں نہیں آتا ہے اور نہ ہی لوگوں کے دلوں پر اس کا کوئی بھلا اثر پڑتا ہے ، نہ معاشرہ میں ایسے شخص کو عزت ملتی ہے۔الغرض ریاکار شخص کو نہ دنیا میں نمود و نمائش کی وجہ سے اعمال کا اچھا نتیجہ سامنے آتا ہے اور نہ ہی آخرت میں ایسے عمل کا صلہ ملے گا۔اس طرح اپنی کم بختی سے دونوں جہاں میں محروم و نامراد ہوتا ہےبلکہ ریاکاری اور نمود و نمائش کی وجہ سے مغرور بنتا ہےاور جو سماج میں ایک متنازعہ شخص کی حیثیت سے سامنے آتا ہے۔اپنی انّا اور غرور کی وجہ سے کمزوروں پر کچھ وقت کے لیے دبدبہ قائم کرنا چاہتا ہےلیکن آخر کار اللہ تعالیٰ ا یسے ریاکار اور مغرور کو دنیا میں ہی ذلیل کرتا ہے۔نمود و نمائش کا خلاصہ کرتے ہوئے مفکر اسلام مولانا مودودی علیہ رحمہ ’’تحریک اور کارکن‘‘میں رقمطراز ہیں :’’دوسرا بڑا عیب جو خیر کی جڑوں کو کھاجانے میں کبر سے کسی طرح کم نہیں یہ ہے کہ کوئی شخص اگر بھلائی کا کام نمود و نمائش کے لیے کرے اور اس کام میں اسے خَلق کی تحسین حاصل کرنے کی فکر یا اسکی پروا ہو. یہ چیز صرف خلوص کی ہی نہیں بلکہ حقیقت میں ایمان کی بھی ضد ہے اور اسی بناء پر اسے ’’چھپا ہوا شرک ‘‘قرار دیا گیا ہے۔خدا اور آخرت پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان صرف خدا کی رضا کے لیے کام کرے۔اسی سے اجر کی آس لگائے اور دنیا کے بجائے آخرت کے نتائج پر نگاہ رکھے،لیکن ریاکار انسان خَلق کی رضا کو مقصود بناتا ہے۔ خلق ہی کے اجر کا طالب ہوتا ہےاور دنیا ہی میں اپنا اجر نام و نمود ، شہرت ، ہردلعزیزی ، نفوذ و اثر اور حشمت و جاہ کی شکل میں پالینا چاہتا ہے۔اس کے معنی یہ ہے کہ اس نے خلق خدا کو شریک بنایا یا اس کو مدمقابل بنایا ہے۔ظاہر ہے کہ اس صورت میں آدمی خدا کے دین کی خواہ کتنی اور کیسی ہی خدمت کرے، بہرحال وہ نہ خدا کے لیے ہی ہوگی ۔ نہ اس کے دین کی خاطر ہوگی اور نہ اس کا شمار خدا کے ہاں نیکوں میں ہوگا‘‘۔
نمود و نمائش کا عمل یقیناً ایک چھپا ہوا شرک ہے۔علماء کرام نے واضح کیا ہے کہ شرک صرف یہ نہیں ہے کہ آدمی کسی بت کے سامنے سجدہ کرے بلکہ جو عمل محض دوسروں کودنیوی اغراض کے لئے خوش کرنے ، دکھاوے اور نام و نمود کے لیے کیا جائے حقیقتاً وہ شرک ہے کیونکہ خوشنودی صرف اللہ کا حق ہے اور نمود و نمائش کرنے والا شخص یہ حق غیرخدا کو دیتا ہے۔مشکوٰۃ شریف کی ایک حدیث جس کی روایت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کی ہے،فرماتے ہیں : وہ ایک دن گھر سے نکل کر مسجد نبوی ؐپہنچے،وہاں دیکھا حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے قریب بیٹھے رو رہے ہیں،پوچھا کیوں رو رہے ہو؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک بات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی وہی بات مجھے رلا رہی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:’’تھوڑی سی ریا بھی شرک ہے‘‘۔اب جو شخص نادانی یا جانے انجانے میں اس چھپے ہوئے گناہ بلکہ شرک میں مبتلا ہوگا اس کو اپنا محاسبہ کرکے فوراً توبہ کرنی چاہیے اور اخلاص نیت و اجرِ آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔اخلاص نیت کے لیے اللہ کے ہاں بے شمار انعامات ہیں۔یہ ایک امر واقع ہے کہ آخرت میں انسان کا ظاہر نہیں دیکھا جائے گا بلکہ اخلاص نیت پر اعمال کا بدلہ ملے گا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے صاف واضح ہے کہ اللہ کے ہاں اخلاص کا بےبہا ثمرہ ہیں۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت مجھے یمن کے علاقے میں بھیج رہے تھے میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم: مجھے کچھ نصیحت فرمائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اپنی نیت کو ہر کھوٹ سے پاک رکھو ، جو عمل کرو صرف خدا کی خوشنودی کے لیے کرو، تو تھوڑا عمل بھی تمہاری نجات کے لیے کافی ہوگا ‘‘(الحاکم)مختصراً عرض ہے کہ اخلاص نیت یا اچھی نیت اور عمل صالح کے ذریعہ انسان دنیا و آخرت میں عزت و انعام پاتا ہے جب کہ نمود و نمائش اور ریاکاری جیسے برے اعمال کے ذریعے اپنے آپ کو نیچا گراتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بندے کو دنیا میں اختیار اور آزادی دی ہے کہ وہ کس بنیاد پر عمل کرے ۔دانا شخص وہی ہے جو اللہ کی دی ہوئی اس آزادی سے بہرہ مند ہوکر اس کی غلامی کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال دے۔
رابطہ بوٹینگو – زینہ گیر – سوپور
موبائـل 9797082756