حافظ نوید الاسلام
اسلام ایک ایسا مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کو نہ صرف عبادات بلکہ معاملات میں بھی پاکیزگی، انصاف اور دیانت کی تعلیم دیتا ہے۔ ایمان کی مضبوطی کا ثبوت صرف زبان کے اقرار سے نہیں بلکہ کردار کی سچائی اور امانت داری سے ظاہر ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا:’’یقیناً اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حقداروں کو پہنچاؤ۔‘‘( — النساء: 58)یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ دیانت صرف مالی امانت نہیں، بلکہ ہر ذمہ داری، ہر وعدہ، اور ہر اعتماد ایک امانت ہے۔ ایمان دار انسان کا ضمیر صاف ہوتا ہے، اس کی زبان سچی ہوتی ہے، اور اس کا کردار روشنی کی مانند چمکتا ہے۔ دیانت دراصل ایمان کی خوشبو ہے، جو جہاں پھیلتی ہے وہاں اطمینان، اعتماد اور برکت پیدا کرتی ہے۔ بدقسمتی سے آج کے معاشرے میں یہ خوشبو مدھم پڑتی جا رہی ہے۔ کرپشن، جھوٹ، رشوت، اور اقربا پروری نے معاشرتی روح کو زہر آلود کر دیا ہے۔ ادارے کمزور، انصاف مہنگا، اور حقدار محروم ہوچکے ہیں۔کرپشن صرف مالی جرم نہیں بلکہ روحانی بیماری ہے، جو دلوں کی روشنی کو بجھا دیتی ہے۔ ایک بددیانت انسان نماز پڑھ سکتا ہے، روزہ رکھ سکتا ہے، مگر اگر وہ لوگوں کا حق دباتا ہے یا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے تو دراصل وہ اپنے ایمان کو زنگ آلود کر رہا ہوتا ہے۔ جب معاشرے میں دیانت ختم ہو جائے تو اس کی بنیادیں ہلنے لگتی ہیں۔ آج بہت سے نوجوان اپنی محنت اور قابلیت کے باوجود مواقع سے محروم ہیں کیونکہ سفارش، رشوت اور دھوکے نے انصاف کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ ان کے خواب ٹوٹتے ہیں، ان کی امیدیں مرجھا جاتی ہیں، اور وہ احساسِ محرومی میں ڈوب جاتے ہیں۔یاد رکھیں! ناجائز کمائی وقتی آسائش تو دے سکتی ہے مگر یہ سکون نہیں دیتی۔ حرام کی کمائی سے کھایا ہوا لقمہ دل سے برکت چھین لیتا ہے اور انسان اندر سے خالی ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ — ۔‘‘(البقرۃ: 188)۔پاکیزہ کمائی میں اگرچہ بظاہر کمی نظر آتی ہے مگر اس میں اللہ کی طرف سے سکون، عزت اور دوام ہوتا ہے۔ ایسے لوگ رات کو اطمینان سے سوتے ہیں کیونکہ ان کے دل میں بوجھ نہیں ہوتا۔اگر ہم اپنی نسلوں کو ایک بہتر معاشرہ دینا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے گھروں، اداروں اور دلوں میں دیانت کو واپس لانا ہوگا۔ تعلیم، تربیت اور ایمان — تینوں کو مل کر وہ بنیاد بنانی ہوگی جس پر ایک صاف اور مضبوط امت کھڑی ہو سکتی ہے۔
آج دنیا کے بہت سے معاشرے بظاہر ترقی یافتہ نظر آتے ہیں۔ بلند عمارتیں، روشن سڑکیں اور جدید سہولیات ان کے تمدن کی علامت سمجھی جاتی ہیں، مگر جب انصاف، امانت اور دیانت کے پیمانے ٹوٹ جائیں تو یہ تمام چمک دھوکہ بن جاتی ہے۔کرپشن صرف پیسے کی چوری نہیں، بلکہ یہ اخلاقی زوال کی سب سے بڑی علامت ہے۔ ایک کرپٹ نظام میں انصاف بکنے لگتا ہے، اہل لوگ کنارے لگا دیے جاتے ہیں، اور خوشامد، رشوت، و تعلقات اصل معیار بن جاتے ہیں۔یعنی اگر نظامِ عدل کمزور ہو جائے، تو کوئی قوم خواہ کتنی ہی دولت مند کیوں نہ ہو، بالآخر تباہ ہو جاتی ہے۔ یہی انجام آج اُن قوموں کا ہے جو بدعنوانی کو معمول سمجھنے لگیں۔
