میانمار ایک بدھ اکثریتی ملک ہے۔اس مذہب کودنیا میں امن پسند،برداشت کرنے والا اور شدت پسندی کے مقابلے میں اہنسا کا پیروکار کہا جاتاہے۔بودھ دھر م میں چھوٹے سے چھوٹے کیڑے تک کو آزار پہنچانا ممنوعہ ہے لیکن بودھ بھکشوؤں نے میانمار میں روہنگیا کے خلاف جن آدم خور حالات کو جنم دیا ہے ان کو دیکھ کر ہر آنکھ نم،ہر قلب پریشان اور ہر ذہن مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ انسانی تاریخ میں لوگوں کو یوں تو بڑے بڑے جابرین سے سابقہ پڑا ہے ، منگولوں میںچنگیز خان ،جرمنی میں ہٹلر ،امریکہ میں جارج بش،روس میں سٹالن ،یوگینڈہ میں عیدی امین وغیرہ جیسے نام جابروںا ور ظالموں سرِ فہرست میں شمار ہوتے ہیںلیکن اَہنسا کے پجاری برمی بودھوں نے اپنے جبرو تشدد سے تاریخ کے ان تمام ظالموں کو ہیچ ثابت کر دکھادیا ہے۔انہوں نے ظلم و دہشت کی وہ داستان درج کر ڈالی ہے جس کی مثال عصری تاریخ کے پنوں میں کہیں بھی نہیں ملتی۔ اس حوالے سے سوشل میڈیاپر جو تصویریں آج کل گھوم رہی ہیںوہ دل دہلا دینے والی ہیں ۔ان انسانیت سوزمظالم کی جس قدر مذمت کی جائے وہم واقعی کم ہوگی کیونکہ انسانی تاریخ میں یہ مظالم اپنے طرز کے اولین نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
عالمی ضمیر آج میانمار کی فوج ، حکومت اور بودھ ا کثریت سے یہ سوال کررہا ہے کیا تم کتنے کٹھور، وحشی، اندھے،بہرے اور گونگے ہو کہ انسانیت کا جنازہ اُٹھارہے ہوتاکہ نسلی منافرت اور حیوانی فطرت کی دیوی تم پر خوش ہو؟ تمہاری یہ کونسی مردانگی ہے کہ نہتے اقلیتی روہنگیائی مسلمانوں کو زندہ چبارہے ہو ؟ کیا بگاڑا ہے تم جابروں اور ظالموں کا ان مظلومین نے؟ یہ لوگ میانمار کی مغربی ریاست اراکان (رخائن)میں سات صدیوں سے رہ رہے ہیں۔ نسلی طور پر یہ چینی اور پرانے عرب مہاجرین کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔مسلمان ہونے کے جرم میں میانمار ی حکومت ان بچاروں کو تعلیم سے روکتی ہے ، سفر کر نے پر پابندی عائد کر تی ہے، شہری حقوق دینے سے منکر ہے ، صحت اور معیشت کی سہولیات دینے سے انکاری ہے اور اب ان کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے ۔ کیا ان کا قصور یہ ہے کہ یہ بنگالی زبان میں بات کرتے ہیں ؟ اس لسانی تعصب اور مذہبی عنادکی آگ میں جل بھن کر روہنگیا مسلمانوں پر قہر بپا کرنا ،ان کی گردنیں اڑانا ، گھر جلانا، کیایہی بودھ بھکشوؤں کی بہادری ہے ؟
آج جن ناقابل برداشت حالات میں میانمار ی دہشت گرد مسلمانوں کی نسلی تطہیر کر رہے ہیں ،وہ انتہائی وحشیانہ اور ظالمانہ نسل کشی کی بد ترین مثال قراراپاتی ہے ۔ اس زہر ناک سازش میں ملک کی خاتون سربراہ آنگ سان سوچی ، مذہبی پروہت ، اعلیٰ فوجی عہدیدار سے لے کر صدر تک سب لوگ یکساں طور ملوث ہیں۔جب کہ اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کی عالمی انجمنیں ، او آئی سی ، چھپن مسلم ممالک ، عالمی طاقتیں اس قتل و غارت گری پر تماشائی بنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ حالانکہ بودھ بھکشو برمی فوج سے مل کراپنے جنگل راج میں نہ عمر اور جنس کا لحاظ رکھتے ہیں اور نہ اوپر والے کے جوابی قہر سے ڈرتے ہیں اور مسلمانوں کو گاجر مولی کی مانند کاٹ رہے ہیں۔روہنگیا کے ساتھ جو ظلم و بربریت جاری ہے وہ فلسطین ،شام اور کشمیر سے مماثلت رکھتی ہے مگر ذر گہرائی سے دیکھاجائے یہ ان ملکوں سے بھی شدید تر اور انسانیت سوزہے۔دنیا کے تمام امن پسند اور انصاف نوازانسانوں کو قومیت ، زبان ، جغرافیہ، مسلک و مذہب وغیرہ سے بالاتر ہوکر روہنگیائی مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانی چاہیے اور ظالموں کو مزید ظلم وزیادتی سے روکنا چاہیے ۔ا سی میں جدید ودر کے انسان کی اپنی بھلائی کاراز مضمر ہے ۔ ورنہ آج میانمار میں دہشت اور وحشت کی یہ آگ بھڑکی ،کل یہ کہیں اور سلگ سکتی ہے۔ اس لئے ہوشیار باش!۔
رابطہ: سنٹرل یونی ورسٹی آف ،کشمیر
9596050307