طب کی دنیا میں ایک مشہور مقولہ ہے کہ :-
علم طب معدوم تھا ،اُسے بقراطؔ نے ایجاد کیا
علم طب مردہ تھا اُسے جالینوسؔ نے زندہ کیا
علم طب متفرق تھا اُسے رازیؔ نے جمع کیا
علم طب ناقص تھا اُسے شیخ ؔ نے مکمل کیا
(شیخ ؔسے مراد شیخ الرئیس بو علی سیناؔ علیہ الرحمہ)
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دوسرے علوم و فنون کی طرح علم ِطبّ کی تاریخ بھی انسان کے حیرت انگیز ذہنی کمالات کا ایک عجیب و غریب اور درخشاں آئینہ ہے ۔مندرجہ بالا مقولے کی روشنی میں تاریخ کی اہم ترین شخصیات اس علم کے ساتھ وابستہ نظر آتی ہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طبّ کی تاریخ نے بو علی سینا سے زیادہ بالغ نظر ،نکتہ نواز ،فلسفی اور ماہر فن انسان پیدا نہیں کیا ہے ۔وہ طب یونانیؔ کا عامل بھی تھا اور مجدد بھی بلکہ وہ صرف طبّ یونانی کا ایک حکیم ہی نہیں ،ایک ماہر اُستاد ہی نہیںبلکہ بیک وقت ایک بہت بڑا فلسفی ،ریاض دان ،مفکر و شاعر و ادیب بھی تھا ۔اُس کی لاتعداد کتابیں جو ہر فن سے متعلق ہیں اُس کے زور قلم اور حُسن ِ ادا کا کمال اور بہترین ثبوت ہیں۔
شیخ الرئیس بو علی سیناؔایرانی النسل تھا ۔وہ سن 980ء میں پیدا ہوا اور صرف دس سال کی عمر تک اُس نے قرآن پڑھ لیا ،پھر ابتدائی درسی کتابیں پڑھ لیں اور اُس کے بعد اُس نے چھ سال فقہ ،فلسفہ ،علم طبیعات ،منطق ،اقلیدس اور دیگر علوم میں صرف کئے۔ازاں بعد سولہ سال کی عمر میں اُس نے علم طبؔ کی طرف توجہ مبذول کی ۔ابھی شیخ کی عمر صرف اٹھارہ سال کی تھی کہ اُس کی ایک ماہر طبیب کی حیثیت سے اس قدر نام ہوا اور شہرت حاصل ہوگئی کہ اُسے شاہی درباروں میں علاج و معالجے کے لئے طلب کیا جانے لگا ۔شیخ ؔنے اس چھوٹی سی عمر بلکہ نوجوانی کی عمر میں ہی قلم سنبھال کر اکیس بڑی اور چوبیس چھوٹی کتابیں مختلف علوم و فنون ،فلسفہ ،طب ،دینیات ،اقلیدس ،فلکیات ، لسانیات اور موسیقی پر تصنیف کیںاور خواص و عوام میں معاصرین کو حیرت میں ڈال دیا ۔اُس نے اُن میں سے کچھ کتابیں عربی جب کہ بیشتر اُس کی اپنی مادری زبان فارسی میں تھیں۔اُن تمام کتابوں کا ترجمہ دنیا کی تقریباًساری ادبی اور ترقی یافتہ زبانوں میں کیا جاچکا ہے ۔موجودہ زمانے میں طب ِجدید کی عمارت اُن کی مایہ ناز کتاب قانونؔپر ایستادہ ہے۔اُس کتاب کا ترجمہ سب سے پہلے لاطینی زبان میں بارہویں صدی عیسوی میں ہوا تھا ۔کتاب کی مقبولیت اور شہرت بلکہ استفادہ کے اعتبار سے اس قدر مانگ تھی کہ یہ کتاب پندرہویں صدی عیسوی میں سولہ بار ،سولہویں صدی میں بیس بار اور سترہویں صدی میں بار بار شائع ہوتی رہی اور تعداد اشاعت بھی کچھ کم نہیں خاصی ہوا کرتی تھیں۔شیخ ؔ مرحوم کی تصنیفات دنیا کی بڑی بڑی درس گاہوں اور دانش گاہوں میں مدت تک شامل نصاب رہیں۔کیمبرج یونیورسٹی کے مشہورمستشرق اور عربی و فارسی کے مشہور عالم و فاضل اور اپنے وقت کے بہت بڑے مشہور پروفیسر مسٹر براؤن ؔکا کہنا ہے :