ہمیں سوچنا چاہیے کہ جب ایک افسر رشوت لیتا ہے، ایک استاد سفارش پر نمبر دیتا ہے، ایک تاجر ملاوٹ کرتا ہے، ایک قاضی انصاف بیچتا ہے — تو ان سب کی بددیانتی مل کر معاشرے کے ضمیر کو مار دیتی ہے۔ایمان صرف ظاہری عبادتوں کا نام نہیں، بلکہ یہ دل کے اندر پیدا ہونے والا وہ نور ہے جو انسان کو ظلم، جھوٹ اور حرام سے بچاتا ہے۔ اگر ایمان مضبوط ہو تو انسان لاکھوں کے لالچ میں بھی جھوٹ نہیں بولتا۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے دیانت کو ایمان کا جزو قرار دیا۔سچائی اور دیانت انسان کو باعزت بناتی ہیں۔ ممکن ہے دیانت دار کو وقتی نقصان ہو، لیکن وہ نقصان دراصل آزمائش ہے۔ اللہ تعالیٰ دیانت دار بندے کے لیے ایسے دروازے کھول دیتا ہے جن کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ بدعنوانی ختم ہو اور معاشرہ ایمان کی خوشبو سے مہک اٹھے، تو اصلاح کا عمل ہر شخص کو خود سے شروع کرنا ہوگا۔ہر والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں میں سچائی اور دیانت کی عادت ڈالیں۔ ہر استاد کو طلبہ کو صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ کردار کی تربیت بھی دے۔ ہر تاجر، ہر ملازم، ہر عہدیدار اپنے ضمیر سے سوال کرے کہ کیا میں واقعی ایماندار ہوں؟اصلاح کی راہ اجتماعی کوششوں سے بھی جڑتی ہے۔ اگر ادارے شفاف ہوں، احتساب مضبوط ہو، اور نیکی کو عزت ملے تو کرپشن خود بخود کم ہونے لگتی ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے برائی پر خاموشی اختیار کر لی ہے۔ ایک بددیانت شخص رشوت لیتا ہے اور لوگ اسے ’’چالاک‘‘ کہہ کر تعریف کرتے ہیں۔ ہمیں یہ سوچ بدلنی ہوگی۔ سچائی کو عزت دینا اور جھوٹ کو ذلت سمجھنا ایمان کی نشانی ہے۔
اسلامی تاریخ اس بات کی روشن مثال ہے کہ جب دیانت نظام کا حصہ بنی تو دنیا نے مسلمانوں کو ’’امین اور صادق‘‘ کے لقب سے یاد کیا۔ حضورؐ نے مکہ کی تجارت میں کبھی جھوٹ نہیں بولا، کبھی ناپ تول میں کمی نہیں کی، اسی لیے کفار بھی آپؐ پر اعتماد کرتے تھے۔ یہی دیانت اسلامی دعوت کی سب سے بڑی طاقت بنی۔
کرپشن دلوں کا زہر ہے — یہ محبت، اعتماد، اور برکت کو ختم کر دیتی ہے۔ اس زہر کا واحد علاج ایمان اور دیانت کی روشنی ہے۔اگر ہر شخص اپنی ذات میں سچائی کو اپنائے، امانت داری کو شعار بنائے، اور حلال کمائی کو ترجیح دے، تو معاشرہ خود بخود درست سمت میں چلنے لگے گا۔یاد رکھیں! دیانت صرف ایک اخلاقی صفت نہیں بلکہ بندے اور رب کے درمیان ایک عہد ہے۔ جو اس عہد کو نبھاتا ہے، وہ دنیا میں عزت اور آخرت میں نجات پاتا ہے۔کرپشن کے اندھیروں میں بھی اگر چند دل دیانت کی شمع روشن رکھیں، تو انہی کی روشنی سے پوری قوم کو راستہ مل سکتا ہے۔