مولانا نعمان نعیم
بدعنوانی ،خیانت ،دھوکادہی ،کارِسرکار میں غبن ،ناپ تول میں کمی یہ تمام کرپشن سے تعبیر کیے جاتے ہیں۔ قرآن کریم نے جن نافرمان قوموں کی بربادی وہلاکت کی عبرت ناک داستان بیان کی ہے، ان میں خطیب الانبیاء،حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم بھی ہے،جس کی تباہی کا سب سے بڑا سبب کفرو شرک کے بعد، اس میں پایا جانے والا کرپشن، غبن، ناپ تول میں کمی اور خیانت تھا۔ اس قوم کے جلیل القدر پیغمبر، ان کے معاشرے میں ایک طویل عرصے تک حق واصلاح احوال کی صدا لگاتے رہے اور انہیں باربار غبن وکرپشن کی وبا سے نکلنے اور بچنے کی تلقین کرتے رہے۔ وہ کہتے رہے:’’اے میری قوم! ناپ تول کو مکمل انصاف کے ساتھ پورا کرکے دیا کرو اور لوگوں کی چیزوں میں کمی (اورکرپشن) نہ کرو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھیرو۔ (سورۂ ہود)
لیکن سرکشی میں مبتلا قوم پر ان پیغمبرانہ صداؤں کا کوئی اثر نہ ہوا،اس قوم کے رگ وریشے میں خیانت وکرپشن اس طرح پیوست ہوگیا تھا کہ اصلاحِ حال کی یہ صدائیں، ان کی سمجھ میں نہیں آرہی تھیں، وہ جواب میں کہتی رہی’’اے شعیب! تمہاری اکثر باتیں ہم سمجھ نہیں پاتے۔‘‘ جب وہ کسی طرح نہیں سدھرے اور مہلت کا عرصہ تمام ہوا تورب کی طرف سے پکڑ آئی اور ایک چیخ نے سرکشوں کو صفحۂ ہستی سے یوں مٹادیا، جیسے وہ ان بستیوں میں کبھی آباد ہی نہ تھے۔
دیکھیے قرآن کریم کے الفاظ میں کس قدر جلال وعبرت ہے:’’ان ظالموں کو ایک سخت آواز نے اس طرح پکڑ لیا کہ وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے رہ کر ختم ہوگئے کہ گویا کہ ان دیار میں کبھی آباد ہی نہ تھے،سنو،قوم مدین ایسے ہی اللہ کی رحمت سے دُور ہوئی، جیسے قومِ ثمود ہوئی۔‘‘
کرپشن اور خیانت سے عالم میں فساد پھیلتا اور نسل انسانی کو نقصان ہوتا ہے۔ جب کسی معاشرے کے اندر، دوسروں کے حقوق غصب کرنے، ان میں کمی کرنے اور خیال نہ رکھنے کی فضا پیدا ہوجائے تو ایسا معاشرہ ازخود فساد کی طرف بڑھتا ہے، ایسی ظالمانہ فضا میں پرورش پانے والے ہمیشہ دوسروں کا حق مارنے کی تگ ودو میں رہتے ہیں۔
وہ اپنے ذمے دوسروں کے حقوق کی ٹھیک ادائیگی کی کبھی فکر نہیں کرتے، جس کی وجہ سے سماجی اور معاشرتی رویوں میں بگاڑ آتا ہے، دشمنیاں جنم لیتی ہیں اور فساد کی نئی نئی شکلیں پیدا ہوتی ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس قوم کے اندر یہ خرابی پائی جائے گی، اللہ تعالیٰ اسے قحط اور مہنگائی کے عذاب میں مبتلا فرمادے گا۔‘‘
آج ہماری قوم مہنگائی اور ہوش رُبا گرانی کے جس عذاب سے دوچار ہے، وہ اسی کرپشن اور خیانت کا شاخسانہ ہے، جس کی آوازیں ہر سمت سے اٹھ رہی ہیں۔ شاید ہی کوئی شعبہ اور محکمہ ایسا ہو جو کرپشن سے خالی ہو۔ اگر کوئی دردمند اس کی نشاندہی کرتا ہے تو اس کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے اور بسا اوقات یہ نشاندہی خود اس کے لیے وبالِ جان بن جاتی ہے۔ جس شخص کے پاس، جس قدر اختیار واقتدار ہے، اس کے کرپشن کا حجم عموماً اسی قدر بڑا ہوتا ہے۔ اس عمل کا نتیجہ گرانیِ اشیاء کے عذاب کی شکل میں ہم سب کے سامنے ہے کہ ایک عام آدمی کے لیے زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
جب تک صاحبِ اقتدار اور صاحبِ اختیارطبقہ اس وبا کو ختم نہیں کرے گا اور اصلاح احوال کے لیے فوری اقدامات اور کوشش نہیں کرے گا، گرانی، مہنگائی اور قحط کے عذاب سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
’’رشوت‘‘کا لین دین اور کسی بھی معاشرے میں اس کا عام ہونا اس معاشرے کی بربادی ،استحصال ،وہاں عدل و انصاف کے فقدان اور اس معاشرے کی تہذیب و ثقافت کے بگاڑ کا بنیادی سبب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینِ فطرت اوردین ِ انسانیت ،اسلام میں رشوت کے حوالے سے سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔رسول اللہؐ کا ارشاد ِ گرامی ہے: رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ جب کہ قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے:’’اور آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھائو۔‘‘ (سورۃ البقرہ)مزید فرمایا گیا: ’’اللہ نے کتاب سے جو کچھ اتارا، اسےجو(لوگ )چھپاتے ہیں اوراس کے ذریعے معمولی معاوضہ حاصل کرتے ہیں، وہ اپنے پیٹوں میں آگ ہی بھرتے ہیں، اللہ ان سے قیامت کے دن بات نہ کرے گا، نہ انہیں پاک صاف کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (سورۃ البقرہ)
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)