بلال احمد پرے
خیر الانام سرورکونین، خاتم النبیین، رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ و سلم کے اپنی اس آخری اُمت پر بے حد احسان ہیں جس کے بدولت امت مسلمہ کو آپؐ سے بے حد محبت کرنا واجب بن جاتا ہے۔ پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم کے ذات اقدس کے ساتھ ایسی والہانہ محبت ہونی لازمی ہے کہ جس کا مطالبہ اور توجہ خالق کائنات نے قرآن کریم کے اندر بھی واضع فرمایا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ’’اے محبوب ! فرما دیجئے ان کو کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میری اتباع کرو، خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے اور تمہارے سب گناہوں کو معاف کر دیں گے اور اللہ تعالیٰ بڑے معاف کرنے والے بڑی عنایت فرمانے والے ہیں۔‘‘ (آل عمران : ٣١)
قرآن کریم کے اندر اس طرح کا صاف اعلان کر دینا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں، انہیں چاہیے کہ اللہ کے محبوب نبی حضرت محمد مصطفےٰؐ کی اتباع کرے تب جا کے ان کا دعویٰ حق بجانب ہوگا ۔ یعنی توحید کے ساتھ ساتھ رسالت پر ایمان لانا لازم و ملزوم ٹھرایا گیا ہے ۔اللہ اور اللہ کے آخری رسولؐ کی فرمانبرداری کسی نئی بات، نئی راہ، نیا طریقہ یا نئی شریعت کو اختیار کیے بغیر ‘دین کہلاتا ہے اور اپنی زندگی کے لمحات ہر وقت نبی کریمؐ کے مبارک طریقے کے مطابق گزارنا ‘اطاعت کہلاتا ہے ۔ نبی کریمؐ کی رضا میں اللہ کی رضا قرار دی گئی ہیں ۔ حضور اکرم ؐ کی محبت صرف جذبہ کی حد تک ہی محدود نہ ہو ۔ نہ ہی چند خاص ایام کے ساتھ پابند سلاسل ہو بلکہ ہماری چال و ڈھال، رہن و سہن، قول و فعل، ظاہر و باطن، معاملات و معاشرت، عبادات و خیالات، علم و حلم اور اخلاقیات میں اس کا نمایاں اثر واضع نظر آرہا ہو۔
رب زوالجلال نے قرآن حکیم میں طبعی (Natural ) محبتوں کی پوری فہرست بتا کر انسانیت کو قبل از وقت آگاہ کر دیا اور تاکید کی گئی ہے کہ ان طبعی چیزوں کی محبت محبوبِ سبحانی خاتم النبیین ؐ کے محبت پر بھاری (Dominant) ہوئی تو نافرمانوں میں شمار کر کے ہدایت سے بھی محروم کر دئیے جائیں گے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ اے رسولؐ ! آپ لوگوں کو فرما دیجئے کہ تمہارے ماں باپ، تمہاری اولاد، تمہارے بھائی برادر، تمہاری بیویاں، تمہارا کنبہ قبیلہ اور تمہارا مال و دولت جس سے تم نے کمایا ہے اور تمہاری وہ تجارت جس کے ٹھپ پڑ جانے کا تم کو ڈر ستاتا رہتا ہے اور تمہارے رہنے کے وہ مکانات جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ ساری چیزیں) تم کو زیادہ محبوب اور عزیز ہیں، اللہ اور اللہ کے رسول ؐ سے اور اس کے دین کے لئے کوشش کرنے سے، تو اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا ہے ۔‘‘ (التوبة۔ 24)اس آیت مبارکہ پر غور و فکر کرکےذرا ہم اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ ہمیں ان سب متذکرہ بالا اسباب کی محبت زیادہ سمائی ہے یا اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی محبت؟ خدارا اس سوال کے ساتھ خود ہی انصاف کا فیصلہ کیجئے ۔
ہماری محبت کا یہ دعویٰ کس حد تک سچ ہے ۔ کیا ان سب اسباب کی محبت اللہ اور اس کے رسولؐ کے محبت پر بھاری تو نہیں ؟ کیا ہم واقعی نبی اکرمؐ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ؟ کیا ہمارا یہ دعویٰ صرف جذباتی تو نہیں ؟ کیا ہمارے یہ اسباب نبی پاکؐ کی اطاعت میں رکاوٹ تو نہیں بنتے ؟ یہ مال، اولاد و دیگر اسباب ہمارے دلوں میں اس قدر گھر کئے ہوئے ہیں کہ ہمیں اکثر و بیشتر اوقات میں نبی کریم ؐ کی اطاعت و فرمانبرداری میں کوتاہی ہو رہی ہے اور ہم اللہ اور اس کے آخری رسولؐ کی ناراضگی بہ آسانی مول لیتے ہیں ۔
