زندگی
سبدر شبیر
زندگی ایک ایسا سفر ہے جو بچپن کی معصومیت سے شروع ہو کر جوانی کے خوابوں اور بڑھاپے کی حقیقتوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اس سفر میں ہم ہر موڑ پر نئے مناظر دیکھتے ہیں، کچھ خوشیوں کے رنگ بکھیرتے ہیں تو کچھ غم کے سائے تلے گزرتے ہیں۔ کبھی راستہ ہموار ہوتا ہے اور کبھی کٹھن چڑھائیاں سامنے آتی ہیں۔ مگر ایک حقیقت ہر انسان کے دل میں گہرائی سے پیوست ہوتی ہے کہ اگر اس سفر میں کوئی ایسا ساتھی مل جائے جو دکھ میں ڈھارس بندھائے، خوشی میں شریک ہو، اور ہر حال میں ساتھ رہے، تو زندگی کا سفر آسان اور خوشگوار ہو جاتا ہے۔ یہی ساتھی رفیقِ حیات کہلاتا ہے۔
رفیقِ حیات محض ایک ہم سفر نہیں ہوتا بلکہ وہ شخص ہوتا ہے جو ہماری ہنسی میں خوشی محسوس کرتا ہے، آنسو میں دکھ بانٹتا ہے، اور خاموشی میں دل کی دھڑکن سن لیتا ہے۔ اس کا وجود دل کو سکون اور زندگی کو مقصد عطا کرتا ہے۔ انسان فطری طور پر تنہا رہنے کے لیے پیدا نہیں ہوا۔ اس کے دل میں ہمیشہ یہ خواہش رہتی ہے کہ کوئی اس کی بات سمجھے، اس کے جذبات کو محسوس کرے اور زندگی کی دوڑ میں اس کا ہاتھ تھامے۔ رفیقِ حیات اسی فطری ضرورت کا جواب ہے۔
ایک اچھا رفیقِ حیات وہی ہے جو نہ صرف خوشیوں میں ساتھ دے بلکہ مشکل وقت میں بھی ثابت قدم رہے۔ زندگی کے نشیب و فراز میں جب حالات انسان کو آزمانے لگتے ہیں، جب خواب ٹوٹنے لگتے ہیں اور حوصلے کمزور پڑنے لگتے ہیں، تب ایک سچا رفیقِ حیات وہ روشنی بن جاتا ہے جو اندھیرے میں راستہ دکھاتی ہے۔ اس کی ایک مسکراہٹ مایوسی کے بادل ہٹا دیتی ہے اور اس کے چند حوصلہ افزا الفاظ ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑ دیتے ہیں۔
رفیقِ حیات کا انتخاب زندگی کے اہم ترین فیصلوں میں سے ایک ہے۔ ایک غلط انتخاب زندگی کو کانٹوں بھرا راستہ بنا دیتا ہے جبکہ ایک درست انتخاب زندگی کو گلزار میں بدل دیتا ہے۔ اس انتخاب میں محبت کے ساتھ ساتھ ہم آہنگی، عزت، اعتماد اور سمجھ بوجھ کا ہونا ضروری ہے۔ محبت وقتی جوش پیدا کر سکتی ہے مگر طویل رفاقت کا راز برداشت، قربانی اور وفا میں پوشیدہ ہے۔
رفاقت کے کئی رنگ ہوتے ہیں۔ شادی شدہ زندگی میں شریکِ حیات سب سے بڑا رفیقِ حیات ہوتا ہے، لیکن یہ کردار صرف میاں بیوی تک محدود نہیں۔ کبھی کوئی مخلص دوست، بچپن کا ہم جماعت یا زندگی کے کسی موڑ پر ملنے والا ہمدرد انسان بھی رفیقِ حیات بن سکتا ہے۔ کچھ لوگ اپنی زندگی کے سفر میں روحانی رہنماؤں یا اساتذہ کو یہ مقام دیتے ہیں جو ان کی سوچ بدل کر زندگی کی سمت درست کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات کوئی مقصد یا نظریہ بھی انسان کا رفیقِ حیات بن جاتا ہے، جو اسے تھام کر آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔
ایک سچا رفیقِ حیات وہی ہے جو ایمان دار ہو، اعتماد کے قابل ہو، محبت میں خلوص رکھتا ہو اور صبر و برداشت کی خوبیوں سے مزین ہو۔ وہ اختلاف رائے میں بھی رشتے کو قائم رکھنے کا فن جانتا ہو۔ اس کے لیے رفاقت کا مطلب صرف آسان لمحوں میں ساتھ دینا نہیں بلکہ طوفان میں بھی کشتی کو ڈوبنے نہ دینا ہو۔
