بر صغیر ہند کی مذہبی اور سیاسی و سماجی فضا پر دینی مدارس کے نہایت گہرے اثرات رہے ہیں۔ خصوصاً مسلم عہدِ حکومت کے خاتمے اور ۱۸۵۷ء کے بعد کے آشوب ناک حالات میں دینی مدارس نے سرمایہ ملت کے تحفظ کا جو گراں بار فریضہ انجام دیا ،وہ اپنے آپ میں تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ ایک مدت تک بے توجہی کا شکار رہنے کے بعد اب ادھر ایک عرصے سے دینی مدارس عالمی سطح پر توجہات کا مرکز بن گئے ہیں۔ اس میں منفیت اور شر کا پہلو موجود ہونے کے باوجود ان شا ء اللہ یہ صورتحال مدارس کے لیے نیک فال ہے، اگر ارباب مدارس بصیرت مندی اور کشادہ فکری کے ساتھ اس صورت حال کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا ثبوت پیش کریں۔
مدارس بنیادی طورپر دینی تعلیم کی اشاعت کے ادارے ہیں۔ اسلامی فکر و ثقافت کا فروغ اور ترویج ان کے مقاصد میں شامل ہیں۔ اس کا بنیادی وسیلہ ان کی نظر میں تدریس ہے، تاہم ہندوستان میں مدارس کی جدید تحریک نے جو ۱۸۶۶ء میں دارالعلوم دیوبند کے قیام سے شروع ہوئی، تدریس کے ساتھ صحافت کو بھی اگرچہ چنداں تاخیر کے ساتھ ایک اہم وسیلے کے طورپر استعمال کیا ۔ آگے چل کر اس نے مدارس کے حوالے سے ایک مضبوط ادارے کی شکل اختیار کر لی۔ اب دور جدید میں مدارس کی صحافت اپنا ایک مستقل اور مضبوط وجود رکھتی ہے۔ مدارس کی چہار دیواری سے نکل کر میدان صحافت میں آڈٹنے والے فضلائے مدارس کی خاصی تعداد ہے جس نے اردو صحافت کے گیسوؤں کو سنوارنے اور اسے مخصوص آہنگ عطا کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔مدارس اور دینی تنظیموں ( واضح رہے کہ دینی تنظیموں کی اکثریت اپنے وجود یا عمل میں مدارس کی ہی رہین منت رہی ہے) کی صحافت کی اپنی مختلف خوبیاں اور امتیازات ہیں اور اس کے ساتھ اپنی محدود یتیں اور کمزوریاںبھی۔ دین کی بنیادی تعلیمات سے عوام الناس کو آشنا کرنے ، روزمرہ کے سماجی مسائل میں دینی رہنمائی سے انہیںبا خبر رکھنے ، اپنی روایت و ثقافت کو زندہ رکھنے غرض یہ کہ مجموعی طورپر ان کے دینی شعور کی پرداخت اور اس کو پروان چڑھانے میں مدارس سے نکلنے والے مجلات و رسائل نے اہم رول ادا کیا ہے۔ مسلم معاشرے کی اصلاح کو مدارس کی صحافت میں خصوصی توجہ کا مرکز بنا یا گیا ہے۔ خود علما اور سماجی مصلحین کو جدید اور نت نئے معاشرتی چیلنجوں سے آگاہ رکھنے میں ان رسائل نے خصوصی کردار نبھایا ہے اور نبھا رہے ہیںلیکن اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ مدرسی صحافت کی اپنی بعض افسوس ناک کمزوریاں بھی رہی ہیں جن میں سب سے بڑی کمزوری مسلکی کشمکش کی اس فضا کو، جس نے امت کے اجتماعی وجود کو پارہ پاہ کر رکھا ہے، مزید پروان چڑھانے اور اس کو مستحکم کرنے کی کوشش ہے۔ اس کی دوسری بڑی کمزوری یہ ہے کہ اسے ان معاصر فکری چیلنجوں کا ادراک نہیں ہے جو اسلام کے فکری وجود کو لاحق ہیں۔ بنا بریں بہت سے چھوٹے اور سطحی مسائل پر
