معصوم مراد آبادی
اردو زبان کی شیرینی اور لطافت کی داستانیں تو آپ نے بہت سنی ہیں ، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس زبان کی روزبروز تلخ ہوتی ہوئی صورتحال پر غور کریں ۔اس کے ساتھ ہی یہ بھی جانیں کہ موجودہ حالات کے جبر سے نکلنے کی راہ کیا ہے؟ جس وقت یہ سطریںتحریر کی جارہی ہیں تو پوری دنیا میں مادری زبان کا عالمی دن منایا جارہا ہے اور یہ قسمیں کھائی جارہی ہیں کہ ہمیں بہر صورت اپنی مادری زبان کا تحفظ کرنا ہے ۔ اردو نہ صرف ہماری مادری زبان ہے بلکہ اس زبان نے ہم جیسے ہزاروں انسانوں کو عزت و شہرت عطا کی ہے۔ اس لیے ہم پر اس بات کی دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی منصوبہ بندی کریں۔
یہ محض اتفاق ہے کہ مادری زبان کے عالمی دن سے ایک روز قبل راقم الحروف نے لکھنؤ میں ایک آل انڈیا اردو کانفرنس میں شرکت کی ، جہاں ملک کے کئی نامی گرامی ادیب ،سرکردہ صحافی اور دانشور موجودتھے۔ اس کا اہتمام اردو فاؤنڈیشن آف انڈیا اور نجب النساء میموریل ٹرسٹ نے فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی کے تعاون سے کیا تھا۔ شرکاء نے اس موقع پر جہاں ملک کی مختلف ریاستوں میں اردو کی صورتحال کا جائزہ لیا ، وہیں کچھ ایسی تجاویز بھی پیش کی گئیںجن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس ذیل میں پروفیسر شارب ردولوی ،پروفیسر صفدرامام قادری اور پروفیسر اخترالواسع نے اہم نکات پر گفتگو کی۔ یوں تو ملک بھر میں اس قسم کی کانفرنسیں ہوتی رہتی ہیں ، مگر ان کے اثرات دیرپا نہیں ہوتے اور وہ محض رسم ادائیگی بن کر رہ جاتی ہیں ۔خدا کرے لکھنؤ کی یہ اردو کانفرنس اس حشر سے دوچار نہ ہو۔ چند گزارشات جو راقم نے اس کانفرنس میں پیش کی ہیں ، انھیں کسی قدر تفصیل کے ساتھ ان سطروں میں قلم بند کرنا مقصود ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔
لکھنؤ کی اس کانفرنس کے دوران مجھے ممتاز شاعر اور دانشور ملک زادہ منظوراحمد مرحوم کی بہت یادآئی۔اب سے کوئی 35برس پہلے19جون1988کو انھوں نے رابطہ کمیٹی کے زیراہتمام ایک عظیم الشان اردو کانفرنس کا اہتمام اسی لکھنؤ شہر کے گنگا پرشاد میموریل ہال میں کیا تھاجس میں یہ خاکسار بھی موجود تھا۔ اس کانفرنس کی خوبی یہ تھی کہ اس میں ملک بھر سے اردو کی عظیم شخصیات شریک ہوئی تھیں ۔ کانفرنس کے اہم شرکاء میں اندر کمار گجرال، سید حامد،مولانا کلب صادق،ہیم وتی نندن بہوگنا،پروفیسر محمد حسن، کمیونسٹ رہنماسی راجیشور رائو، سیدشہاب الدین اور پرنس انجم قدر سمیت متعدد شخصیات شامل تھیں۔کانفرنس کا افتتاح مولانا علی میاں نے کیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ملک زادہ منظور احمد نے رام لعل اور دیگر ہم خیال لوگوں کے ساتھ رابطہ کمیٹی کے پرچم تلے ایک تحریک چلائی ہوئی تھی۔رام لعل اس کے صدر تھے اور ملک زادہ منظوراحمد جنرل سیکریٹری۔ اس تحریک کا مقصد اردو زبان وتہذیب کااحیاء تھا ۔اس وقت تک لکھنؤ کی سڑکوں ،دکانوں ومکانوں پر اردو خوب نظر آتی تھی ، لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے۔اب یہاں اردو زبان اور تہذیب کو بچانے کی کوئی تحریک موجود نہیں ہے۔ لکھنؤ زیادہ ماڈرن ہوگیا ہے ۔اب حضرت گنج وغیرہ میں عالمی برانڈ کے خوبصورت شوروم نظرآتے ہیں،لیکن اس شہر کی بنیادی شناخت کہیں کھوگئی ہے۔