جو لوگ زندگی میں اس نعمت سے محروم رہتے ہیں وہ اکثر تنہائی اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اکیلے پن کا بوجھ انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت دونوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ایک مخلص رفیقِ حیات رکھنے والے لوگ زیادہ خوش، زیادہ صحت مند اور زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنے میں زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔
تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر رفاقت آزمائش سے گزرتی ہے۔ کبھی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں، کبھی مزاج کا فرق سامنے آتا ہے اور کبھی حالات کا دباؤ رشتے کو کمزور کرنے لگتا ہے۔ مگر ایک مخلص رفیقِ حیات ان تمام مشکلات کو قربانی، صبر اور محبت سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ الزام تراشی کے بجائے بات چیت اور سمجھوتے کو ترجیح دیتا ہے۔
اسلامی تعلیمات میں بھی رفیقِ حیات کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ قرآنِ کریم میں میاں بیوی کے تعلق کو سکون کا ذریعہ قرار دیا گیا اور فرمایا گیا: ’’اور اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کے پاس سکون پاؤ، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔‘‘ حضورؐ نے بھی ارشاد فرمایا: ’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو۔‘‘ اس سے واضح ہوتا ہے کہ رفیقِ حیات کا کردار صرف دنیاوی سہولت کا نہیں بلکہ دینی فریضے کا بھی ہے۔
رفاقت کا اثر انسان کی شخصیت پر بھی نمایاں ہوتا ہے۔ ایک اچھا ساتھی انسان کو مثبت سوچ، بہتر عادات اور بلند اخلاق کی طرف مائل کرتا ہے۔ اس کے برعکس، برا ساتھی زندگی کو انتشار اور پریشانی میں ڈال دیتا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ رفیقِ حیات صرف ایک شریک نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جو ہمیں ہماری خوبیوں اور خامیوں کا عکس دکھاتا ہے۔
زندگی میں سب سے قیمتی لمحے وہ ہوتے ہیں جب ہم اپنے رفیقِ حیات کے ساتھ ہنسی بانٹتے ہیں، کسی مسئلے پر ایک ساتھ سوچتے ہیں یا خاموشی میں بھی ایک دوسرے کے احساسات کو سمجھ لیتے ہیں۔ یہ رشتہ وقت کے ساتھ اور مضبوط ہوتا ہے، بشرطیکہ دونوں فریق اس کی آبیاری محبت اور احترام سے کرتے رہیں۔
آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ رفیقِ حیات وہی ہے جو صرف خوشی کے دنوں میں نہیں بلکہ دُکھ کے اندھیروں میں بھی ہاتھ تھامے رکھے۔ وہ جو وقت، حالات اور فاصلے کے بدلنے سے نہیں بدلتا۔ اس کی رفاقت روشنی کے مینار کی مانند ہے جو طوفانی سمندر میں بھی راہ دکھاتا ہے۔ اگر کسی کو ایسا ساتھی نصیب ہو جائے تو یہ اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہےاور اس کی قدر کرنا نہ صرف ضروری بلکہ فرض ہے۔ کیونکہ رفاقت کا اصل حسن ساتھ چلنے میں نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے دل میں ہمیشہ کے لیے جگہ بنانے میں ہے۔