۔31جنوری 2012ء کو ہندوستانی وزارتِ دفاع نے اعلان کیا کہ ہندوستان فرانس سے126 ڈیسالٹ رافیل لڑاکا طیارے خریدے گا۔ اس معاہدے کے تحت فرانسیسی کمپنی ڈیسالٹ ایوی ایشن نے 18 لڑاکا طیارے مکمل تیار کرکے ہندوستان کو دینے تھے اور باقی 108 طیارے ہندوستان کے سرکاری ادارے ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ اور ڈیسالٹ ایوی ایشن کے اشتراک سے ہندوستان میں تیار ہونے تھے۔اس معاہدے میں یہ بھی طے ہوا کہ ڈیسالٹ ایوی ایشن یہ طیارے بنانے کی ٹیکنالوجی ہندوستان منتقل کرے گی۔ معاہدے کی شرائط اور طریقہ کار طے کرنے کے لیے مذاکرات شروع ہوئے۔ 2014ء آگیا لیکن معاملات طے نہ ہوسکے۔ یہاں تک سب کچھ اصولوں کے مطابق چل رہا تھا لیکن اس کے بعد جو ہوا اُس نے اب مودی حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔اس تمام مدت کے دوران طیاروں کا بجٹ دو گنا بڑھ جانے کے باعث مودی حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ 126 طیاروں کے بجائے مکمل تیار شدہ صرف 36 طیارے خریدے گی اور ہندوستانی سرکاری کمپنی کے ذریعے طیارے بنانے کا منصوبہ یہ کہہ کر ختم کردیا گیا کہ دفاعی ساز و سامان تیار کرنے والی سرکاری کمپنی ہندوستان ایروناٹکس جنگی طیارے بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
انڈین نیشنل کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے معاہدے کو عوام کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ کیا جسے مودی حکومت نے ماننے سے انکار کردیا۔ مودی حکومت نے بہانہ بنایا کہ رافیل معاہدے میں ملکی راز افشا ہونے کا خدشہ ہے، لہٰذا قومی سلامتی کے پیش نظر ہندوستانی حکومت رافیل معاہدہ اسمبلی میں پیش نہیں کرسکتی۔وزیراعظم نریندر مودی نے 36 طیاروں کی خریداری کے لیے 10 اپریل 2015ء کو فرانس کا دورہ کیا۔ اس دورے میں انیل امبانی ان کے ساتھ تھے۔ اپوزیشن نے الزام لگایا کہ انیل امبانی نے نریندر مودی کے فرانس جانے سے 13 دن پہلے ریلائنس ڈیفنس کے نام سے نئی کمپنی بنائی لیکن انیل امبانی اور ان کی کمپنی نے ان الزامات کو جھوٹا قرار دیا۔معاہدہ ہونے کے اگلے دن کانگریس کے ترجمان منیش تیواری نے انیل امبانی کی سرکاری معاہدے کے دوران موجودگی اور خریداری کے طریقہ کار پر سوالات اٹھا دئے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مودی سرکار نے رافیل طیارے 3 گنا مہنگے خریدنے کا معاہدہ کیا ہے اور اس معاہدے سے انیل امبانی کو فائدہ ہوا ہے۔ انیل امبانی نے وضاحت دی کہ وہ بزنس مین کی حیثیت سے اجلاس میں شامل ہوئے۔ ایئر چیف مارشل برندر سنگھ اور وزیر دفاع نرملا سیتا رمن نے معاہدے کو صاف اور شفاف اور خریداری کو قانونی قرار دے دیا۔یہ کشمکش ابھی عروج پھر تھی کہ سابق فرانسیسی صدر فرنکوئس ہولاندے نے فرانسیسی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے انیل امبانی کے ریلائینس گروپ کے ساتھ طیاروں کی ڈیل کرنے پر زور دیا۔ اس کے بعد انہوں نے یہ بیان ہندوستان کے این ڈی ٹی وی پر بھی دیا۔ فرنکوئس ہولاندے کا یہ بیان مودی حکومت پر بم بن کر گرا۔ میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور اپوزیشن جماعت کے صدر راہول گاندھی کے بیانیے کو تقویت مل گئی۔اس وقت مودی حکومت رافیل معاہدے میں کرپشن کے الزامات کی زد میں ہے۔ یہ الزامات ابھی ثابت نہیں ہوئے لیکن ہندوستانی میڈیا اور صحافتی حلقوں کا خیال ہے کہ اس اسیکنڈل کے سبب مودی حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوگا اور 2019ء میں ہونے والے عام انتخابات میں مودی حکومت شاید دوبارہ حکومت نہ بناسکے۔ہندوستان میں اس اسیکنڈل کے بارے میں میڈیا بھی تقسیم دکھائی دیا۔ رافیل اسیکنڈل پر ’’ری پبلک ٹی وی‘‘ اور’ ’این ڈی ٹی وی‘‘ کے پروگرام قابل ذکر ہیں۔ ری پبلک ٹی وی پر صحافی ارناب گوسوامی یہ ثابت کرنے کی کوشش میں نظر آتے ہیں کہ کانگریس رائی کا پہاڑ بنا رہی ہے اور رافیل اسیکنڈل جھوٹ پر مبنی ہے، جب کہ این ڈی ٹی وی کے رویش کمار مودی حکومت پر سخت تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