میں جب بھی اس شہر میں جاتا ہوں تو کچھ پرانی یادیں تازہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اگر آپ اردو کے موجودہ منظرنامے پر نظر ڈالیں تو سب سے زیادہ مایوسی اترپردیش میں ہاتھ لگتی ہے۔ وہ لکھنؤ جو کبھی شعروادب کا دبستان ہوا کرتا تھا ، اب مجھے اردو تہذیب ومعاشرت کا قبرستان نظر آتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اترپردیش میں اردو تعلیم وتدریس کا پورا نظام تہس نہس ہوگیا ہے۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس صوبے میں جہاں سرکاری سطح پر لاکھوں پرائمری اسکول ہیں ، وہاں ایک بھی اردو میڈیم اسکول نہیں ہے۔ اردو کی تعلیم پرائیویٹ اسکولوں اور مکاتیب تک محدود ہے۔اس کے برعکس اگر آپ اترپردیش کے باہر دیکھیں تو مہاراشٹر جیسی دوردراز ریاست میں ہائر سکینڈری سطح تک ہزاروں اردومیڈیم اسکول ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں اردو خوب پھل پھول رہی ہے۔ جنوبی ہند کی ریاستوں کرناٹک ، تلنگانہ اورآندھرا میں بھی سرکاری سطح پر اردو تعلیم کا بندوبست ہونے کی وجہ سے صورتحال بہتر ہے۔اسی طرح بہارو بنگال میںبھی حالات قدرے بہتر ہیں۔لیکن اردو کی سب سے ابتر صورتحال اترپردیش اور دہلی میں ہے۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہے۔ اترپردیش میں اردو کی راہیں مسدود کرنے کاکام صرف ایک مخصوص سیاسی سوچ نے ہی نہیں کیا ہے بلکہ اس کے لیے سب سے زیادہ ذمہ دار خود اہل زبان ہیں جنھوں نے اپنی مادری زبان کو گھروں سے باہر کردیا ہے۔ یہاں تک کہ اب قبروں کے کتبے بھی اردو میں نہیں لکھے جارہے ہیں۔ہمارے گھروں سے اردواخبارات وجرائد اور کتابیں ناپید ہوتی چلی جارہی ہیں۔اردو لائبریریاں خاک پھانک رہی ہیں۔ایک زمانے میں سنبھل کی ادبی شخصیت ڈاکٹر سعادت علی صدیقی مرحوم نے بھی اردو کو عملی زندگی میں اتارنے کی ایک مہم شروع کی تھی ، لیکن اب اردو اساتذہ بھی اس قسم کی تحریکوں میں دلچسپی نہیں لیتے۔المیہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے اردو کوسیڑھی بناکر ترقی کی بلند منزلیں طے کی ہیں ، ان کے بچے بھی اردو نہیں پڑھ رہے ہیں۔راشد عارفی نے اس شعر میں اس کرب کوبیان کیا ہے۔
میرے اللہ سے بس اتنی دعا ہے راشد
میں جو اردو میں وصیت لکھوں‘ بیٹا پڑھ لے
اردو والوں کو اس بات پر اطمینان رہا ہے کہ ملک کے مختلف صوبوں میں جو اردو اکادمیاں قایم ہیں ، وہ ان کی پذیرائی کا سامان کرنے کے لیے کافی ہیں۔ مگر اس وقت ملک بھر اردو اکادمیاں آخری سانسیں گن رہی ہیں۔ کسی زمانے میں اپنی کارکردگی سے نام کمانے والی اردو اکادمیوں کو ایسے لوگوں کے حوالے کردیا گیا ہے جو اردو زبان اور اس کی تہذیب سے قطعی نابلد ہیں۔ اس سے ان اکادمیوں کی کارکردگی پر منفی اثر پڑا ہے۔ پچھلے دنوں جب دہلی اردو اکادمی کی سربراہی ایک قطعی ناخواندہ شخص کے سپرد کی گئی تو راقم نے اس کے خلاف آواز بلند کی ، لیکن مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ اردو والوں نے اپنے حقیر مفادات کی خاطر اس پر توجہ نہیں دی اور انھوں نے مصلحت آمیز خاموشی اختیار کرلی۔ کاش اردو والے اپنے حقیر مفادات کے حصار سے نکل کر اردو کی حقیقی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
اترپردیش اور دہلی میں اردو زبان کو بسترمرگ سے اٹھانے کے لیے ایک ایسی زندہ تحریک کی ضرورت ہے جس کے تحت گلی اور محلوں میں انجمنیں قایم کی جائیں۔ عوام کو اردو زبان کی اہمیت سے متعارف کرایا جائے ۔ اردو کی ترقی کے لیے ایک مربوط لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔ ملک زادہ منظوراحمد اور رام لعل نے اردو رابطہ کمیٹی کے پرچم تلے جو تحریک شروع کی تھی اس کے احیاء کی سخت ضرورت ہے۔اس کے خدوخال کیا ہوں گے ، اس پر موجودہ حالات کے تناظر میں غوروخوض کرنے کی ضرورت ہے۔اس وقت سب سے بڑامسئلہ اردو رسم الخط کے تحفظ کا ہے۔ سوشل میڈیا پر زیادہ تر لوگ اردو کو رومن اور دیوناگری میں لکھ کر اس بات پر مطمئن ہیں کہ ان کی زبان زیادہ وسیع حلقوں تک پہنچ رہی ہے، لیکن یہ تصور دراصل اردو کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اردو کے دشمن تو یہی چاہتے ہیں کہ اردو کا رسم الخط ختم ہوجائے تاکہ اسے ہڑپنے میں آسانی ہو۔ذرا سوچئے ،کہیں ہم جانے انجانے میں اس سازش کا حصہ تو نہیں بن رہے ہیں۔ رسم الخط کے بغیر اردو کوزندہ رکھنے کا تصور بے معنی ہے ۔ جس طرح روح کے بغیر جسم لاش میں بدل جاتا ہے ، اسی طرح رسم الخط کے بغیر زبان دم توڑ دیتی ہے۔
[email protected]