رحیم رہبر
ایک تخلیق کار ہونے باوجود بھی میں رنگ شناس نہیں تھا۔ اس لئے میں یونہی کینواس پر بُرش سے کھیلتا تھا! دفعتاً کینواس پر ایک خوبصورت دوشیزہ اُبھر کر آئی! وہ بے مثال تھی! اُس کی آنکھیں جھیل جیسی تھیں! اُس نے سولہ سنگار کئے تھے! اُس نے سیاہ چُوس کی مانند میری فکر چُوس لی!
وہ سمندر کی طرح مغرور تھی! ساحل پر بیٹھی وہ حسینہ سمندر کی مغرور لہروں سے باتیں کرتی تھی۔
’’میں ایک تخلیق کار ہوں۔۔۔ میری ہر تخلیق سندرتا میں جنم لیتی ہے!۔۔۔ مجھے سندرتا بہت پسند ہے! ۔۔۔ میں حُسن کا شیدائی ہوں۔۔۔ مجھے ہر ہر چیز للکارتی ہے!۔۔۔ تمہاری زیبائش کو دیکھ کر میرے ہوش و خرر میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔۔۔ میں تمہیں دیکھ کر رنگوں سے آشنا ہورہاہوں‘‘۔
’’یہ حُسن، یہ سندرتا، یہ جوانی اور یہ دوشیزگی میں تُم پر فدا کرنے کے لئے تیار ہوں پر تمہیں میری ایک شرط قبول کرنی ہوگی۔‘‘
’’شرط!؟‘‘ میں نے حسینہ سے تعجب سے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔ہاں ہاں ایک شرط!‘‘ اُس نے اطمینان سے جواب دیا۔
’’شرط بتائو‘‘ میں نے انہماک سے پوچھا۔
’’اس سمندر کو گٹھری میں بند کرو۔‘‘ حسینہ نے مُسکراتے ہوئے کہا۔
میں نے دھیرے دھیرے سمندر کو گٹھری میں باندھا اور حسینہ کو پیش کیا۔ حسینہ نے آناً فاناً گٹھری کھول دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ حسینہ سمندر کے مرکز میں تھی۔ سمندر کی مغرور لہروں کے بیچ وہ کِھل کھلا کر ہنس رہی تھی! لہریں اُس کے حساس حصوں کو چومتی تھیں! ایک مست لہر نے اُس کے سر سے دوپٹہ سرکادیا۔ میں یہ دیکھ کر دھنگ سا رہ گیا۔ اُس کے سر پر بال نہیں تھے! میں چونک گیا۔
’’حیران مت ہوجائو، میں ایک راہبہ ہوں۔۔۔ میں نے اس سمندر میں سنیاس لیا ہے‘‘۔ اُس نے دھمی آواز میں بولا۔
اُن ہی شبدُوں کے ساتھ وہ سمندر میں کہیں غائب ہوئی۔ تھوڑا ہی وقفہ ہوا تھا کہ وہ راہبہ خود ایک سمندر بن چکی تھی!۔
’’آ۔۔۔آجائو۔۔۔ مُجھ میں جذب ہوجائو۔۔۔ تمہاری نگاہوں کے دریچے وا ہونگے پھر تمہاری ہر تخلیق بولے گی!‘‘۔
راہبہ کے وہ الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں!
���
آزاد کالونی پیٹھ کانہامہ ماگام
موبائل نمبر؛9906534724