آقا نامدارؐ سے محبت کا دعویٰ کس حد تک ہونا چاہیے ۔ حدیث مبارک میں واضع طور پر اس کا معیار فرمایا گیا ہے کہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا تم میں سے کوئی مومن کامل نہیں ہو سکتا جب تک میں (محمد رسول اللہؐ) اس کو اس کے ماں، باپ اور اولاد سے اور سارے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ ( سنن النسائی الصحیح البخاری، کتاب الایمان؛ 15)
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانثار صحابہ، عدل و انصاف کے پیکر حضرت عمر فاروقؓ کا ایمان ناقص ٹھہرایا ،یہاں تک کہ آپ ؓنے سرورکونین ؐ کے ذات اقدس کو اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہونے کا دعوٰی پیش نہ کیا ۔ جس کے بعد ہی آپ رضی اللہ عنہ کا ایمان مکمل ہونے کی ضمانت دربار رسالت مآبؐ سے مل گئی ۔ نبی کریمؐ نے فرمایا ،’’ اے عمر، اب آپ پکے مومن ہو گئے ۔‘‘ (الصحیح البخاری : 6623)
سیاہ فام غلام حضرت بلال حبشیؓ نے واقعی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک ہی ملاقات پر فدا ہونے کا صحیح ثبوت دے دیا کہ صحابی رسول بعد میں بن گئے اور محب رسولؐ پہلے ہو گئے ۔
وادی طائف کا وہ شدت پسند بازار گواہ ہے جب نینوا کے عداس نامی غلام کو رسول اللہ ؐ کی محبت پہلی ہی نظر میں اپنا حقیقی عاشق بنا گئی ۔ عداس کا انگور پیش کرنا محبت ہی کی علامت تھی جس نے آپ کو جنگ بدر کے موقع پر غلامانہ زندگی سے شہادت کا عروج حاصل کرنے پر تیار کیا ۔اسی طرح یہی وہ حقیقی عشق تھا جس نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو بہ آوازبلند مقام ابراہیم پر مشرکین کے سامنے قرآن پڑھنے اور سنانے کی قوت ایمان کی جلا بخشی ۔ آپؓ کو کافی مارا گیا، لیکن جب تک دم میں دم رہا، قرآن سناتے رہیں یہاں تک کہ بے ہوش ہو کر گر گئے ۔ یہ رسول اللہ ؐ کے برادر نسبتی حضرت عبداللہ بن جحش تھے جنہیں آپ ؐ سے بے پناہ عشق تھا، آپؓ جیسے بہادر سپاہ سالار اسلام کو جنگ احد کے دوران شہادت کے عظیم رتبہ کو حاصل کرنے کے لئے دعا کرنے پر مجبور کیا کہ آپ ؐ کی ناک و کان کٹتے ہوئے شہادت نصیب ہوئی ۔ یہ بھی عشق حقیقی کا باب ہے جب جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے شہید ہونے کی غلط افواہ پھیل گئی تو حضرت انسؓ بن نظر کی رگوں میں حقیقی عشق کا خون ٹھاٹے مارتے ہوئے دوڑنے لگا اور آپ ؓ نے مشرکین کی صفوں سے بے شمار کفار کو داخل فی النار پہنچایا، خود بھی ۸۰ سے زائد زخم کھا کر شہید ہو گئے ۔ جب پہچان نہ ہوئی تو آپؓ کی ہمشیرہ نے انگلیوں کے پوریوں سے پہچان لیا۔
یہ آپکی رسول اللہ ؐ کے ساتھ بے لوث محبت تھی جس نے جنگ خیبر کے دوران اسود الراعی کو چرواہا سے جنت کا پروانہ بنایا کہ شہید عزیمت کہلایا۔یہ اسی عشق کی کتاب کے اوراق تھے جو حضرت خبابؓ بن الارت کو طعنے سننے پر برداشت کا مادہ پیدا کرتا تھا اور دہکتے ہوئے آگ کے شعلوں کو آپ کے جسم کی چربی سے بجھانے پر مجبور کرتا تھا ۔انصاریہ خاتون کے عشق کی ذکر کئے بغیر شاید اس تحریر کے ساتھ ناانصافی ہوگی جو اپنے باپ، بھائی اور شوہر کی شہادت کی خبر سننے کے باوجود بھی رسول اللہؐ کی خیر و عافیت کی تلاش میں بے چین و بے قرار ہو کر آگے بڑھتی گئی ۔ یہاں تک کہ جب آپ ؐ کا دیدار اپنی نگاہوں سے کر لیتی ہیں تو بے اختیار پکار اٹھی کہ ‘آپؐ کے ہوتے ہوئے ہر مصیبت ہیچ ہے۔ (بیہقی؛ ۳۰۲/۳) اللہ اکبر! یہ قوت ایمانی تھی، یہ بے انتہا عشق تھا جس نے آپ ؓ کو رسول اکرم ؐ کا شیدائی بنایا ۔ ایسی محبت کی مثال کہاں ہم پیش کر سکتے ہیں۔ ہماری محبت آپؐ کے ساتھ کس حد تک ہے ؟ جب کہ رب زوالجلال کو اپنے محبوب نبی ؐ کے خاطر اس معیار کی محبت مطلوب ہے ۔
