زراعت
سہیل بشیر کار
عام طور پر میں جب بھی کسی کو تحفہ دیتا ہوں تو یا کتاب دیتا ہوں یا بیج ۔گزشتہ سال میں نے ایک کسان کو ایک کلو دھنیا کا بیج تحفہ میں دیا، چند ماہ بعد مجھے جب وہ ملا تو اس نے کہا کہ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ دھنیا کے بیج سے میں نے 30 ہزار سے زائد رقم کی کمائی کی ۔کس وقت کون سا بیج لگانا ہے یہ اہم ہے۔ دھنیا اور میتھی ایسی سبزیاں ہیں جو ہر گھر میں استعمال ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ بہترین ذائقہ کے ساتھ ساتھ ان کے بے شمار طبعی فوائد ہیں۔دھنیا میں پوٹاشیم، کیلشیم،کاپر،آئرن ،زنک،وٹامن بی،وٹامن سی اور میگنیشیم پایا جاتاہے۔دھنیا کولیسٹرول کی سطح کو بڑھنے سے روکے رکھتا ہے۔ دھنیا کے پتے کولنیرجک نامی مرکب اور کیلشیم سے بھرپور ہوتے ہیں اور یہ دونوں جزو خون کی گردش کو متناسب بنائے رکھتے ہیں۔جس سے بلڈ پریشر میں کمی واقع ہوتی ہے۔مختلف نیوٹرنٹس سے بھرپور دھنیا معدے کو تقویت پہنچا کر نظام انہضام کے کارکردگی کو بہتر بنا دیتا ہے۔ ایک ڈچ جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق دھنیا کے پتے قدرتی طور پر جسم کے کسی بھی حصہ کی انفلیمیشن (سوزش یا جسم کے کسی بھی حصہ کا سرخ ہونا ) کو کم کرنے کا ذریعہ ہے۔ دھنیا کے تیل، اومیگا 3 اور 6 کا ایک مکسچر بنا کر متاثرہ جگہ پر ملنے سے آپ کو فوری آرام مل سکتا ہے۔دھنیا میں اینٹی بیکٹریل مرکبات بھی شامل ہوتے ہیں، جو کسی بھی طرز کی انفیکشن کے علاج میں نہایت معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ان کے علاوہ کینسر کے علاج، قوت مدافعت میں اضافہ اور اچھی نیند لانے میں بھی دھنیا میں شامل اجزاءاہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دھنیا کا بیج جلد کی خارش اور جلد کی سوجن کا علاج کرتا ہے اور جلد کی سوزش سے نجات دیتا ہے۔دھنیا کے دالوں کا ہلدی اور شہد کے ساتھ ملاوٹ سے جلد کے چھالے ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ دھنیا کے بیج دل کو مضبوط بناتے ہیں اور ہاضمے میں مدد دیتے،دھنیا سے کون واقف نہیں ،ایشیا میں اس کا استعمال تمام قسم کے کھانوں میں ہوتا ہے۔اس کے علاوہ اسے اگر پکوڑوں میں شامل کیاجائے تو اس کا ذائقہ دوبالا ہوجاتاہے۔دھنیا ایک ایسی چیز ہے جسے نباتات کے خاندان میں بھی شمار کیا جاتا ہے اور ہرے اور گرم مسالہ جات میں بھی اس کا ایک اہم مقام ہے۔ ہرے دھنیا کی پتیوں کو پاکستانی، چینی، بھارتی، بنگلہ دیشی اور دیگر براعظموں کے مختلف پکوانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم، دھنیا ایک مسالے کے طور پر مختلف ہوتا ہے اور یہ زیادہ تر ایشیائی پکوانوں کی تراکیب میں استعمال ہوتا ہے، خاص طور پر شوربے دار پکوانوں میں دھنیے کا استعمال باقاعدگی سے ہوتا ہے۔
میتھی (حیاتیاتی نام: Trigonella foenum-graecum) ایک پودا ہے جسے سبزی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے عربی میں حلبہ اور انگریزی میں Fenugreek کہا جاتا ہے۔ اس کے تازہ پتوں کو پکا کر کھایا جاتا ہے اور اس کے بیج، جو میتھی دانہ کہلاتے ہیں، انہیں مختلف بیماریوں مثلاً ذیابیطس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا رنگ سبز اور بیجوں کا رنگ زرد مائل بہ سرخی ہوتا ہے۔ اس کے بیج 4000 سال قبل مسیح کے آثار تل حلال (عراق) سے برآمد کیے گئے ہیں، جس سے اس کے قدیم استعمال کا پتہ چلتا ہے۔ یہی بیج توتن خامن نامی فرعون کے مقبرے میں سے برآمد ہونے والی اشیاء میں بھی شامل تھے، ماہرین کےمطابق میتھی دانہ اور اس کے پتے جسم میں موجود کولیسٹرول کو کنٹرول کرنے میں بہت مفید ہیں۔