’’ شیخ الرئیس بو علی سینا ؔ کے علم و فضل ،ذات اور فطانت سے صرف مشرق ہی متاثر و مستفید نہیں ہوا بلکہ وہ تمام یورپؔ پر چھا گیا تھا اور یورپین اقوام بھی اُس سے فیض یاب ہوئیں۔وہ اپنے علمی تبحر کی بنا پر عالمی سطح کی شخصیت تصور کی جاتی تھی اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جرمنیؔ کی دانش گاہوں میں اب بھی شیخ ؔ کے نظریات پیش نظر رہتے ہیںاور بطور سند پیش کئے جاتے ہیں۔شیخ کی تالیف و تصانیف اُس کی جائے پیدائش ایشیا ؔ خصوصاًایران و عجم میں ملتی نہیں بلکہ یکسر ناپید ہیں لیکن برعکس اس کے یورپ ؔکے کتب خانوں کے لئے وہ آج بھی سامان فخر و زیبائش فراہم کرتی ہیں۔‘‘
اپنے کارناموں ،ذہانت ،تدبر ،عمل و علم اور علم طبیعیات کی وجہ سے شیخ بو علی سینا تا قیامت زندہ و پائندہ رہے گا ۔انسان عقل پر فخر کرتا ہے اور عقل بو علی سینا پر فخر کرتی ہے اور کرتی رہے گی کیونکہ دنیا آج بھی محو حیرت ہے کہ اتنی چھوٹی سی عمر میں وہ کیسے اتنے سارے دقیق علوم پر حاوی ہوگیا اور اتنی ساری کتابیں ایک قلیل وقت میں لکھ ڈالیں ۔فرانسؔ کے رایل میڈیکل کالج میں اندر داخل ہوتے ہی سب سے پہلے شیخ ؔکی تصویر پر ہی نظر پڑتی ہے گویا یورپؔ میں آج تک بلکہ اب بھی اُس کی قدر و منزلت برقرار ہے ۔بقول دل ؔشاہجہاں پوری ؎
دل ہوں یہ ہی فطرت ہے اے اہل ِنظر میری
میں سینۂ عالم میں ہر وقت دھڑکتا ہوں
یہ ہرگز ایک اتفاق نہیں بلکہ ماہرین فن اور حکمائے طبّ کی عظیم پہچان کے لئے یہ ایک خراج ہے کہ آج اتنی صدیاں بیت جانے کے بعد دنیا کو پھر اُن ہی ادویات اور اُسی طریقہ علاج کی جانب رجوع کرنا پڑا جس کی تکمیل کے لئے شیخؔ نے اُس کا دامن تصانیف و تجربات کے خزینوں سے بھر دیا تھا ۔یہ طریقہ علاج اور حکماء بھی کسی نہ کسی صورت میں زندہ تھے مگر وہ گنے چُنے اور نہ ہونے کے برابر ہوا کرتے تھے،مگر موجودہ وقتوں میں بی یو ایم ایس کی ٹریننگ حاصل کرنے کی غرض سے جانے والے بچوں کی تعداد ایم بی بی ایس کی ٹریننگ کے لئے جانے والے بچوں سے کچھ کم نہیں ہوتی ہے ،جو اس طریقہ ٔ علاج کی مقبولیت کے لئے بذات خود ایک ثبوت ہے ۔ اس کے علاوہ گرچہ ابتدائی یا قلیل تعداد کے طور پر سہی مگر پھر بھی وادی میں بیسیوں طبی مراکز اور ہسپتالوں میں قابل اور ماہر ڈاکٹر صاحبان ہر ایک بیماری کا علاج اُسی طریقہ علاج سے تجویز کرکے مریضوں کی ہمہ وقت خدمت میں مصروف و مگن رہتے ہیں اور ریڈیو سے بھی آئے دن اسی طریقہ علاج کی تشہیر اور ڈاکٹر صاحبان کے ساتھ تشخیص امراض پر گفتگو کا سلسلہ بھی برابر جاری رہتا ہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ عوام میں بھی اس طریقۂ علاج کی مقبولیت عام ہوتی جارہی ہے ۔مذکورہ علاج میں کام آنے والی ادویات پہلے بہت سستی ہو ا کرتی تھیں مگر اب اُن کی قیمتیں تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہیں، اس لئے اس ضمن میں ڈرگ کنٹرول محکمہ کا بھی ایک رول بنتا ہے ۔محکمہ کو اس پر نظر رکھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او رینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995