بشیر اطہر
گاؤں کے اوپر صبح کی روشنی نے جیسے سنہری چادر تان رکھی تھی۔ دھند کی ہلکی سی پرت دھان کے کھیتوں پر اُتری ہوئی تھی، سورج کی کرنیں اس پر پڑتیں تو وہ چمکنے لگتی، جیسے قدرت نے زمیں پر موتی بکھیر دیئے ہوں۔
بھیم راو اپنے کھیت میں جھکے ہوئے، درانتی سے دھان کی فصل کاٹ رہے تھے۔ چہرے پر محنت کا پسینہ تھا اور دل میں شکر گزاری۔ اس سال کی فصل بہت اچھی تھی۔ خدا کی مہربانی سے زمین نے سونا اگلا تھا۔
“بابا… بابا… چائے لے آئی ہوں!” بیٹی کی مترنم آواز میں خلوص کا ایسا رس تھا، جو تھکے ہوئے وجود کو پھر سے جوان کر دیتا ہے۔
شکنتلا چائے کی پیالی تھامے کھڑی تھی۔ نرم دھوپ میں اس کا چہرہ جیسے کسی مقدس کتاب کا روشن صفحہ ہو۔ بھیم راو نے درانتی زمین میں گاڑ دی اور ندی کی طرف چل دیئے۔ ہاتھ منہ دھو کر واپس آئے تو بیٹی کے قریب آ کر مسکرا کر بولے،
“شکنتلا، بھگوان کی کرپا سے فصل خوب ہوئی ہے۔ اور اس سال تو… تمہاری شادی بھی ہے نا؟”
شکنتلا نے شرماتے ہوئے نظریں چُرائیں،
“بابا! آپ تو جیسے مجھے گھر سے نکالنے پر تُلے ہیں!”
بھیم راو نے محبت سے اس کی پیشانی کو چھوا،
“نہیں بیٹا، ایسا نہ کہو۔ تم تو میرے جگر کا ٹکڑا ہو۔ شادی تو فطرت کا تقاضہ ہے۔ سُکھ رام بار بار کہہ رہا ہے کہ اب شکنتلا کو دلہن بنا ہی دو۔ میں بھی چاہتا ہوں، اپنی زندگی میں تمہیں دلہن بنتے دیکھوں۔”
سکھ رام گاؤں کا وہی ذرا امیر کسان تھا، جس نے شکنتلا کو اپنے بیٹے کے لئے مانگ رکھا تھا۔ دو برس ہو چکے تھے منگنی کو، اب صرف وداعی کی رسم باقی تھی۔
شکنتلا نے پیار سے باپ کو دیکھا،
“بابا، میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی۔ تمہاری خدمت کون کرے گا میرے بعد؟”
بھیم راو نے درخت سے ٹیک لگا لی، چائے کی پیالی تھام لی۔ شکنتلا پھر سے کہنے لگی،
“میں نے کہا تھا کچھ مزدور بلا لیجیے، آپ اکیلے اتنا کام نہیں کر سکتے۔”
“ڈھونڈا بیٹا، پر کوئی نہیں ملا۔ حاجی شوکت کے کھیتوں میں بہار کے مزدور کام کر رہے ہیں، وہ دو دن میں بھیج دیں گے۔ سوچا، تب تک خود ہی کیوں نہ کر لوں؟ تم بالکل اپنی ماں شیبا جیسی ہو گئی ہو… وہ بھی ہمیشہ منع کرتی تھیں مجھے کام کرنے سے۔”
شیبا… وہ نیک بیوی، پیاری ماں، کئی برس پہلے دل کا دورہ پڑنے سے چل بسی تھی۔ بھیم راو اس کے جانے کے بعد اندر سے کچھ ٹوٹ گیا تھا۔ بیٹا رام کرشن ولایت جا بسا، وہیں شادی کر لی اور پلٹ کر خبر تک نہ لی۔ بس ایک بیٹی تھی، شکنتلا، جس نے ماں بن کر باپ کو سنبھالا۔
چائے کی پیالی بھیم راو کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے شکنتلا کھیت کے دوسرے کنارے چل دی۔ وہ دھان کی بالیوں کو چوم رہی تھی جیسے اپنے بچوں کو پیار کر رہی ہو۔
بھیم راو چائے پیتے پیتے خیالات کی دنیا میں کھو گئے۔ آنکھیں بند کیں تو جیسے شیبا سامنے آ بیٹھی ہو…
“شیبا، دیکھتی ہو؟ ہماری بٹیا کتنی بڑی ہو گئی ہے۔ اس کی شادی کے لئے جو جھمکا لایا ہوں، دیکھا تم نے؟”
شیبا نے شوخی سے کہا، “جھمکا مہنگا ہوگا نا؟”
“ارے پگلی! ہماری ایک ہی بیٹی ہے، اگر اس کے لئے نہ لاؤں تو دولت کا کیا فائیدہ!”
