سمت بھارگو
راجوری//راجوری اور پونچھ اضلاع میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران زیریں علاقوں میں مسلسل بارش اور بالائی علاقوں میں برفباری نے موسم کو غیر معمولی بنا دیا ہے۔ اکتوبر کے مہینے میں اس طرح کے موسم نے جہاں سردیوں کی قبل از وقت آمد کا احساس دلایا ہے، وہیں کسانوں میں گہری تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔موسم کی اس غیر متوقع تبدیلی نے کسانوں کی محنت پر پانی پھیر دیا ہے۔ مکئی، دھان اور خشک گھاس جیسی فصلیں جو اس وقت کٹائی کے مرحلے میں تھیں، مسلسل بارش کے باعث شدید متاثر ہوئی ہیں۔ کھڑی فصلوں کے ساتھ ساتھ وہ اناج بھی خراب ہونے کے خدشے میں ہے جو پہلے ہی کاٹ کر کھیتوں یا کھلیانوں میں رکھا گیا تھا۔مقامی کسانوں نے بتایا کہ بارش کی وجہ سے فصلوں میں نمی بڑھ گئی ہے جس کے باعث اناج سڑنے کا خطرہ ہے۔ راجوری کے علاقے درہال سے تعلق رکھنے والے محمد جمیل نے کہاکہ ’’ہماری فصلیں اسی صورت بچ سکتی ہیں اگر اگلے پانچ دن موسم صاف رہے۔
اگر بارش کا سلسلہ جاری رہا تو ساری محنت ضائع ہو جائے گی‘۔پیر پنجال کے بالائی علاقوں، جن میں پیر کی گلی، دیار، بفلیاز، دیرہ کی گلی اور سرنکوٹ کے پہاڑی علاقے شامل ہیں، میں تازہ برفباری ریکارڈ کی گئی ہے۔ برفباری کے سبب جانوروں کے چارے کی قلت کا بھی اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کیونکہ بارش اور برف نے گھاس کو گیلا اور ناقابلِ استعمال بنا دیا ہے۔محکمہ زراعت کے ماہرین نے کسانوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ کرشی وگیان کیندر راجوری کے انچارج ڈاکٹر اروند کے اِشر نے کہا کہ کسان اپنی کٹی ہوئی فصلوں کو اچھی طرح خشک کریں تاکہ اناج گلنے یا خراب ہونے سے محفوظ رہ سکے۔ انہوں نے کہاکہ ’کسانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی فصلوں کو کھلی ہوا میں پھیلائیں اور انہیں مکمل طور پر خشک ہونے کے بعد ہی اسٹور کریں، ورنہ اناج بیکار ہو سکتا ہے‘۔ڈاکٹر اِشر نے مزید بتایا کہ محکمہ موسمیات کے مطابق بدھ سے بارش رکنے کا امکان ہے، لہٰذا کسان اپنی کٹائی کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کر سکتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگر موسم بہتر رہا تو فصلوں کو مزید نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔اس دوران، کسانوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں فوری طور پر فصل نقصان کا جائزہ لیا جائے اور اگر ضرورت ہو تو معاوضے کا اعلان کیا جائے تاکہ غریب کسانوں کو اس غیر متوقع موسم کے نقصانات سے کچھ ریلیف مل سکے۔غیر موسمی بارش اور برفباری نے جہاں زرعی پیداوار پر اثر ڈالا ہے، وہیں اس نے پیر پنجال خطے کے دیہی معیشت کے لئے ایک نیا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