سرینگر//پانپور سے منی گام گاندربل تک مجوزہ متبادل شاہراہ ’رنگ روڑ‘کی تعمیر پر قبل از وقت سیاہ بادل منڈلانے لگے ہیں جبکہ اس شاہراہ کی زد میں آنے والی اراضی مالکان نے مرکزی حصول اراضی قانون کے طرز پر4گناہ معاوضہ فراہم کرنے کا مطالبہ کیاہے۔انہوں نے کہا کہ پہلے ہی ریلوے اور دیگر محکموں نے ان کی اراضی کو ختم کیا،اور انہیں دانے دانے کیلئے محتاج بنایا جا رہا ہے۔ جنوبی کشمیر کے پانپور سے منی گام گاندربل تک مجوزہ 60کلو میٹر شاہراہ کے حصول کیلئے اراضی سرکار کیلئے درد سر ثابت ہو سکتی ہے،کیونکہ اراضی مالکان نے پہلے ہی اپنے تیورسخت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں معقول معاوضہ فراہم کیا جائے۔ذرائع کا کہنا ہے یہ متبادل شاہراہ پانپور سے منی گام تک،واتھورہ چاڑورہ،سویہ بگ،نارہ بل،سمبل اور لار سے ہوکر منی گام تک پہنچے گی،اور اس کیلئے پلوامہ،بڈگام اور بارہمولہ و بانڈی پورہ کے کچھ علاقوں سمیت گاندربل میں کافی زرعی اراضی حاصل کی جائے گی۔ پہلے مرحلے میں گالندر سے نارہ بل اور دوسرے مرحلے میں نارہ بل سے منی گام تک پروجیکٹ کو مکمل کیا جائے گا،جبکہ سب سے زیادہ اراضی4ہزار کنال عنقریب ہی حاصل کئے جارہے ہیں۔گاندربل میں اس شاہراہ کیلئے2ہزار341کنال اراضی حاصل کی جائے گی۔ اس پروجیکٹ کو نیشنل ہائے وے اٹھارٹی آف انڈیا مکمل کریگی،جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں این ایچ آئی ائے کو پہلے ہی متعلقہ ضلع ترقیاتی کمشنروں کے کھاتوں میں رقومات جمع کرنے کی ہدایت دی گئی ہے،تاکہ اراضی کی حصولیابی کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اہم پروجیکٹ کی نگرانی براہ راست وزیرا عظم آفس کرے گا۔ادھر پروجیکٹ شروع ہونے سے قبل ہی سرینگر کی پریس کالونی میں منگل کو اراضی مالکان ویلفیئر کمیٹی کے جھنڈے تلے سینکڑوں لوگ جمع ہوئے اور’’یہ زمین ہماری ہے،اس کی قیمت ہم طے کرینگے‘‘ کے نعرے بلند کیے‘‘۔ احتجاجی مظاہرین نے کہا کہ نیشنل ہائے وئے اتھارٹی آف انڈیا بیرون ریاستوں میں سڑکوں کے زیر اثر آنے والی اراضی یا جائیداد میںدیہی علاقوں میں4گنا اور شہری علاقوں میں2گنا معاوضہ فراہم کرتی ہے،اور جموں کشمیر میں یہ قانون نافذ نہ ہونے کی صورت میں اراضی مالکان کو نقصان ہوگا۔ مذکورہ کمیٹی کے صدر جی ائے پال نے کہا کہ اس سلسلے میں یہ معاملہ ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی وزیر مال اور تعمیرات عامہ کے وزیر سمیت متعدد وزراء اور ممبران اسمبلی کے ساتھ بھی اٹھایا،اور انہیں یہ مطالبہ کیا گیا کہ حکومت ریاست میںاراضی حصولیابی قانون کی نئی شکل سے متعلق آرڈی ننس جاری کریں،تاکہ متاثرہ لوگوں کو معقول معاوضہ فراہم ہو سکے۔ پال نے بتایا کہ وادی میں پہلے ہی زرعی اراضی،نئی کالونیوں ،تجارتی مراکز،ریلوئے اور سڑکوں کی نذر ہوگئی،جبکہ اس بات کا انکشاف کیا کہ اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو آئندہ15سے20برسوں میں80سے90فیصد کسان اراضی سے محروم ہونگے،جبکہ دوسری طرف ریاستی حکومت بھی کسانوں کے ساتھ نا انصافی کر رہی ہے،اور کھوٹے سکھوں کے مول ان سے ارضی حاصل کی جا رہی ہے۔انہوں نے الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا کہ اگر انکے مسائل کو حل نہیں کیا گیا تو وہ اہل و عیال سمیت سڑکوں پر آنے کیلئے مجبور ہونگے۔ پال نے مطالبہ کیا کہ مجوزہ شاہراہ کی تعمیر کیلئے فلڈ چینل یا جھیل ولر کے ارد گرد سے حاصل کرنے کو لازمی قرار دیا جائے،نہ کہ کارواس(وڈروں) سے اراضی حاصل کی جائے۔انہوں نے کہا کہ اس عمل سے فلڈ چینل اور ولر سے بڑے پیمانے پر تلچھٹ اور فضلہ بھی صاف ہوگا۔