ارتکاز کے ساتھ، نہایت اہم اور غایت درجہ توجہ طلب مسائل سے صرفِ نظر کر لیا جاتا ہے اور وہ سرے سے زیر بحث ہی نہیں آتے۔بہر حال اپنی خوبیوں اور خامیوں دونوں حوالوں سے مدرسی صحافت کا موضوع ایک قلم کار اور محقق کے لیے دلچسپی کے مختلف عنوانات رکھتا ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس موضوع پر کوئی قابل ذکر کام سامنے نہیں آیا۔ شاید بعض صحافیانہ نوعیت کے مضامین اور رپورٹیں لکھی گئی ہوں لیکن راقم الحروف کے علم کے مطابق اردو میں کسی نے اس کو باضابطہ اپنی فکر و تحقیق کا موضوع نہیں بنایا۔ اس لحاظ سے اس کا سہرا معروف قلم کار و صحافی سہیل انجم کے سر جاتا ہے کہ انہوں نے اس کو اپنی مطالعہ و تحقیق کا موضوع بنانے پر توجہ مبذول کی۔ وہ بعض مضامین کی شکل میں اس پرخامہ فرسائی کر چکے ہیں او وہ راقم الحروف کی نظر سے بھی گزرے ہیں۔ باضابطہ کتاب کی شکل میں ان کی یہ تحقیقی و تجزیاتی کاوش لائق مطالعہ ہے۔مصنف نے جس دیدہ ریزی، تحقیقی عمق اور تجزیاتی بصیرت کے ساتھ اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے، وہ ان کے اہم علمی کارناموں میں سے ایک نمایاں کارنامے کی حیثیت رکھتا ہے۔ مصنف کے قلم کی ایک خوبی یہ ہے کہ انہوں نے بر صغیر ہند کے معروف مکاتب فکر کے نمائندہ رسائل و مجلات کا تعارف و تجزیہ، مسلکی تعصب و جانب داری کی نفسیات سے اوپر اٹھ کر، بے کم و کاست شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس کتاب میں چھ ابواب ہیں۔ پہلے میں مذہبی صحافت کا منظر پس منظر، دوسرے میں دینی صحافت کا تاریخی تناظر، تیسرے میں دینی صحافت کے نقوش ِ زریں، چوتھے میں ہم عصر دینی مجلات نقد و نظر کی روشنی میں، پانچویں میں اسلامی مجلات اپنے افکار کی روشنی میں اور چھٹے میں اختتامیہ ہے۔ یوں تو یہ پوری کتاب بہت اہم ہے لیکن اس کے دو باب تو بے حد اہم ہیں۔ ایک ہمعصر دینی مجلات نقد و نظر کی روشنی میں اور دوسرا اپنے افکار کے آئینے میں۔ نقد و نظر کی روشنی والا باب 44 صفحات پر مشتمل ایک طویل مضمون ہے جس میں انہوں نے انتہائی غیر جانبداری کے ساتھ رسائل و جرائد کا بہت ہی باریکی کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔ اس مضمون کو اگر حاصل کتاب کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ اس میں موجودہ دور میں شائع ہونے والے پرچوں کی خوبیوں اور خامیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ ان پرچوں میں کیا چھپتا ہے اور کیسے چھپتا ہے اس پر مفصل گفتگو کی گئی ہے۔ انہوں نے چاروں مکاتب فکر دیوبندی، اہلحدیث، بریلوی اور شیعہ کے مذہبی پرچوں کا انتہائی دیانتداری سے جائزہ لیا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے سینکڑوں پرچے کھنگالے ہیں اور ان کے موضوعات پر غائر نظر ڈالی ہے۔ جب کہ ثانی الذکر باب میں انہوں نے ہر مکتب فکر کے آٹھ آٹھ دس دس رسالوں کا انتخاب کیا ہے اور مختلف موضوعات پر ان کے اداریوں یا اہم مضامین کو شامل کیا ہے۔ اس سے ان مجلات کیمزاج کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ آخر میں انہوں نے ایک سو سے زائد مجلات کے ٹائٹل کے عکس دے دیے ہیں جس سے ان پرچوں کی ظاہری صورت بھی سامنے آجاتی ہے۔بہر حال یہ موضوع اس لحاظ سے خاردار ہے کہ اس میں بیشتر اہل علم اور تحقیق کاروں کے دامن الجھ جاتے ہیں۔ سہیل انجم کا قلم حشو و زوائد اور طول بیانی سے پاک ہے۔ اسلوب کی سادگی اور شگفتگی قاری کے مطالعاتی سفر میں ہدی خواں کا کام کرتی ہے۔ اُمید ہے کہ اس کتاب سے مدرسی صحافت کے خد و خال کو بخوبی سمجھنے میں مدد ملے گی اور اس سے مستقبل میں کیے جانے والے کاموں کی مزید راہیں ہموار ہوںگی۔ مصنف ہم لوگوں، مدارس اور دینی تنظیمات سے وابستہ افراد کے شکریے اور تحسین و تبریک کے مستحق ہیں۔ اس کتاب کو انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