ٹی این بھارتی
امی جان !امی جان ! میرا کُرتا ،پا جامہ اور ٹوپی دے دیجئے، مسجد میں رمضان کا چاند دیکھنے جائو ں گا، غازی نے ضد کرتے ہو ئے کہا تو اس کی پھو پھی زاد بہن مد یحہ چہک کر بولی مما نی جان! مجھے بھی سوٹ شلوار اور دوپٹہ پہنا دیجئے ،میں بھی جائو ں گی چاند دیکھنے۔ غازی نے ڈ انٹتے ہو ئے کہا، نہیں مدیحہ لڑکیاں مسجد میں نہیں جاسکتیں، تم گھر پر ہی رہو۔’’کیوں، کیوں نہیں؟ میں تو ضرور جائو ں گی‘‘ ! سکینہ مریم نے مدیحہ کی ہا ں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا غازی ہم کو نہیں روک سکتا ،ہم بھی چلیں گے۔ چلو، چلو! شمیسہ، عباس، باسق، عائشہ اور خسرو کو بھی بُلا لیتے ہیں۔مریم آپا ذرا رُ کئے ،میں اپنی سہیلی رادھا اور سادھنا سنگھ کو بھی بُلا لو ں، غازی درمیان میں بولا، میں بھی اپنے دوست رابرٹ کو بُلا لیتا ہوں۔ پانچ برس سے دس پرس تک کی عمر پر مشتمل بچوں کا قا فلہ جب گھر سے روانہ ہونے لگا تو غازی کی والدہ نور فاطمہ نے بچوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا، دیکھو! ’مسجد اللہ کا گھر ہے وہاں جا کر شور وغل مت کرنا‘ ۔ ٹھیک ہے امی جان، وعدہ رہا ہم بالکل شور نہیں مچائیں گے۔
پلک جھپکنے ہی سبھی بچے دبے پاؤں مسجد کی چھت پر چلے گئے ۔امام صاحب و دیگر نمازی حضر ات بھی چھت پر چاند دیکھنے کی بھر پور کو شش کرنے لگے۔ پل بھر میں امام صاحب نے چاند کا اعلان کردیا ۔ رمضان کا چاند نظر آگیا ہے، کل پہلا،روزہ ہو گا ۔ بچے امام صاحب کے ارد گرد جمع ہو کر چلانے لگے چاند کہاں ہے ؟ امام صاحب ہم کو چاند نظر نہیں آرہا؟ امام صاحب نے غازی کو اپنے کندھوں پر بیٹھا تے ہوئے کہا وہ دیکھو اوپر آسمان میں وہ رہا چاند۔ غازی تیز آواز میں ہاں! ہاں ! مجھے نظر آگیا چاند نظر آگیا۔ باقی بچے تپائی پر کھڑے ہو کر بولے ہم نے بھی دیکھ لیا چاند ! کل سے روزہ شروع۔ غازی نے مدیحہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا چلو گھر چلتے ہیں۔ گھر آکر بچے خوشی سے جھوم کر گانے لگے :
آہا ! آہا! ماہ رمضان آگیا