میتھی میں موجود فائبر اور اینٹی آوکسیڈنٹ جسم سے زہریلے مادوں کو خارج کرنےاور کولیسٹرول کو کنٹرول میں کرنےمیں مددگار ہیں ۔ماہرین کی حالیہ تحقیقاتی رپورٹ کےمطابق میتھی دانہ اور اس کے پتے جسم میں موجود کولیسٹرول کو کنٹرول کرنے میں بہت مفید ہیں۔میتھی کولیسٹرول اور ٹریگسیسرائڈز کو بھی کنٹرول کرتا ہے، میتھی دانہ نظام انہضام کی بہتری میں بھی کردار اداکرتا ہے، میتھی سے قبض کا عارضہ رفع ہوتا ہے جب کے آنتوں کی سوزش کو ختم کرنے میں بھی معاون ہے۔ میتھی فائبر اور اینٹی آوکسیڈنٹ سے بھرپورہے جو جسم سے زہریلے مادوں کو خارج کرنے میں بھی مددگار ہوتا ہے ۔ایک تحقیق سے یہ بات پتہ چلی ہے کہ وہ افراد جو ٹایپ 1 ذیا بیطس میں مبتلا تھے؛ انہوں نے دوپہر کے کھانے اور رات کے کھانے میں میھتی دانے کا 50 گرام پاؤڈر لیا اور ایک ہفتے بعد ان کی بلڈ شوگر میں کمی نظر آئی۔
وادی کشمیر میں سبز دھنیا دسمبر اور جنوری کے بغیر کسی بھی موسم میں اگایا جا سکتا ہے، ۔بہتر ہے کہ دو یا تین چمن میں لگایا جائے اور اگر ایک چمن میں آپ بیج ستمبر میں لگائیں گے؛ دوسرے میں دس دن بعد اور تیسرے میں اور دس دن بعد عمل دوبارہ شروع کیجئے، اس سے آپ سال بھر سبز دھنیا کھا سکتے ہیں۔دھنیاکا بیج ڈائریکٹ لگایا جائے، الگ سے پنیری تیار نہیں کی جاتی، دیگر سبزیوں کی طرح دھنیا اور میتھی اگانے کے لیے اچھی مٹی چاہیے، مٹی میں ورمی کمپوسٹ اچھے سے مکس کیجئے، ورمی کمپوسٹ نہ ہونے کی صورت میں سڑا ہو کمپوسٹ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔زمین کو کم از کم تین بار جوتیے، مٹی کو مہین کرے اور اچھے سے لیول کریں تاکہ پونی جمع نہ ہوجائے۔
آدھا کلو دھنیا کا بیج ایک کنال کے لیے کافی ہے۔محکمہ زراعت سے یا رجسٹرڈ ڈیلر سے اچھی کمپنی کا بیج ملتا ہے، پھوجا، گلوبل یا گرین چوائس کا پریجت بیج اچھا ہوتا ہے، دھنیا کے بیج میں ایک کام ضرور کریں، بیج کسی کاٹن کپڑے میں ڈالیے اور بیلن کو اس کپڑے پر roll کریں، تب تک یہ عمل آہستہ آہستہ دوہراتے رہے جب تک نہ بیج دو حصوں میں تقسیم ہوگا۔ آپ بیج کو سینڈ پیپر میں بھی ڈال کر دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں، دراصل دھنیا کے ایک بیج میں دھنیا کے بیج کے دو دانے ہوتے ہیں اگر آپ دھنیا کو دو حصوں میں تقسیم کریں گے تو دھنیا اچھے سے اگے گا۔اس کے بعد دو حصوں میں توڑا ہوا دھنیا چوبیس گھنٹے پانی میں بھگو کر رکھیں۔پھر یہ سیڈ زمین میں ہر جگہ پھیلائیں،اگر آپ بیج توڑے بنا بھی لگا رہے ہوں تو 24 گھنٹے پانی میں بھگو کر رکھے. ہر سبزی قطار میں ہی لگانی چاہیے۔دھنیا اور میتھی کو بھی لین میں ہی لگائے. قطار سے قطار کا فاصلہ 25 سنٹی میٹر اور پودے سے پودے کا فاصلہ 10سینٹی میٹر رکھے۔ گوڈائی 2سے 3 بار کریں سنچائی ضرورت کے مطابق دیجئے،ایک ماہ بعدسبز دھنیہ تیار ہوگا، اس کے بعد آپ دھنیا کا بیج بھی اگا سکتے ہیں، ایک کنال زمین میں میتھی لگانے کے لئے ایک کلو سے سوا کلو بیج کی ضرورت ہے۔میتھی وادی کشمیر میں ستمبر سے نومبر تک اگایا جا سکتا ہے، اگر کمرشل لیول پر میتھی لگانا چاہتے ہیں تو 6.5 کلو ہورہا دے سکتے ہیں۔قطاروں کے درمیان 8 انچ جبکہ پودوں کے درمیان 5 انچ کا فاصلہ رکھیں۔بیج لگانے سے ایک دن پہلے بیج کو پانی میں بھگو کر رکھیں اس سے پہلے اچھی جرمنیشن ہوگی،پانی ضرورت پڑھنے پر ہی دیجئے۔ایک ماہ بعد میتھی تیار ہوگی، میتھی اور دھنیا کا اگر آپ بیج لینا چاہیں تو پودے کو جڑ سے نہ اکھاڑے، میتھی تیار ہوگی ۔ایک کنال زمین میں پانچ سو کلو میتھی کے پتے اور 40 کلو میتھی کا بیج مل سکتا ہے اور آدھے ٹن سے زیادہ سبز دھنیااور 20 سے 30 کلو دھنیا بیج کی پیدوار ہو سکتی ہے، لہذا اس آسان طریقے سے اُگائی جانے والی سبزیوں کو لگائیں۔
( کالم نگار محکمہ زراعت میں جونئیر ایگریکلچر آفیسرہیں)
رابطہ ۔ 9906653927