’’ہندوستان ٹائمز‘‘ بھی اس وقت مودی سرکار پر تنقید کرتا دکھائی دیتا ہے۔ راج دیپ سردیسائی نے ہندوستان ٹائمز میں ایک کالم لکھا ہے اور رافیل اسیکنڈل کو مودی حکومت کے لیے سب سے بڑا دردِ سر قرار دیا ہے۔ جیسے جیسے فرانسیسی صدر کے بیانات سامنے آ رہے ہیں میڈیا میں موجود حکومت کے حامی صحافیوں کے لیے حکومت کا دفاع بھی مشکل ہونے لگا ہے اور وہ بھی حکومت پر تنقید کرنے لگے ہیں۔
اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر یہ رائے بن چکی ہے کہ مودی حکومت رافیل اسیکنڈل میں مجرم ہے اور نریندر مودی نے اپنے دوست انیل امبانی کو اربوں روپوں کا فائدہ پہنچایا ہے۔ برصغیر کی سیاست میں اس وقت سب سے زیادہ اہم کردار اگر کوئی میڈیا ادا کر رہا ہے تو وہ سوشل میڈیا ہے۔ پاکستان میں بدلتی حکومت اور الیکشن میں وہی پارٹی کامیاب ہوئی ہے جس نے سوشل میڈیا کو کنٹرول کیا ہے۔
راہول گاندھی سوشل میڈیا کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے ہیں اور انہوں نے سوشل میڈیا پر بھرپور مہم چلا رکھی ہے۔ اس وقت پورے ہندوستان میں ایک نعرہ سب سے زیادہ مقبول ہوگیا ہے اور وہ نعرہ ہے کہ’’میرا وزیراعظم چور ہے‘‘۔ کئی دنوں تک راہول گاندھی کا یہ نعرہ ٹویٹر انڈیا کا ٹاپ ٹرینڈ رہا ہے۔رافیل اسیکنڈل کا کیا بنے گا؟ کیا اس کے ذمہ داروں کو سزا ملے گی؟ اور کیا واقعی اس کا مودی حکومت پر کوئی اثر پڑے گا؟ ان سوالات کے جوابات تو فی الحال اگرچہ مشکل ہیں لیکن متوقع نتائج شاید بوفور س اسیکنڈل جیسے ہی ہوں گے۔ بوفورس (Bofors) اسیکنڈل 1980ء کی دہائی میں راہول گاندھی کے والد راجیو گاندھی اور سویڈن کے مابین اسلحہ خریدنے سے متعلق تھا جس میں راجیو گاندھی پر کِک بیک لینے کا الزام تھا۔یہ الزام کافی ثبوتوں کے ساتھ ثابت بھی ہوتا رہا لیکن بعد ازاں یہ اسیکنڈل بھی سیاست کی نذر ہوا۔ اس اسیکنڈل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے راجیو گاندھی نے بھی پاکستان دشمنی کا نعرہ لگایا لیکن وہ نعرہ کامیاب نہ ہوسکا۔ اس اسیکنڈل نے راجیو گاندھی کی حکومت کو بہت سیاسی نقصان پہنچایا اور نتیجہ یہ نکلا کہ کانگریس الیکشن ہار گئی لیکن بوفورس اسیکنڈل آج تک عدالتوں میں دھکے کھا رہاہے ۔رافیل اسیکنڈل کو ہندوستانی تجزیہ کار بوفور اسیکنڈل سے بڑا اسیکنڈل قرار دے رہے ہیں لیکن اس کا انجام بوفورس اسیکنڈل جیسا ہوتا ہی دیکھاجارہاہے ۔ ہندوستان میں صرف وقت بدلا ہے لیکن اسیکنڈل اور سیاست تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ 38 سال پرانی ہی ہے۔
معاملے کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے وکیل منوہر لال شرما نے رافیل معاہدے کو ختم کرنے کے لیے اپیل دائر کی ہے اور سپریم کورٹ آف انڈیا نے رافیل اسیکنڈل کو سننے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ مئی 2019ء میں ہندوستان کے عام انتخابات ہیں اور اگر اس وقت سپریم کورٹ مودی حکومت کو رافیل اسکینڈل کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے تو اس کا اثر عام انتخابات پر پڑے گا۔
اگر رافیل اسیکنڈل میں مودی حکومت بچ بھی گئی تب بھی سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران جو کیچڑ مودی حکومت پر اُچھلے گا، اس سے نریندر مودی کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے گر جائے گا۔
آج اگر ہم مودی حکومت کی مقبولیت کا ذکر کریں تو وہ پچھلے 5 سال کی کم ترین منفی سطح پر آچکی ہے۔ حالاں کہ مودی سرکار نے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ اچھے فرق سے حاصل کیا ہے لیکن میڈیا پر طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ حکومت نے تادیبی کاروائی کرتے ہوئے صحافیوں اور میڈیا اداروں کو نوٹسیں بھی جاری کئے ہیں اور این ڈی ٹی وی کو بند کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔اس کے علاوہ اپوزیشن رہنماؤں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ وہ رافیل اسیکنڈل پر خاموش رہیں،لیکن مودی حکومت شاید یہ بھول رہی ہے کہ جب ہوا کا طوفان مخالف سمت چلن لگے تو آپ زیادہ دیر اپنے پیر زمین پر جما کر نہیں رکھ سکتے۔