محمدؐ کی غلامی دین کی شرط اول ہے
اسی میں ہو خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
قارئین کرام کے اندر یہ سوال ضرور پیدا ہوگا کہ بالآخر ہمیں رسول اللہؐ کے ساتھ اس قدر شدید محبت کا حکم کیوں ہے ۔ یہ محبت ہی ہے جو ہمیں نبی کریمؐ کی فرمانبرداری کرنے پر تیار کرتی ہے ۔ کیونکہ محبت کے بغیر اتباع رسولؐ ممکن نہیں ہے اور اتباع رسولؐ کے بغیر اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت بھی ممکن نہیں ہے ۔ قرآن کریم کا کھلا اعلان کہ ’’ بے شک تمہارے لیے رسول ؐ ایک کامل نمونہ ہیں ۔‘‘ (الأحزاب ۳۳:۲۱)آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کو ایمان کا لازمی جز قرار دیا گیا ہے ۔ آج ہم عشق رسولؐ کا دم بھرتے ہیں لیکن یہ صرف جذباتی طور پر ہی ہے ۔ حالانکہ حضور اکرمؐ سے حقیقی محبت کی سچائی و صداقت عملی طور پر ظاہر ہونی چاہیے ۔ آپؐ کی سیرت کے مطابق زندگی بسر کی جائے، آپؐ کی لائی ہوئی شریعت کی حفاظت یقینی بنائی جائے ۔
ربیع الاول کے ان مقدس ایام میں ہمیں یاد دہانی ہو جاتی ہے کہ سرور کونینؐ کے مشن کی آبیاری کرنا ہمارا مقصد ہے۔ ان ایام میں بطور خاص تعلیمات نبوی کو عام کرنے کا پختہ عزم کریں تاکہ دنیا کے سامنے آپؐ کے دین کی صحیح ترویج و اشاعت اور آپؐ کا لایا ہوا پیغام انسانیت کو واضح کیا جا سکیں ۔ ہمیں اپنے دلوں کا محاسبہ کرنا چاہیے کہ اس کے اندر عشق رسولؐ کس قدر جاگزیں ہے۔ آج سیرت رسولؐ سے مکمل رہ نمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آپؐ کا حقیقی محبت ہمارے دلوں میں پیوست ہو سکیں ۔
’’ كان خلقه القرآن‘‘ کے مطابق رسول اللہ ؐ کی حیات طیبہ قرآن مجید کی محفوظ ترین عملی شکل ہے اور قرآن مجید بذات خود حضور اکرمؐ کی سیرت مبارک کی محفوظ ترین تحریری شکل ہے۔ اسی لیے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ کو مضبوطی سے پکڑ کے رکھنے سے ہی گمراہی سے بچا جا سکتا ہے ۔ قرآن کو نسخہ کیمیا اور مردہ دلوں کی آواز بنا کر ایک ایسا نظام تیار کیا جائے جہاں عورتوں کی عفت و عصمت ہر لحاظ سے محفوظ ہو ، ان کی عزت و آبرو کا خاص خیال ہو، چوری، نشہ، دھونکہ دہی، دغابازی، جھوٹ اور بے ایمانی جیسے بُرے اوصاف سے صاف و پاک معاشرہ تشکیل پائیں ۔
الغرض پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرح غریبوں، محتاجوں و مسکینوں، بیواؤں ، یتیموں اور دیگر ضرورت مندوں کی خاطر ماویٰ اور والی بن کر ہر دم اور ہر آہ پر انہیں پیش خدمت رہیں ۔ آپؐ کے سکھلائے ہوئے حسن سلوک کے مطابق اپنے رشتہ داروں، ہمسایوں، دوستوں اور غیر مسلم اقوام کے ساتھ غم خوار بن کر پیش آنا وقت کی پکار ہے۔ رنگ، نسل، ذات اور مسلک کو ایک طرف چھوڑ کر ایک جسم کے مانند بھائی چارہ قائم کریں ۔ یہی حقیقی محبت کی عکاسی اور معیار ہے ۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے محبوب نبی اکرمؐ کے ساتھ حقیقی اور عملی عشق کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
رابطہ- 9858109109