“اور جو سرخ لہنگا لائے ہو، اسے پہلے خود پہن کر دیکھ لینا… کہ لمبا تو نہیں ہے؟”
“میں کیوں پہنوں گی؟ خود پہن کے دیکھو… ویسے میرے لیے کب لائے تھے ایسے کپڑے؟” شیبا نے شکایت کی۔
“جب تم دلہن بنی تھیں تب لایا تھا نا۔”
“ہوں… مجھے تو پھٹے پرانے کپڑے ہی ملے تھے، دیکھو یہ سوراخ…”
شیبا نے پیرہن کا کونا دکھایا۔ پھر روٹھ کر جانے لگی، “میں نہیں بولتی تم سے!”
“شیبا!” بھیم راو نے پکارا۔
آنکھ کھلی تو چائے کا پیالہ ہاتھ سے گر چکا تھا۔ خیالوں کی دھند چھٹ چکی تھی۔ شکنتلا دوڑتی آئی،
“بابا! آپ نے کس کو پکارا؟ چائے کیوں گر گئی؟”
بھیم راو نے نظر چرائی، “کچھ نہیں بیٹا…”
شکنتلا نے نیا پیالہ دیا اور کہا،
“آپ کا دھیان کہیں اور رہتا ہے، خود کا خیال نہیں رکھتے۔”
اسی دن شام کو دونوں باپ بیٹی دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے، ہنستے رہے، خواب بنتے رہے اور پھر نیند کی آغوش میں کھو گئے۔
صبح سورج چمک رہا تھا۔ چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ شکنتلا اٹھی، ناشتہ تیار کیا اور باپ کے کمرے میں چلی گئی۔
“بابا… بابا… اٹھئے نا!”
کوئی جواب نہ آیا۔
وہ قریب گئی، چادر ہٹائی تو دل لرز گیا۔ جسم ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ سانسیں تھم چکی تھیں۔
“نہیں! ایسا نہیں ہو سکتا!”
اس کی چیخ نے خاموش گاؤں کو ہلا دیا۔
لوگ جمع ہوئے۔ ارتھی اُٹھی۔ بھیم راو کا انتم سنسکار ہوا۔ شکنتلا بےحس، ساکت بیٹھی رہی۔
کچھ دن بعد، رسموں کے تحت، سُکھ رام نے شکنتلا کی شادی اپنے بیٹے سے کر دی۔ مگر یہ شادی شادی نہ تھی، زخم تھا۔ سسرال والوں نے دل میں جگہ نہ دی۔ وہ شکنتلا جو باپ کے لیے جیتی تھی، اب اپنے ہی سسرال میں پرایا احساس لے کر جینے پر مجبور تھی۔
دن بیتے۔ ایک دن گاؤں میں خبر پھیلی،
“سُکھ رام کی بہو گھر سے بھاگ گئی ہے!”
کچھ ہی دیر میں وہ ملی۔ سیب کے باغ میں، ایک درخت سے لٹکی ہوئی۔ اس کی معصوم جان، دنیا کے ظلم سے ہار گئی تھی۔
تب سے کہتے ہیں، شکنتلا کی آتما سکھ رام کے گھر والوں کو چین سے سونے نہیں دیتی۔ ہر رات جیسے دھند اس گھر پر چھا جاتی ہے۔ کوئی دروازے پر دستک دیتا ہے، کوئی نام لے کر پکارا جاتا ہے، اور ہر صبح… ہر صبح گھر کے آنگن میں، ایک ٹھنڈی چائے کی پیالی پڑی ہوتی ہے…!
���
خانپورہ کھاگ بڈگام، کشمیر
موبائل نمبر؛ 7006259067